پورے سوشل میڈیا پر ناڑا ، بنیان، ٹوپی اور پونچھ جل گئی کی اچھی خاصی دھوم مچا رکھی ہے

مولاناطارقجمیل
(تحریر _ فرح ناز راجہ)
ہماری پاکستانی پیاری سی عوام نے پچھلے تقریبا 10،12 دن سے پورے سوشل میڈیا پر ناڑا ، بنیان، ٹوپی اور پونچھ جل گئی کی اچھی خاصی دھوم مچا رکھی ہے ۔۔
میں نے سوچا میں کیوں پیچھے رہوں میں بھی اس ہجوم میں شامل ہو کر دیکھتی ہوں کہ اصل کہانی ہے کیا ؟؟ کیا قصہ ہے کیا ماجرہ ۔۔

تو دوستوں کہانی کچھ یوں شروع ہوئی کہ ڈیزائنر جنید جمشید کے بعد ہمارے ملک میں ایک اور ابھرتے ہوئے نیو ڈیزائنر مولانا طارق جمیل کے کپڑوں کے برانڈ ایم ٹی جے MTJ کی افتتاحی تقریب تین اپریل کو کراچی میں رو نما ہوئی تھی ۔۔۔
آئیے پہلے اس تقریب کا جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔
تو تقریب کے پروگرام کا آغاز پاکستانی کلچر کے عین مطابق تلاوت قرآن پاک سے ہوا،
پھر حمد وثناء پڑھی گئی،
پھر قومی ترانہ پڑھاگیا،
پھر راحت فتح علی خان،
احمد جہانزیب،
استاد رفاقت علی ،
اور شفقت امانت علی نے باری باری کلام پڑھا،
پھر طارق جمیل صاحب کا بیان ہوا اور آخر میں دعا کروائی گئی۔۔۔۔۔۔

سوچنے والی جو بات ہے وہ یہ ہے جناب کہ یہ تمام فنکار مفت میں یہ کلام پڑھ کر نہیں گئے ،
کچھ ذرائع سے معلوم ہوا کہ راحت فتح علی خان بیس لاکھ لے گیا،
اور باقی کے تین فنکاروں کو پینتالیس لاکھ دئیے گئے۔۔۔۔۔

اب آیئے اصل مدعے پر
اور وہ یہ کہ نعت یا صوفیانہ کلام پر اگر پینسٹھ لاکھ خرچ کئے جا سکتے ہیں تو اندازہ لگا لیں کہ اس برانڈ کا مقصد کیا ہوگا۔۔۔۔۔

ابھی ملک کے مشہور معروف دو اینکروں کی خدمات کے علاوہ بہت سارے لوازمات کی تفصیلات باقی ہیں۔۔۔۔

اللہ تعالی منافقت سے بچائے۔۔!!!

تھوڑی دیر کیلئے اپنا مسلک، فرقہ، عقیدہ اور مذہبی رحجان ایک طرف رکھ دیں اور سوچیں:
ایک ایسا ملک کہ جہاں طبقاتی فرق بڑھتا جارہا ہو۔۔۔
امیر، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہو۔
طبقاتی فرق کی وجہ سے غریب طبقے میں شدید قسم کا احساس محرومی جنم لے چکا ہو ۔۔۔ جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہو۔۔۔
جس معاشرے میں اسراف بہت زیادہ ہوچکا ہو ،
سٹیٹس سمبل برقرار رکھنے کیلئے لوگ رشوت اور حرام مال کمانا اپنا فرض اولین اور حق سمجھتے ہوں ۔
پیسہ کمانے کی دوڑ میں اخلاقیات کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہوں ۔

ایسے میں ، ایسے معاشرے میں ایک ایسا دینی عالم، جس نے اپنی ساری عمر دین کی تبلیغ میں گزاری ہو ، سنت پر عمل کرنے کی تلقین کرتا رہا ہو ، معاشرے میں پھیلی برائیوں کا ذکر کرکے آنسو بہاتا رہا ہو ،

وہ عالم دین اپنا کپڑوں کا برانڈ لانچ کرتا ہے ،
اس برانڈ کا پہلا سٹور کراچی میں اوپن ہوتا ہے اور سٹور کی سجاوٹ، تزئین و آرائش پر کروڑوں روپیئے ہوتے ہیں۔۔۔
اس سٹور میں سب سے سستا مردانہ سوٹ ساڑھے پانچ ہزار 5500 روپے کے قریب ہے اور وہ بھی سیل میں۔۔۔۔
اس سٹور میں نماز کی ٹوپی چودہ سو 1400 روپے سے دو ہزار 2000 روپیئے کی ہے۔۔۔۔
اس سٹور میں شلوار میں ڈالنے والا آزاربند ساڑھے پانچ سو 550 روپئے کا ہے۔۔
اور بنیان گیارہ سو 1150روپئے کی ہے۔۔۔۔

اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا پاکستانی عوام کی اکثریت اس برانڈ کے کپڑے افورڈ کرسکتی ہے؟؟؟؟
کیا یہ برانڈ اس ملک کی دو فیصد اشرافیہ کیلئے لانچ کیا گیا ہے؟؟؟؟
کیا اس برانڈ کی وجہ سے لوگوں میں ایک نئی دوڑ شروع نہیں ہوجائے گی کہ وہ مہنگے سے مہنگا کپڑا خریدیں،
چاہے جیسے بھی مال کمائیں؟؟؟
کیا اس برانڈ کی وجہ سے غریب مزید احساس کمتری کا شکار نہیں ہوگا؟؟؟

