پاکستان میں اسپشل ایجوکیشن کی تاریخ


تحریر ۔شہزاد بھٹہ ۔
———————-
پاکستان میں اسپشل بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے قانوں سازی
پاکستان میں خصوصی تعلیم سے متعلق قانون سازی کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں جب 1947 میں پاکستان معروض وجود میں ایا تو خصوصی تعلیم کے ادارے نہ ھونے کے برابر تھے جبکہ اس وقت ہندوستان میں گونگے بہرے بچوں کی تعلیم وتربیت کے تقربیا چالیس ادارے تھے جبکہ پاکستان کا قیام عمل میں ایا تو اس وقت خصوصی بچوں کے دو ادارے کام کررھے تھے ایک لاھور میں شیرانوالہ گیٹ میں نابینا افراد کے لیے جو محکمہ صنعت حکومت پنجاب کے زیر اہتمام اور ایک کراچی میں پرائیویٹ شعبہ میں خصوصی طلبہ کی تعلیم و تربیت کررھا تھا۔ اسی لیے پاکستان میں خصوصی افراد کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے لیے کوئی قانون سازی بھی نہ ھو سکی ۔
پہلی بار اسلامی جمہوری پاکستان کے اہین 1973 میں معذور افراد کو دوسرے شہریوں کی طرح تمام بنیادی حقوق دیئے گئے اس کے ساتھ ساتھ کہا گیا کہ معذور افراد اور بچوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مذید اقدامات کی ضرورت ھے
دسمبر 1975 میں پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل کونسل نے بارہ نکات پر مشتمل Declaration on the rights of Disabled جاری کیا جس کے تحت تمام ممالک کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ وہ معذور افراد کو وہ تمام حقوق دلانے کا اہتمام کریں جو صحت مند افراد کو حاصل ھیں
دنیا کی 15 فیصد ابادی کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ھے یونسیکو کے مطابق 90 فیصد سے زائد معذور افراد کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ھے
پاکستان میں کل ابادی کا ایک فیصد خصوصی افراد پر مشتمل ھے جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ھیں جن میں اکثریت جسمانی اور ذہنی معذوری کا شکار ھیں پاکستان میں 55 فیصد معذور ابادی پنجاب میں 28 فیصد سندھ 11فیصد خبیر پختواہ اور 5.50 فیصد سے بلوچستان میں ھے ۔
پاکستان میں 1981 میں پہلی بار دنیا بھر کے ساتھ اقوام متحدہ کی ہدایت پر عالمی دن برائے معذوراں منایا گیا۔اسی سال جنرل ضیاء الحق نے خصوصی بچوں کے لیے قانون سازی کو نئی شکل دی جبکہ اس سے پہلے کوئی ایسا قانون نہ تھا جو خصوصی بچوں کی تعلیم وتربیت کے حقوق کو تحفظ دیتا ھو جو تھوڑا بہت اس ضمن میں کام ھورھا تھا وہ نجی اور رفاعی ادارے کرر ھے تھے صدر ضیاء الحق نے معذور بچوں اور افراد کے حقوق اور بحالی کے تحفظ کے لیے ایک ارڈنینس جاری کیا جس کو معذور افراد کی بحالی اور روزگار کا ارڈنینس 1981 کہا جاتا ھے
معذور افراد کی بحالی اور روزگار ارڈنینس 1981
اس ارڈنینس کے تحت ایک پسماندہ شخص کی تعریف یوں کی گئی # وہ شخص جو زخم بیماری یا ہیدائشی نقص کی وجہ سے کسی بھی منافع بخش پیشے ،کاروبار،اور ملازمت نہیں کر سکتا وہ پسماندہ Disabled شخص کہلائے گا جو جسمانی ذہنی سماعتی و بصارتی متاثرہ ھو ۔
1981 ارڈنینس کے تحت  قومی کونسل برائے بحالی پسماندہ افراد بنائی گئی ۔یہ کونسل 26 افراد پر مشتمل ھے جس میں افواج پاکستان ،مختلف وزارتوں اور سیکڑیری شامل ھیں اس کونسل کے ذمہ درجہ ذیل ذمہ داریاں سونپی گیئں ۔
