سردرار ممتاز بھٹو۔ زندگی کا میلہ چھوڑ کر رخصت ہوئے

سہیل دانش
—————-
وہ اپنے دوستوں اور دلدراروں کے شانوں پر اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب زیر زمین یہ ان کا آخری آشیانہ ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے 1972؁ء میں قوم کے نام اپنے خطاب میں پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر جناب ذوالفقار علی بھٹو اعلان کر رہے تھے کہ وہ اپنے خاندان کے کسی اور فرد کو نہیں صرف اپنے ٹیلینٹڈ کزن کو ایک اہم ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں۔ یہ بھٹو قبیلے کے سردرار نبی بخش بھٹو کے صاحبزادے ممتاز علی بھٹو تھے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ 2اپریل 1979؁ء کی دوپہر چند فوجی آفِیسرز سردار نبی بخش بھٹو کے گھر جا کر انہیں مطلع کرتے ہیں کہ بھٹو کی ممکنہ سزائے موت کے بعد وہ تدفین کیلئے جگہ کی نشاندہی کر دیں۔ یہ سن کر سردار نبی بخش بھٹو سناٹے میں آگئے انہیں اس لمحے یقین ہوگیا کہ فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیاہے۔


92سال قبل نبی بخش بھٹو کے گھر جس بچے نے جنم لیا اس کا نام ممتاز علی رکھا گیا۔ ممتاز بھٹو بڑے کمال کے انسان تھے انہوں نے زندگی کی نو دہائیاں دیکھیں۔ ایک بھر پور زندگی گزاری۔ سیاسی میدان میں وہ بڑے نشیب و فراز سے گزرے۔ وہ اس وقت ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے جب سندھ اسمبلی میں لینگویج بل پیش کیا گیا۔ وہ اس وقت سندھ کے اسٹرونگ مین تھے۔ جب بھٹو نے انہیں سندھ کی حکمرانی سونپی تو وہ بڑے سجیلے جوان تھے۔ خوبصورت سوٹنگ ان کی کمزوری تھی سرداروں کی طرح سینہ تان کر چلتے تھے میں نے متعدد باران کے انٹرویوز کئے دو تین ملاقاتوں کے بعد ان سے بے تکلفی ہو گئی تھی۔ ان کے کوٹ، پینٹ یا کرتے کی جیب میں بادام ہوتے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جیب سے نکالتے پھنکا مارتے۔ میں نے پوچھا یہ چہرے کی شادابی اور فٹنس کا راز یہی بادام تو نہیں؟ کہنے لگے بابا کیو ں مذاق کرتے ہو۔ بس یہ شغل ہے۔
میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے 1972؁ء میں لینگویج بل سندھ اسمبلی میں پیش کر کے خود کو متنازعہ کیوں بنایاتھا جب کہ اس وقت آپکی شخصیت کا تاثر ایک مضبوط اور اپنی بات کو منوانے اور اس پر عمل درآمد کرانے والے حکمران کے طور پر ابھر رہا تھا۔ انہوں نے بلا تذبذب جواب دیا”سندھ سندھیوں کا ہے مانتا ہوں مہاجروں نے آزادی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ ہم اس حوالے سے ان کی قربانیوں کے متعرف ہیں لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ وہ بیوروکریسی میں آئے کاروبار میں آگے بڑھے۔ تمام اداروں نے انہوں نے مختلف پوزیشن سنبھالی وہ چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے تک بھی پہنچے۔ وہ حکمرانی کے ایوانوں میں بھی آئے ہم نے کبھی نہیں کہا کہ یہ غلط ہے بلکہ ہم نے ان کی خاطر مدارت کیلئے اپنا دستر خوان بچھادیا تھا اور وہ اب بھی بچھا ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دراز ہو رہا ہے لیکن یہ تو مانیں کہ یہ دھرتی سندھیوں کی ہے۔ سندھی بن کر آپ یہاں رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں یہ تاریخ کی سچائی ہے۔ ہماری تاریخ بہت قدیم ہے میرا سوال تھا کبھی آپ نے سوچا کہ سندھ میں اردو اسپیکنگ آبادی آپکی متعصبانہ پالیسیوں کے سبب آپ سے نالاں ہے۔ کہنے لگے میرے بیشتر دوست اردو اسپیکنگ ہیں ایسی کوئی بات نہیں انصاف کی بات تو یہ ہے کہ کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئیے۔ لیکن کسی بھی علاقے کے حوالے سے وہاں رہنے والوں کی جو بھی شناخت ہو وہ تو قائم رہنی چاہئیے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ سندھ،سندھیوں کی دھرتی ہے۔ ممتاز علی بھٹو نے بڑی پر جوش زندگی گزاری رومانویت انکے مزاج کا حصہ تھی تعلیم شہروں میں پائی لیکن انہیں ہمیشہ گاؤں میں رہنا پسند تھا۔ کہتے تھے گاؤں کی آزاد فضاؤں میں تازہ ہوا کھانے پینے کی ہر چیز خالص زندگی بڑی روایتی ہوتی ہے۔ بناوٹ کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوتا محبت پیا ر اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا کلچر موجود ہے۔ شہروں کا اپنا حسن ہے یہاں زندگی متحرک ہے۔ اس لئے آپ دیکھیں میں نے شہروں میں رہ کر تعلیم حاصل کی آکسفورڈ سے گریجویشن کیا بتانے لگے کہ وہ ایک اچھے اسٹوڈنٹ تھے۔ ان کے مطالعے کا شوق شروع سے تھا۔ تاریخ، سیاسیات، معاشیات اورانٹرنیشنل ریلیشن سردار بھٹو کے پسندیدہ مضامین تھے۔ کراچی میں وہ کلفٹن پر سابق گورنر جناب کمال اصفر کے پڑوسی رہے۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے انکی رہائش گاہ رہی جو بعد میں ڈیفینس کے کسی اور فیز میں منتقل ہو گئے۔ صوفیائے کرام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ کہنے لگے جب میں حکومت میں رہا ان بزرگارن دین کے مزارات کی تعمیر و تزئین پر خصوصی توجہ دی۔ بتانے لگے کہ پہلے ہمارے پاس 80ہزار ایکڑ زمین تھی اصلاحات کے بعد یہ کم ہو کر آدھی رہ گئی زمینوں پر انہوں نے شکار گاہ بھی بنائی ہوئی تھی۔ کتوں کی نسلوں پر وہ گھنٹوں بات کر سکتے تھے۔ مجھے وہ اس موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا دکھائی دئیے۔ ان کے پاس اعلیٰ ترین کتوں کی لاجواب جوڑیاں تھیں۔ مزے مزے کے کھانوں کے شوقین تھے۔ کہنے لگے ہمارے ہاں مصالحے والے مرغی جو انگاروں پر بنتی ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہماری ہاں بننے والی دال کیلئے تو کہا جاتا ہے کہ مردہ کھائے تو زندہ ہو جائے۔ممتاز بھٹو یوں تو ایک مجلسی انسان تھے۔ دلچسپ باتیں کرتے لیکن سیاست دان ہونے کے باوجود دوستیوں میں بڑے محتاط اور سلیکٹو تھے۔ محبتوں کا تذکرہ آیا تو کہنے لگے کہ خوبصورت چیز کس کو اچھی نہیں لگتی۔ محبتوں کے اپنے رنگ ہیں سندھ تو ویسے ہی بڑی رومانٹک سر زمین ہے یہ سچل سرمست اور شاہ عبدالطیف بٹھائی کی سرزمین ہے جن کا پیغام ہی محبت عجز و انکساری ہے۔ گاؤں نبی بخش بھٹو میں بڑی خوبصورت رہائش گاہ ہے۔ چاروں طرف لہلہاتے سرسبز کھیت ہیں قریب ہی دریائے سندھ کی گزرگاہ ہے۔ سبزہ زار پر ٹہلتے ہوئے شاید ماضی میں کھو گئے میں نے دریافت کیا گزرے ہوئے حسین لمحات لبھاتے تو ہوں گے۔لمبی سانس لی تھوڑے سے وقفے کے بعد کہا، کیا پوچھتے ہیں۔ یہ دھرتی بھی دھیرے دھیرے بے کیف اور دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ دریا کی لہروں میں بھی وہ تندہی اور تیزی نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مزاج میں دھیماپن آگیا تھا۔ مجھے سردار بھٹو کا جوبن بھی یاد ہے۔ پی این ایس بلڈنگ کے ٹاپ فلور پر ان کی قہقہے اور دلچسپیاں۔ وہ بڑے سخت ایڈمنسٹریٹر تھے اپنی بات منوانا کوئی ان سے سیکھے۔ اتنی باتیں اتنی یادیں کہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میں نے ایک بار پوچھا جو بندہ ستر سال کی عمر میں اتنا ڈیشنگ ہو اس نے جوانی میں کیا غضب ڈھائے ہوں گے۔ کوئی ایسی محبت جو بھول نہ پائے ہو ں۔ وہ مسکرا کر رہ گئے۔ بابا آپ نہ جانے کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ کچھ باتیں پردے میں بھی رہنے دو۔ شادی سے متعلق سوال پر کہنے لگے پہلی شادی 33سال چلی، دوسری 10سال اور تیسری کو کم و بیش 9سال ہو گئے۔ میں نے پوچھا خود رک گئے یا حالات نے اجازت نہیں دی۔ کہنے لگے شادیاں کرنے میں پنجاب والے نمبر ون ہیں۔ شاید ان کا اشارہ اپنے دوست غلام مصطفےٰ کھر کی طرف تھا جنہوں نے ایک وقت میں ایک سے بڑھ کر ایک نا ن اسٹاپ شادیاں کیں۔ ایک بارمیں نے ان سے پوچھا ذوالفقارعلی بھٹو کو آپ کس پائے کا لیڈر سمجھتے ہیں۔ان میں بہت سی کمزوریاں بھی ہوں گی اور شخصیت کے اجلے اور روشن پہلو بھی کہنے لگے بھٹو کے کیا کہنے وہ جینئیس تھے۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔ ان کے بعد ہمارے ہاں اس قابلیت اور ذہانت و فطانت کا بندہ پیدانہیں ہوا۔ میں جو بھی ہوں میں نے بھٹو سے سیکھا۔ وہ حقیقی معنوں میں میرے استاد تھے۔ میرے گرو تھے وہ سنہری وقت تھا۔ بھٹو دور تک دیکھ سکتے تھے۔ بدلتے حالات کا مستقبل کے حوالے سے ادراک کر سکتے تھے ہاں ان سے غلطیاں بھی ہوئیں ان میں بشری کمزوریاں بھی تھیں۔ ان پر مشکل وقت آیا۔ انہوں نے قوم کے لئے بہت سے کام کئے کارنامے انجام دئیے۔ انہیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی لیکن انہیں پھانسی دینے والوں نے ملک پر بڑا ظلم کیا۔ ایک سوال پر کہ آپ پر یہ الزام لگتا ہے کہ آپ نے آخری دنوں میں بھٹو کا ساتھ نہیں دیا۔ کیا آپ خوف زدہ ہو گئے تھے یا حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ کہنے لگے ہر گز نہیں میں سوچ بھی نہیں سکتا میں تو خود بھی جیل میں تھا بھٹو کے پھانسی سے 20دن پہلے رہا ہوا تھا۔ آخری وقت تک جیل کے دروازے پر رہا جس کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا کھٹکھٹایا۔ لیکن شاید وہ فیصلہ کرچکے تھے۔ دریافت کیا کہ کیا آپ نے اس سلسلے میں ضیاء الحق سے ملاقات کی تھی۔ کہنے لگے میں ہر طرح کی گارنٹی دینے کیلئے تیار تھا۔ میں بالواسطہ طور پر روائیداد خان کے ذریعے ضیاء الحق کو پیغام بجھوایا تھا۔ لیکن وہ فیصلہ کر چکے تھے۔ میں بعد میں بینظیر کے ساتھ بھی چلا لیکن جب مجھے اندازہ ہواکے وہ اقتدار کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں تو میں دلبرداشتہ ہو کر ان سے الگ ہو گیا۔ کہنے لگے ضروری نہیں ہوتا کہ ہم جو چاہیں وہ کر بھی پائیں۔ میں تو آپ صحافیوں کیلئے لیاری میں زمین کو مفت مختص کرنا چاہتا تھاپھر بھی میں نے بیوروکریسی کو پلاٹوں کی کم سے کم قیمت رکھنے پر زور دیا۔ یہ میں نے کوئی احسان نہیں کیا یہ آپ لوگوں کا حق تھا۔ میں نے نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن ان کی اپنی ترجیحات تھیں۔ زندگی کا میلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے انہوں نے پرجوش، گرم جو ش زندگی گزاری۔ سینکڑوں دوست بنائے۔ اب وہ اس میلے کو چھوڑ کر سب کو اداس کر کے دوسری دنیا میں چلے گئے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے متحرک اور بے پناہ خوبیوں کے مالک انسان کیساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