میں سمجھتی ہوں کہ اگر مولانا صاحب لگژری برانڈ لانچ کرنے کی بجائے متوسط طبقے کیلئے برانڈ لانچ کرتے جس میں مردانہ سوٹ ایک ہزار روپے میں دستیاب ہوتا،
پھر مولانا اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوں چاہنے والوں کو تلقین کرتے کہ سادگی کی زندگی گزاریں اور ہزار والا سوٹ خریدیں تو کچھ بات بنتی بھی ۔۔۔
کیا اس سے مولانا کی سیل اور آمدن میں کوئی فرق پڑنا تھا؟؟؟؟؟
ہرگز نہیں۔۔۔
اگر موجودہ سٹور کی ماہانہ سیل دس لاکھ ہے تو متوسط طبقے کیلئے قائم سٹور شاید ماہانہ تیس لاکھ کی سیل کرجاتا کیونکہ اس صورت میں عوام کا بڑا طبقہ خریداری کرسکتا تھا۔۔۔۔
لیکن یہ سب نہیں کیا گیا۔۔
آخر کیوں؟؟؟
کسی کے پاس یا مولانا کے پاس ہیں جواب ایک عام انسان کے اندر سے اٹھتے ہوئے ان سوالوں کا ۔۔۔۔
نہیں بس سوال سے پھر سوال ہی جنم لیتا ہے کہ
کیا مولانا بھی یہی چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اصراف بڑھے؟؟؟؟
لوگ سادگی کی بجائے پرتعیش انداز زندگی اپنائیں؟؟؟؟
غریب مزید احساس کمتری کا شکار ہو ۔ ۔ ۔؟؟

دوستو اپنے مسلک، عقیدے اور شخصیت پرستی کو ایک طرف رکھ کر ان سوالات پر ذرا غور ضرور کریں اور اگر ہوسکے تو مولانا طارق جمیل تک میرے یہ سوالات ضرور پہنچائیں۔۔۔۔۔

ویسے مجھے تھوڑا بہت تو اندازہ ہے کہ ان سوالات کے جوابات کیا ہوں گے ۔۔۔
اگر کسی کے پاس انکے علاوہ کوئی درست جوابات ہوں تو پلیز مجھے بھی آگاہ ضرور کیجیئے گا ۔۔۔
آپ اپنے دل کی بھڑاس کمنٹ میں نکال سکتے ہیں
لیکن۔۔۔

مجھے ایک بات تو بتایئے یہ علماء کا طبقہ احادیث اور روایات کو صرف تقریروں تک ہی محدود کیوں رکھتا ہے؟؟؟ اپنے اوپر ان کو لاگو کیوں نہیں کرتا؟؟؟

سوال:
ہمیں تو احادیث اور روایات کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ اگر کوئی گاہک خریدا ہوا مال واپس کرنا چاہے تو تاجر کیلئے لازم ہے کہ وہ اعتراض نہ کرے اور یہ مال واپس لے لے۔ تو پھر مولانا طارق جمیل کے برانڈ کی پالیسی اس حدیث اور سنت سے مطابقت کیوں نہیں رکھتی؟؟؟؟؟

الجواب:
او گستاخ ! تم پہلے ہی بے دین ہو، نماز میں سستی کرتے ہو، باشرع بھی نہیں ہوں اور منہ اٹھاکر ایک جید عالم دین پر ایسے سوالات اٹھا کر اپنے لئے مزید جہنم کی آگ مت بھڑکاؤ۔
جہاں تک مولانا طارق جمیل کے برانڈ کی پالیسی کا معاملہ ہے تو جان لو، مولانا نے بیچا ہوا مال واپس نہ لینے کی شرط صرف سیل میں بیچے ہوئے کپڑوں پر عائد کی ہے ۔ ۔ ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہر جوڑا سیل میں ہی بیچا جاتا ہے۔۔۔۔۔
اگر مولانا بیچے ہوئے کپڑے سنت کے مطابق واپس لینا شروع کردیں تو پھر منافع کیسے کمائیں گے؟؟؟؟
احادیث اور روایات صرف سنانے کیلئے ہوتی ہیں،
ایک عالم کیلئے ان احادیث پر عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا۔

کیا مجسمہ سازی اسلام میں جائز ہے؟؟؟
الجواب:
دیکھیں، اگر تو یہ مجسمہ کافر اور مشرک بناتےہیں تو یہ ناجائز ہے،
اگر یہ مجسمہ مخالف مسلک والے بناتے ہیں تو یہ ناجائز ہے،
لیکن اگر یہ مجسمہ جات عزت مآب مولانا طارق جمیل کے کپڑوں کے برانڈ کی دکان میں رکھے گئے ہیں تو نہ صرف یہ حلال ہیں بلکہ مجسمہ بنانے والے کو مولانا طارق جمیل جنت میں اپنے حصے کے محلات اور حوریں بھی دے دیں گے۔۔۔
اب اپنی بکواس بند کر اوردوبارہ کوئی سوال مت بھیجنا ۔ ۔ ۔
جواب ختم ہوا۔۔۔۔۔