معذور افراد کی بحالی، ملازمت اور بہبود کے لیے پالیسی کی تشکیل۔ صوبائی کونسلوں کی نگرانی ، اپنی پالیسوں کا جائزہ لے کر نئی پالیسوں کی تشکیل ۔۔ملک میں معذور افراد کے اعدادوشمار اکٹھے کرنا جن کو خصوصی تعلیم کی ضرورت ھے اور وہ معاشرے میں بحالی کے لیے خصوصی ضروریات کے حقدار ھوں ۔معذور افراد کا طبی معاہنہ اور علاج کروانا ۔۔معذور افراد کو پیشہ ورانہ تربیت کی سہولتوں کی فراھمی ۔۔
آرڈنینس 1981 کے تحت ھر صوبے میں ایک ایک صوبائی کونسل برائے بحالی خصوصی افراد تشکیل دی گئی اس صوبائی کونسل بھی 26 ارکان پر مشتمل ھے جس میں فواج پاکستان ۔مختلف محکموں کے نماہندے اور سیکڑیری شامل ھیں ۔صوبائی کونسل کے فرائض ۔۔
نیشنل کونسل کے احکامات پر عمل درامد کروانا ۔۔نیشنل کونسل کی ان پالیسوں پر عمل درامد کروانا جن کا تعلق معذور افراد کی ملازمت ۔بحالی اور بہبود سے ھے ۔۔نیشنل کونسل کے مقاصد کے حصول کے لیے مناسب پراجیکٹس بنانا ۔ صوبوں میں موجود دفتر روزگار اور دیگر اداروں کو پراجیکٹس پر عمل درامد کروانے کے لیے ہدایات جاری کرنا ۔معذور افراد کی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر ان کے ذہنی استعداد اور کام کرنے کی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ۔معذوری کا جائزہ لینے اور سرٹیفکٹ جاری کرنے کے لیے میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی گئی اس سرٹیفکٹ کی بنیاد پر ان کا دفتر روزگار میں اندراج کرانا ۔صوبائی کونسل خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے سنٹر قائم کرے ۔۔
ارڈنینس 1981 کے تحت درج ذیل مزید احکامات بھی جاری کیے گئے ۔۔تمام محکموں کو پابند کر دیا گیا کہ وہ اپنی ملازمتوں کا ایک فیصد کوٹہ معذور افراد کےلیے مختص کرے ۔۔ملازمت حاصل کرنے والے خصوصی افراد کو وہ تمام مراعات حاصل ھو گئی جو ایک عام فرد کو حاصل ھے ۔۔اگر کوئی ادارہ معذور افراد کو ملازمت نہیں دیتا تو وہ ایک معذور افراد کو دی جانے والی تنخواہ کے برابر رقم ھر ماہ وفاقی فنڈ میں جمع کروانے کا پابند ھوگا ۔اگر کوئی ادارہ ان احکامات پر عمل نہیں کرے گا تو اس کو ایک ھزار روپے جرمانہ ھوگا اور جرمانہ ادا نہ کرنے پر دس روپے یومیہ جرمانہ ادا کرنا ھوگا
آرڈنینس 1981کے تحت ھونے والے اقدامات سے پاکستان میں پہلی بار خصوصی افراد کی مشکلات اور تکالیف کو حکومتی اداروں اور معاشرے میں خصوصی افراد کی اھمیت کو محسوس کیا جانا لگا اور مختلف سطح پر خصوصی افراد کی تعلیم وتربیت اور روزگار کی ضروریات کو محسوس کیا گیا ۔اس آرڈنینس کے بعد نیشنل کونسل کو ملک بھر سے خصوصی افراد کی جانب سے 3000 ھزار درخواستیں وصول ھوئیں ۔جن میں سے تقربیا 600 خصوصی افراد کو نجی اور سرکاری اداروں میں ملازمت فراھم کی گئی ۔بہت سے خصوصی افراد کو وظائف اور مالی امداد ملنا شروع ھوئی ۔۔
خصوصی بچوں کا تعلیم حاصل کرنا اتنا ھی ضروری حق ھے جتنا کہ ایک نارمل بچے کا ۔مسلمان ھونے کے ناطے ھماری یہ بنیادی ذمہ داری ھے کہ خصوصی افراد کی بحالی کریں اور انہیں معاشرے کا ایک کارامد شہری بنانے میں ریاست کی مدد کریں ۔معذور یا خصوصی بچوں کے مسائل اور ضروریات عام بچوں سے یکسر مختلف ھوتی ھیں اس لیے ان کے لیے خصوصی تعلیم کا الگ سے بندوبست کیا جاتا ھے