فیملی پلاننگ ۔۔۔۔۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کو ملنے والی امریکی امداد بند ۔۔۔۔۔ اہم سوالات نے سر اٹھا لیا ؟

بظاہر غیر ملکی فنڈز کا رخ اس لیے تبدیل ہوا ہے کہ بڑے پیمانے پر کرونا سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں اور بتایا جا رہا ہے کہ امریکہ اور دیگر ملکوں سے مختلف ملکوں میں آنے والے فنڈز کی پہلی ترجیح اب صرف کرونا وائرس سے نمٹنا ہے اس لیے دنیا بھر میں صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور این جی اوز میں کام کرنے والے افسران اور ملازمین کو بھی اس صورتحال کا ادراک کرنا ہو گا پاکستان جیسے ملکوں میں اب این جی اوز خاص طور پر غیر ملکی فنڈنگ پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے انتہائی مشکل اور سخت دن شروع ہونے والے ہیں کیونکہ ان کی علمی اور غیر ملکی فنڈنگ کیا تو بند کی جارہی ہے یا اس میں اتنی کٹوتی کی جا رہی ہے کہ انہیں اپنا آپریشن ماضی کی طرح جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا اس کے نتیجے میں ان کی جانب سے فراہم کی جانے والی سروسز خدمات مصنوعات کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی اور انہوں نے بڑے بڑے پیکجز اور پر کشش سیلری پر جو عملہ ملازم رکھا ہوا تھا اب اس کو فارغ کیا جائے گا ان کے یہاں بےروزگاری کی نئی لہر آئے گی یا اسٹاف کی تنہائی اور مراد میں زبردست کٹوتی اور کمی واقع ہوگی جس کا اثر ہونے کی لائف اسٹائل اور کارکردگی پر ہو گا اور نتائج مایوس کن ہوں گے ۔۔۔۔۔دوسری طرف ماہرین یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ فیملی پلاننگ جیسے معاملے میں غیر ملکی فنڈنگ عین اس وقت کیوں رو کی جارہی ہے یا اس میں کمی کی جا رہی ہے جب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ ہوا ۔۔،ان دونوں معاملات کا آخر آپس میں کیا تعلق ہے اور دونوں فیصلوں کی ٹائمنگ اور ان کے نتائج اور اثرات پاکستان جیسے ملکوں پر کیا ہوں گے ؟کیا فیملی پلاننگ اور دیگر حوالوں سے کام کرنے والی این جی اوز درحقیقت امریکی فنڈنگ اور غیر ملکی فنڈنگ سے کوئی درپردہ اور خفیہ ایجنڈا آگے لے کر بڑھ رہی تھیں اور کیا انہوں نے اپنا کام مکمل کرلیا اب امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہے گی اور کیا اسی لئے ان کی فنڈنگ میں یکدم لاکھوں ڈالر کی کٹوتی اور کمی کردی گئی ہے ؟۔۔۔۔۔ کچھ ذہن ان دونوں معاملات کو آپس میں جوڑنے کے پہلو پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ اسے ایک فضول بحث قرار دے رہے ہیں لیکن بہت سے ذہن ایسے بھی ہیں جو بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس اور شکیل آفریدی جیسے کرداروں کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں اور غیر ملکی انٹیلی جنس نیٹ ورک کی جانب سے این جی اوز کے ذریعے اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے اور اپنے خفیہ اہداف پر کام کرنے کے لئے اس قسم کی غیر سرکاری تنظیموں اور این جی اوز کا استعمال کرنے کے معاملات کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں ۔
پاکستان دنیا میں زیادہ آبادی رکھنے والے ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر آ چکا ہے پاکستان کو تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی اپنی آبادی کو قابو کرنے اور رفتار کم کرنے کے اقدامات کے لئے غیر ملکی فنڈنگ دی جاتی رہی ہے اور امریکی فنڈ بھی اس سلسلے میں آتے رہے ہیں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے ان فنڈز کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں خرچ کیا جاتا رہا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں افغانستان سے آنے والے افغان باشندے اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں کی آبادیوں پر توجہ دی جاتی رہی ہے ۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ FP 2020کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کو جواہداف دیے گئے تھے ان کے حصول میں پاکستان بری طرح ناکام رہا حالانکہ حکومت پاکستان نے ان اہداف کے حصول کے لئے بھرپور اقدامات کرنے کی یقین دہانی ہر فورم پر کرائی تھی اب FP 2030 کے حوالے سے نئے اہداف اور نئے عزائم سامنے آ رہے ہیں ۔1947 میں قیام پاکستان کے وقت ہماری آبادی محض 32 ملین تھی اور آبادی میں اضافے کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں کافی زور لگایا گیا لیکن نتائج حوصلہ افزا نہیں نکلے اور آبادی اتنی بڑھ گئی کہ آج ہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں پانچویں نمبر پر آ چکے ہیں ۔