سکرنڈ کو ضلع کا درجہ دیکر اسے حاکم آباد کا نام دے کر ضلع تشکیل دیئے جانے کا امکان ہے جس میں سرہاڑی تعلقہ کو بھی شامل کیا جائے گا

یاسمین طہٰ


سندھ حکومت کی جانب سے سندھ میں 12 تعلقوں پر مشتمل 6 نئے اضلاع بنائے جانے کے لئے کاغذی کارروائیاں مکمل کی جاچکی ہیں،اور جلد ہی نئے متوقع اضلاع کا اعلان کیے جانے کا امکان ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے سندھ میں اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دینے کے لئے صوبے میں 12 یا اس سے زائد تعلقوں پر مشتمل 6 نئے اضلاع بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اس سلسلے میں ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعلی سندھ کی ہدایت پر محکمہ ریونیو نے حدبندیوں اور کاغذات میں ضلع دادو اور جام شورو کو تقسیم کرکے دو نئے اضلاع میہڑ اور سیہون شریف جبکہ ضلع سانگھڑ کو تقسیم کر کے اس میں سے دو نئے اضلاع شہدادپور یا ٹنڈوآدم اور کھپرو کو بنانے کی تجویز دی گئی ہے اور تعلقہ کھپرو کی یونین کونسل کھائی کو تعلقہ کا درجہ دئیے جانے کا امکان ہے۔اسی طرح ضلع تھر پارکر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نیا ضلع چھاچھرو کے نام سے بنانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور دوسری جانب سکرنڈ کو ضلع کا درجہ دیکر اسے حاکم آباد کا نام دے کر ضلع تشکیل دیئے جانے کا امکان ہے جس میں سرہاڑی تعلقہ کو بھی شامل کیا جائے گا،جبکہ ضلع بدین،ٹنڈومحمدخان اور ٹنڈوالہ یار کے کچھ علاقے کو شامل کر کے ماتلی کو ضلع بنانے کا امکان ہے۔محکمہ ریونیو کی جانب سے ضلع ماتلی کو 4 تعلقوں پر بنائے جانے کی تجویز دی گئی ہے جن میں ماتلی،تلہار، ٹنڈوغلام حیدر اور ٹنڈوغلام علی ایٹ دمبالو شامل ہیں.جبکہ دوسری جانب ٹنڈومحمدخان سے ٹنڈوغلام حیدر کو ماتلی ضلع میں شامل کرنے کے بعد ٹنڈومحمدخان میں نیا تعلقہ سیری یا شیخ بھرکیو کو شامل کئے جانے کے امکانات ہیں جبکہ ضلع بدین سے دو تعلقوں ماتلی اور تلہار کی علیحدگی کے بعد ضلع بدین کو نیا تعلقہ پنگریو دیئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب کہ ٹنڈو الہ یار میں نصرپور یا سلطان آباد کو تعلقہ بنانے کا امکان ہے۔سندھ میں نئے متوقع اضلاع کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لیے ہزاروں کی تعداد میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو ں گے۔جو پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافے کا باعث ہوں گے۔مون سون کاسیزن شروع ہوچکا ہے اور سندھ حکومت کے نالوں کی صفائی کے اقدامات پر اجلاس جاری ہیں،جس میں کراچی، حیدرآباد اوردیگر شہروں کے ندی نالوں کی صفائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص اور لاڑکانہ شہر میں اربن فلڈ کا خطرہ ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے تمام ڈویڑنل اور ضلعی سطح پر کنٹرول روم بنائے گئے ہیں۔ اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ نے پی ڈی ایم سی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پانی نکالنے کے لئے ڈی واٹرنگ پمپ کی تعداد بڑھائی جائے، پی ڈی ایم اے واٹر پمپ کے ساتھ اپنا عملا اور گاڑی بھی فراہم کرے، کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پی ڈی ایم اے اورانتظامیہ تیار رہے۔ چیف سیکریٹری سندھ نے کے الیکٹرک، حیسکو اور سیپکو حکام کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بارشوں کا پانے نکالنے کے لئے بجلی سپلائی کو یقینی بنائیں۔ اجلاس میں کے الیکٹرک حکام نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے پاس بھی شہر سے پانی کی نکاسی کے لئے ڈی واٹرنگ پمپ موجود ہیں اور کے الیکٹرک سب اسٹیشن کو برساتی پانی سے بچاؤ کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شدید بارشوں کے بعد ان احکامات پر کس حد عملدرآمد کیا جائے گا۔جب کہ صورتحال یہ ہے کہ مون سون کی پہلی بارش کے ساتھ ہی شہر کی بجلی غائب تھی اور بریک ڈاون کے باعث دھابیجی پمپنگ اسٹیشن میں ایک بار پھر کراچی کو پانی سپلائی کرنے والی 72 قطر انچ لائن کی 2 لائینیں پھٹنے سے کروڑوں گیلن پانی قریبی کالونی کے گھروں میں داخل ہوگیا تھا جب کہ مبینہ طور پر ناقص میٹریل کی وجہ سے پانی سپلائی لائینوں کا پھٹنا معمول بن چکا ہے۔یہی نہیں کراچی میں مون سون کے پہلے سسٹم کی بارش نے ہی شہری نظام زندگی درہم برہم کردیا تھا اور مارکیٹوں،بازاروں اور سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا جس کے سبب ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی کراچی میں نالوں کی صفائی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی نشیبی علاقوں میں جمع ہوگیا۔ جب کہ اس حوالے سے ترجمان سندھ حکومت اور مشیر قانون و ماحولیات بیرسٹر مرتضٰی وہاب کا دعوی تھا کہ کراچی میں بارش کے باوجود کہیں پانی جمع نہیں ہوا،جب کہ صورتحال یہ رہی کہ شہر کی تمام اہم سڑکوں پر نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی موجود ہے ۔ایڈمنسٹریٹر کراچی لئیق احمد کا کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات نے اس سال معمول سے 50 فیصد زیادہ بارشوں کی پیشگوئی کی ہے جس کے پیش نظر بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت دیگر ادارے ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، ہر ادارہ اپنی اپنی جگہ فرائض انجام دے گا تو ہم کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بہ آسانی نمٹ سکیں گے، انہوں نے کہا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں واقع ضلعی بلدیاتی اداروں کے زیر انتظام 514 چھوٹے نالوں اور 38 بڑے نالوں کی صفائی کا کام جاری ہے تاکہ برساتی پانی کی نکاسی ہوسکے، ہنگامی صورتحال میں ضرورت پڑی تو کنٹونمنٹ بورڈز، پاکستان نیوی اور پی ڈی ایم اے کی مشینری اور عملے کو بھی استعمال کیا جائے گا تاکہ پانی کی نکاسی کا عمل جلد از جلد مکمل کیا جاسکے، انہوں نے کہا کہ شہر کی ارضیاتی ساخت کے تحت 70 سے 80 ملی میٹر بارش کی فوری نکاسی ممکن ہے تاہم 150 سے 200 ملی میٹر بارش ہونے کی صورت میں نکاسی آب میں وقت لگ سکتا ہے۔