ملک کے معروف اردو ادیب ،دانشور، نقاد اور شاعر جاذب قریشی کو عزیز آباد قبرستان مین سپرد خاک کر دیا گیا،


ملک کے معروف اردو ادیب ،دانشور، نقاد اور شاعر جاذب قریشی کو عزیز آباد قبرستان مین سپرد خاک کر دیا گیا، ان کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر مسجد عائشہ گلشن کنیز فاظمہ میں پڑھائی گئی جس میں مرحوم کے عزیز و اقارب، رفیع الدین راز، راشد نور، قادربخش سومرو، اختر سعیدی، جاوید صبا، اکرم کنجاہی، اویس ادیب انصاری، رونق حیات، ڈاکٹر نثار احمد نثار، محمود رانا، یاسر سعید صدیقی، فہیم برنی ہم عصر دیگر شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور اہل محلہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جاذب قریشی طویل علالت کے بعد پیر کو کراچی میں وفات پا گئے تھے، ان کی عمر 81 برس تھی۔ مرحوم نے پس ماندگان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ جاذب قریشی ایک سال سے مثانے کی بیماری میں مبتلا ہو کر گھر پر صاحب فراش تھے اور ایک ہفتے قبل ان کے گردے کا بھی آپریشن ہوا تھا جس کے بعد ان کی طبیعت سنبھل نہ پائی اور پیر 21 جون 2021ء کی رات انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ جاذب قریشی 3 اگست 1940 کو بھارت کے شہر لکھنو میں پیدا ہوئے تھے جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ جب وہ چھ سال کے تھے تو ان کے والد کی وفات ہوگئی جس کے نتیجے میں وہ مالی مشکلات کے سبب مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکے اور اپنی زندگی گزارنے اور خاندان کی کفالت کے لئے سخت محنت کی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے 1950 میں لاہور آ گئے جہاں انہوں نے ایک پرنٹنگ پریس میں ملازمت اختیا کرلی۔ بر سر روزگار ہونے کے بعد وہ ایک بار حصول تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور شعربھی لکھنا شروع کر دیئے جو ان کے بچپن کا شوق تھا۔ لاہور میں وہ باقاعدہ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگے اور مشاعروں میں اپنی شاعری بھی پڑھنا شروع کر دی۔ انہیں پہلی بار شاہی قلعہ میں منعقدہ اس مشاعرے میں اپنا کلام سنانے کا موقع ملا جس کی صدارت شہرہ آفاق اردو شاعر حضرت احسان دانش کر رہے تھے۔ وہ معروف شاعر شاکر دہلوی کے شاگرد تھے جو داغ دہلوی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ جاذب قریشی 1962ء میں مستقلاً کراچی چلے آئے جہاں انہوں نے مختلف رسائل اور اخبارات میں کام کیا، وہ دس برس تک روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے انچارج بھی رہے۔ کراچی آ کر انہوں نے اپنی تعلیم بھی مکمل کی اور جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے ایک فیچر فلم ”پتھر کے صنم“بھی بنائی جو عوامی توجہ حاصل نہ کر پائی اور ناکامی سے دو چار ہوئی ، فلم سازی میں انہیں شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ جاذب قریشی نے بہت سی نثری اور شعری کتابیں لکھی ہیں جن میں ”پہچان“ ”تخلیقی آواز“، آنکھ اور چراغ“، ”شاعری اور تہذیب“،”دوسرے کنارے تک“ کلیات ”شناسائی“، ”شیشے کا درخت“، ”نیند کا ریشم“، ”آشوب جاں“، ”اجلی آوازیں“، ”شکستہ عکس“، ”جھرنے“، ”عقیدتیں“، ”مجھے یاد ہے“، ”نعت کے جدید رنگ“، ”میری شاعری، میری مصوری“ قابل ذکر ہیں۔ اپنے ساٹھ سال فنی سفر میں جاذب قریشی نے دنیا کے کئی ممالک جا کر عالمی مشاعروں میں شرکت کرکے اردو زبان اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ یوں تو ان کے شعر زبان زد عام ہوئے لیکن ان کا یہ شعر ’’کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں، تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو‘‘ اور ’’ صحرا میں کوئی سایہ دیوار تو دیکھو، اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو‘‘ لوگوں کو آج بھی ازبر ہیں۔