غیر ملکی فنڈنگ اور عالمی اداروں کی مدد اور تعاون حاصل کرنے کے باوجود ہمارا ملک آبادی کی رفتار میں کمی لانے کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا اور تمام دعوے غلط ثابت ہوئے اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے اداروں اور شخصیات نے فیملی پلاننگ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا نہیں کیا اور ہم غیر ملکی فنڈنگ کرنے والے اداروں اور فیملی پلاننگ کے لیے مصنوعات اور خدمات کی فراہمی میں مدد اور تعاون کرنے والے ملکوں کو گمراہ کن بیٹا اور اعداد و شمار پیش کرتے رہے اور آخر میں نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا اعتبار نہیں رہا کیونکہ ہماری آبادی کے اپنے مرتب کردہ اعدادوشمار نے فیملی پلاننگ کے لیے کام کرنے والے ہمارے لوگوں کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے اور نتائج نے ثابت کیا کہ ہمارے لوگوں کے بھرپور کام کرنے کے تمام دعوے سچ پر مبنی نہیں تھے بلکہ ان میں مبالغہ آرائی اور غیر حقیقت پسندانہ رپورٹنگ شامل تھی FP2020 کے اہداف کے مطابق ہمیں CPR ریٹ 50 فیصد تک لے جانا تھا لیکن دور دور تک ایسا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آیا ۔یہاں تک سال 2021 شروع ہوگیا اور کچھ بچت اس لئے ہو گئی کہ دنیا نے کو ویڈ 19 کرونا سے پیدا شدہ مشکلات کی وجہ سے رعایت دے دی .لیکن امریکی حکام پہلے سے پاکستان اور بعض دیگر ملکوں کی صورتحال سے باخبر ہو چکے تھے یہی وجہ تھی کہ فیملی پلاننگ کے حوالے سے امریکی گرانٹ میں کمی اور کٹوتی کی گئی اور فیملی پلاننگ کے لیے پانچ سالہ پروگرام کے 40 ملین ڈالر کی گرانٹ کو کینسل کر دیا گیا جس سے پاکستانی متعلقہ لوگوں اداروں تنظیموں کو زبردست دھچکا لگا پنجاب اور سندھ میں ایف پی سروسز کو اچانک بند کرنا پڑا جس کے نتیجے میں 20 لاکھ شادی شدہ عورتوں اور بچے پیدا کرنے کی عمر والی عورتوں کو فیملی پلاننگ سروسز کی فراہمی اکثر بند ہوگئی۔ پاکستان میں فیملی پلاننگ کے حوالے سے سرگرم ایک غیر سرکاری ادارے ماری سٹوپس سوسائٹی پاکستان کے جاری منصوبوں کو بھی اس امریکی فنڈنگ کی کٹوتی سے بہت نقصان ہوا ہے اور ان کے لوگوں کا بتانا ہے کہ اگر یہ پروگرام اچانک بند نہ ہوتا توMSS ایم ایس ایس مزید 596 میٹرنل ڈیتھ روک سکتا تھا .کیونکہ FP سروسز مزید 9 لاکھ خواتین کو فراہم کر پاتے .اور سات لاکھ کے قریب غیر پسندیدہ عمل بھی رکھوائے جا سکتے تھے ۔ماہرین یا دلاتے ہیں کہ سال 2012 اور سال 2013 کا پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے بتا چکا ہے کہ پاکستان میں صرف 26 فیصد خواتین فیملی پلاننگ کے طریقے استعمال کرتی ہیں ان میں سے بھی 37 فیصد اس طریقہ کو پہلے سال کے اندر ہی چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ سائیڈایفیکٹ اور صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں مزید حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں اڑتالیس فیصد حمل بغیر خواہش کے واقع ہوتے ہیںان میں سے 54 فیصد پر غیر محفوظ طریقے سے ختم کرائے جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی ابارشن کی تعداد بہت زیادہ ہے ماہرین کے مطابق 6000 روزانہ سے زیادہ ا بارشن ہوتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق سال ،2002 کے مقابلے میں سال 2014 تک ابارشن ریٹ میں 90% اضافہ ہوا ہر ہزار حمل میں سے پچاس ابارشن ہوتے ہیں جن میں سے اڑتالیس فیصد غیر محفوظ طریقے سے ہوتے ہیں اور تیس فیصد کیسز میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہے ۔ماہرین بتاتے ہیں کہ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 97 ہزار سالانہ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں دنیا میں بارہ سو سے زیادہ یا تیرہ فیصد ابارشن غیر محفوظ طریقے سے ہوتے ہیں چنانچہ چیدگی بڑھ جاتی ہیں 68% فیصد کیسز دائیاں کرتی ہیں 49 فیصد کیسز لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کرتی ہیں اور دس فیصد کیسز گائناکولوجسٹ کے پاس جاتے ہیں رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 22ملین غیرمحفوظ ابارشن ہوتے ہیں 47 ہزار اموات ہوتی ہیں جن میں پانچ ملین خواتین پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں پاکستان میں 35فیصد جوڑے FP- CPR استعمال کرتے ہیں استعداد اور تناسب کو پچاس فیصد تک بڑھانا تھا یہ ہمارے لئے FP2020 کا ٹارگٹ تھا لیکن اسے حاصل کرنے میں ہمارا ملک ناکام رہا ۔یہ ناکامی صرف سرکار اور سرکاری اداروں کے حصے میں نہیں آئی بلکہ تمام سرکاری تنظیمیں ادارے بھی اس میں برابر کے شریک رہے ۔۔۔۔۔سب کی مجموعی کارکردگی غیر تسلی بخش اور غیرمعیاری رہی جس کے نتیجے میں آبادی کی رفتار میں کمی نہیں آسکی جس کی ضرورت تھی کراچی سرکاری سطح پر وسائل اور آبادی میں توازن کا نیا نعرہ لگایا گیا لیکن اب تک یہ نعرہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا ۔