پاکستان کے معروف مزاح نگار”مشتاق احمد یوسفی“ کی یاد میں پروگرام ”بیادِ مشتاق احمد یوسفی“ کا انعقاد

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں پاکستان کے معروف مزاح نگار”مشتاق احمد یوسفی“ کی یاد میں پروگرام ”بیادِ مشتاق احمد یوسفی“ کا انعقاد  مشتاق احمد یوسفی ہر محفل کی شان تھے ، آرٹس کونسل کی جوش ملیح آبادی کی لائبریری کی بنیاد مشتاق احمد یوسفی کی 10ہزار سے زائد نایاب کتابوں پر رکھی گئی ہے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ  کراچی ( ) مشتاق احمد یوسفی کا بہت بڑا مداح اور عاشق ہوں، وہ ہمارے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ہر محفل کی شان تھے، آرٹس کونسل میں قائم جوش ملیحہ آبادی لائبریری کی بنیاد مشتاق احمد یوسفی کی 10ہزار سے زائد نایاب کتابوں پر رکھی گئی جس پرمیں ان کے کنبے کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے صحیح جگہ پر ان کتابوں کو پہنچانے کا فیصلہ کیا تاکہ آنے والی نسلیں اس نایاب ذخیرہ سے فیضیاب ہوسکیں، ان خیالات کا اظہار صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام جوش ملیحہ آبادی لائبریری میں ”بیادِ مشتاق احمد یوسفی “ کے پروگرام میں کیا، انہوں نے کہاکہ انشاءاللہ جلد لائبریری کا افتتاح کریں گے، لائبریری کو سنوارنے میں فاطمہ حسن کا اہم کردار ہے، زہرا آپا کی شرکت خوشی کا باعث ہے۔ پینل میں افتخار عارف نے (اسلام آباد سے آن لائن) ، نعمان الحق(لاہور سے آن لائن)، ڈاکٹر طارق حبیب(سرگودھاسے آن لائن) کے علاوہ زہرا نگاہ ، غزالہ رضوی، شاہد رسام اور فاطمہ حسن نے شرکت کی،پروگرام کی نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیئے۔ اس موقع پر معروف ادیبہ زہرا نگاہ نے کہاکہ لوگ شاعری کو مشکل کہتے ہیں مگر میری رائے میں مزاح نگار ادبِ عالیہ کی سب سے مشکل صنف ہے۔ یہ بہت مشکل ہوگا کہ یوسفی صاحب پر بات کریں ان کہ کام پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جس طرح یوسفی صاحب نے نثر لکھی اور اس کی معنویت کو ابھارا یہ ہر ایک کہ بس کی بات نہیں ہے۔فاطمہ حسن نے کہاکہ میں نے یوسفی صاحب کو ایک بہت اچھا مشفق بزرگ دوست پایا ہے، وہ صحیح مشورہ دیا کرتے تھے، ان کے مزاح کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دوسروں کا نہیں اپنا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ خاکہ نگاری میں بھی انہوں نے کہیں انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ان کے کردار اتنے مضبوط تھے کہ لوگ انہیں محسوس کرسکتے تھے۔ افتخار عارف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یوسفی صاحب کی شخصیت ایسی نہیں تھی کہ اس کا سرسری تجزیہ کیا جا سکے ان کی شخصیت کے بے شمار رنگین ج±ز تھے۔ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اس کا سراغ ان کی تحریروں سے کتنا ملتا ہے۔ میرے ساتھ ان کی محبت شفقت، سرزنش، تربیت وہ میرا سرمایہ ہے۔ اور میں نے ان کی زندگی میں بھی ان سے کہا تھا کہ بحیثیت نثرنگار وہ ہمارے عہد کے ہی نہیں بلکہ اردو ادب کے سب سے بڑے نثر نگار ہیں۔ نعمان الحق نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یوسفی صاحب کو ایک عہد کہنا بھی سمجھداری کی بات تھی کیونکہ وہ واقعی پورا عہد تھا ان کی تحریروں میں دریچے کھلتے ہیں۔ ڈاکٹر طارق حبیب نے کہاکہ یوسفی صاحب اپنے دور کے ہی نہیں آئندہ دور کے بھی بڑے ادیب ہیں ایسی شاندار نثر دوبارہ نہیں لکھی جائیگی جو مشتاق احمد یوسفی صاحب نے تحریر فرمائی ہے۔ یوسفی صاحب کی شخصیت پر مبنی یوسفیات میرا مضمون کا 1995ئ میں مکمل ہوا جو بعد میں کتاب کی صورت میں منظرِ عام پر آیا۔ اس کے بعد میں نے ایک کتاب مرتب کی ” مشتاق احمد یوسفی: چراغ تلے سے آبِ غم تک“ یہ پاکستان میں پہلی مرتب کتاب ہے۔ شاہد رسام نے یادتازہ کرتے ہوئے کہاکہ مشتاق یوسفی پہلی ملاقات میں مجھے لائبریری میں لے گئے تھے بہت ساری باتیں ایسی ہیں ان کے بارے میں جو لوگ جانتے نہیں ان کا تخلیقی کام جس طرح سے ان فولڈ ہورہا ہے اور مزید ہوگا تو ان کی شخصیت کی خوشبو پھیلتی جائے گی۔ جو ان کو قریب سے جانتے تھے انہوں نے ا±ن میں بہت شفیق اور محبت کرنے والے انسان کو دیکھا اور ایسی گ±ر کی باتیں انہوں نے آسانی سے سکھا دی۔ غزالہ رضوی گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ اردو ادب سے یوسفی صاحب کی محبت ہم سب کے علم میں ہے ایک مدت سے انہوں نے محفلوں میں انگریزی میں تقاریر کرنا چھوڑ دی تھیں۔ ہر مزاح نگار دل گداز رکھتا ہے۔