جنسی ہراسگی کے واقعات ۔کراچی یونیورسٹی سے لے کر حبیب بینک لمیٹڈ تک۔!


پاکستان میں جنسی ہراسگی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آ سکی ماضی میں ان واقعات پر خاموشی اختیار کر لی جاتی تھی اب بہتر قانون سازی اور میڈیا کے متحرک ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات رپورٹ ہونے لگے ہیں اور شکایات متعلقہ فورمز تک پہنچ رہی ہیں جن پر ایکشن بھی ہورہا ہے اور ہر ادارے میں ایسے واقعات سے نمٹنے اور ان کا نوٹس لینے کے لئے خصوصی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں ان واقعات سے یہ بات ثابت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے مرد حضرات موجود ہیں جو عورت کی عزت نہیں کر رہے انہیں یہ سب دینے کی ضرورت ہے کہ وہ خواتین کا احترام کریں اس کا آغاز گھر کی تربیت سے ہو سکتا ہے چھوٹی عمر سے ہی لڑکوں کو اس بات کے لئے تیار کیا جائے کہ وہ معاشرے میں خواتین کی عزت کریں اس سلسلے میں خود والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کی بہتر تربیت کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ سال پہلے اس حوالے سے بات ہی مشکل تھی لیکن اب سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسے واقعات اور شکایات چھپ نہیں رہی بلکہ سامنے آرہی ہیں حکومت پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے صوبائی سطح پر ایسے کمیشن قائم کر رکھے ہیں جہاں ایسے شکایت درج کی جارہی ہیں اور ان کا نوٹس لے کر ان پر ایکشن ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔پاکستان کی سپریم کورٹ بھی کچھ عرصہ پہلے ایسے واقعات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے اور قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں پر زور دیا جا چکا ہے ابتدا میں سپریم کورٹ نے صوبوں کی جانب سے قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے تعاون نہ کرنے کے ریمارکس دیے تھے اور صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنے کی ہدایت کی تھی یہاں تک کہا گیا تھا کہ ہو سکتا ہے صوبے کے لیے یہ معاملہ اہم نہ ہو لیکن سپریم کورٹ کے لئے اہم ہے ۔سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں سے اس حوالے سے رپورٹ طلب کی تھی جس کی وجہ سے یہ حقائق سامنے آئے تھے کہ سندھ اور پنجاب میں اس سلسلے میں زیادہ کام ہو رہا ہے لیکن بلوچستان اور کے پی کے میں اس معاملے پر خاموشی ہے سندھ میں ساڑھے تین سو کیسز کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جن میں سے کچھ کیس کے فیصلے ہوئے ۔یہ بات غور طلب ہے کہ مختلف شعبوں میں ایسے معاملات سامنے آ چکے ہیں یعنی مختلف شعبوں میں یہ مسائل موجود ہیں چاہے وہ پبلک سیکٹر ہو یا پرائیویٹ ۔کوئی سرکاری ادارہ ہو یا پرائیویٹ کمپنی ہر جگہ اس قسم کے مسائل سر اٹھا رہے ۔اس رپورٹ سے اندازہ ہوا کہ کراچی یونیورسٹی سے لے کر حبیب بینک لمیٹڈ تک جنسی ہراسگی کے واقعات رپورٹ ہوئے اور ان پر ایکشن ہوا کراچی یونیورسٹی اور حبیب بینک لمیٹڈ کے ایک ملازم کو اس وجہ سے نکالا گیا ۔جبکہ ہیلتھ میں 88 شکایات سامنے آئی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 73 کیسز رپورٹ ہوئے ۔24 مختلف این جی اوز سے سامنے آئے ۔تین کیسز میڈیا ہاوسز سے متعلق تھے دو شکایات پی آئی اے سامنے آئی ۔گویا پاکستان کے طول و عرض میں یہ مسائل موجود ہیں اور اب یہ شکایات سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں اس میں اہم بات یہ ہے کہ خواتین بہادری کا مظاہرہ کر کے سامنے آرہی ہیں اور ہراسگی کے واقعات میں ملوث مرد حضرات کو بے نقاب کیا جا رہا ہے بہتر قانون سازی اور ایکشن کی وجہ سے ان کی ملازمتیں خطرے میں ہیں اب خواتین کو ہراساں کرنے والے مرد ماضی کی طرح ادا نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی ملازمت خطرے میں رہے گی اور ان کا سوشل بائیکاٹ بھی ہونا شروع ہو جائے گا عام طور پر پاکستان میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی ہونے کے بعد وہ گھر بیٹھ جاتی تھی اور بدتمیزی کرنے والا مرد آزادانہ گھومتے رہتا لیکن اب بہتر قانون سازی اور ایکشن کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہو رہی ہے جنسی ہراسگی کے واقعات پر ایکشن لینے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر کمیشن تشکیل دیا جا چکے ہیں وہاں ایسے معاملات کی فوری سماعت ہورہی ہے اگرچہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن بہتری کی جانب سفر شروع ہو چکا ہے ۔