حامد میر پر پابندی کے معاملے میں نیا موڑ ۔۔۔۔!


جنگ جیو گروپ کی جانب سے حامد میر پر لگائی جانے والی پابندی کے معاملے میں نیا موڑ ۔
سول سوسائٹی اور میڈیا حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباؤ اور جنگ گروپ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں جنگ اور جیو گروپ کی جانب سے موقف سامنے آگیا ۔
———————–
سول سوسائٹی اورمیڈیا حقوق کی تنظیموں کی جانب سے صحافی اسد طور پر نامعلوم افراد کے حملے کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ جس میں جیو کے سینئر اینکر حامد میر نے تقریر کی جسکے نتیجے میں معاشرے کے مختلف حلقوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔

ہم ایڈیٹوریل کمیٹی اور وکلاء کے ساتھ اس صورتحال کا جائزہ لیں گے کہ پالیسی یا قانون کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔

اس دوران کیپٹل ٹاک کی میزبانی عارضی میزبان کے سپرد کی جارہی ہے۔ ہم اپنے ناظرین اور قارئین کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی دوسری میڈیا آرگنائزیشن کے مقابلے میں کرپشن، توہین رسالت اور غداری جیسے سیکڑوں جھوٹے الزامات پر جنگ جیو گروپ کو بند کیا گیا، ہمارے صحافیوں کو مارا پیٹا گیا، اپنے ناظرین اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھنے میں آرگنائزیشن کو دس ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔

تاہم گروپ اور اس کے ایڈیٹرز کے لیے مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کی گئی تقریر یا تحریر کے مواد کی ذمہ داری کیسے لیں، جو واقعتاً ایڈیٹوریل ٹیم نے دیکھا ہو اور نہ ہی اس کی منظوری دی ہو۔

حامد میر اور دوسرے صحافی اپنے ساتھی صحافی پر حملے کے حوالے سے جس غم و غصے یا مایوسی کا شکار ہوئے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا، تاہم صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کیلئے بہتر طریقے اور ذرائع موجود ہیں۔

پاکستان میں صحافیوں کی بہت بڑی تعداد عوام کے جاننے کے حق کے لیے لڑتے ہوئے جانوں اور آزادی سے محروم ہوئی۔

پی ایف یو جے، ایچ آر سی پی، اے پی این ایس سی، اے ایم ایم ای ڈی اور سی پی این ای اس کے ساتھ ساتھ میڈیا حقوق کی عالمی تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ وہ صحافیوں کو ایسے اقدامات کے خلاف تحفظ دیا جائے مگر اب تک کسی حکومت نے ایسا نہیں کیا
https://jang.com.pk/news/935230
————————————–


سینئر صحافی حامد میر کے پروگرام کرنے پر عائد عارضی پابندی سے حوالے جیو اور جنگ کا موقف سامنے آ گیا ہے۔جنگ اور جیو کے مطابق سول سوسائٹی اور میڈیا حقوق کی تنظیموں کی جانب سے صحافی اسد طور پر نامعلوم افراد کے حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں جیو کے سینئر صحافی حامد میر نے تقریر کی جس کے نتیجے میں معاشرے کے مختلف حلقوں کا شدید ردِعمل سامنے آیا۔
ہم ایڈیٹوریل کمیٹی اور وکلاء کے ساتھ اس اس صورتحال کا جائزہ لیں گے کہ پالیسی یا قانون کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔۔ اس دوران کیپٹل ٹاک کی میزبانی عارضی میزبان کے سپرد کی جا رہی ہے۔ہم اپنے ناظرین اور قارئین کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی دوسری میڈیا آرگنائزیشن کے مقابلے میں کرپشن ، توہین رسالت اور غداری جیسے سیکڑوں جھوٹے الزامات پر جیو اور جنگ گروپ کو بند کیا گیا۔
ہمارے صحافیوں کو مارا پیٹا گیا۔اپنے ناظرین اور قارئین کو حالات سے باخبر رکھنے میں آرگنائزیشن کو دس ارب روپے سے زائد کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔تاہم گروپ اور اس کے ایڈیٹرز کے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر کی گئی تقریر یا تحریر کے مواد کی ذمہ داری کیسے لیں۔جو واقعتا ایڈیٹوریل ٹیم نے دیکھا اور نہ ہی اس کی منظوری دی ہو۔
حامد میر اور دوسرے صحافی اپنے ساتھی صحافی پر حملے کے حوالے سے جس غم وغصے یا مایوسی کا شکار ہوئے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔تاہم صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے بہتر طریقے اور ذرائع موجود ہیں۔پاکستان میں صحافیوں کی بہت بڑی تعداد عوام کے جاننے کے حق کے لیے لڑتے ہوئے جانوں اور آزدی سے محروم ہوئی۔پی ایف یو جے،ایچ آر سی پی، اے پی ایم ایس سی ، اے ایم ایم ای ڈی اور سی پی این ای سی اس کے ساتھ ساتھ میڈیا حقوق کی عالمی تنظیمیں حکومت سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ وہ صحافیوں کو ایسے اقدامات کے خلاف تحفظ دیا جائے مگر اب تک کسی حکومت نے ایسا نہیں کیا
https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2021-06-01/news-2818588.html
—————————–
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جنگ اور جیو گروپ پر زبردست تنقید سامنے آ رہی تھی جبکہ ملک بھر میں صحافی تنظیموں کی جانب سے بھی احتجاج شروع ہو گیا تھا ۔جنگ اور جیو گروپ کی مزاحمتی صحافت کی تاریخ کے حوالے سے اب سوالات اٹھائے جارہے تھے جنگ اور جیو گروپ کی جانب سے سامنے آنے والا تازہ موقف اس بات کا ثبوت ہے کہ ادارے کے اندر بھی احتجاج بڑھ رہا ہے اور حامد میر کی حمایت میں زبردست اضافہ ہوا ہے جنگ جیو گروپ کی انتظامیہ اس وقت یقینی طور پر مختلف نوعیت کے ایک سے زیادہ دباؤ کی کیفیت کا سامنا کر رہی ہے جبکہ جنگ اور جیو گروپ کے ملازمین اور آزادی صحافت کے حوالے سے جنگ اور جیو کی تاریخ پر فخر کرنے والوں کے لئے یہ مشکل صورت حال ہے انہیں بیک وقت ادارے سے جڑے رہنے اور حامد میر کی حمایت کرنے کے معاملے میں نئے چیلنجوں کا سامنا ہے عالمی سطح پر صحافی برادری اور صحافی تنظیموں اور سینئر صحافیوں کی جانب سے حامد میر کی حمایت میں اضافہ نظر آ رہا ہے سوشل میڈیا پر حامد میر کی مخالفت کرنے والے بھی موجود ہیں لیکن آزادی صحافت کے حوالے سے آواز اٹھانے والے حامد میر کی حمایت کر رہے ہیں