شاباش مراد علی شاہ آپ نے مردم شماری اور ہسپتالوں کے معاملے میں سندھ کے سربراہ ہونے کا حق ادا کر دیا ۔

شاباش مراد علی شاہ آپ نے مردم شماری اور ہسپتالوں کے معاملے میں سندھ کے سربراہ ہونے کا حق ادا کر دیا ۔وفاقی حکومت کے سامنے باقی صوبوں کے نمائندوں کی موجودگی میں آپ نے جس جرات مندی بہادری دلیری اور صاف گوئی سے سندھ کا مقدمہ پیش کیا اور سندھ کے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور بڑے دلائل کے ساتھ ساری بات کی جس کے بعد وزیراعظم اور صحت کے حوالے سے وفاقی شخصیات صورت حال کا علم ہوا اور اب سرکاری اسپتالوں کا انتظام سندھ کے پاس واپس آنے کا راستہ ہموار نظر آ رہا ہے اسی طرح آپ نے گھر شماری اور مردم شماری کے حوالے سے جو دلائل دیے وہ قابل تعریف ہیں ۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے ذیل میں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی وہ تمام باتیں پیش کی جارہی ہیں جو انہوں نے سرکاری ہسپتالوں اور مردم شماری کے حوالے سے وفاق کے سامنے رکھیں انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہا ہے ملاحظہ فرمائیے

، ملکی معاملات کا حل نکالنے کیلئے وزیراعظم کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کاکہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انکے ہمراہ صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات سید ناصر حسین شاہ، ترجمان سندھ حکومت و مشیر قانون و ماحولیات مرتضیٰ وہاب اور وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی تیمور تالپور ساتھ تھے۔ انھوں نے کہا کہ تین چار معاملات ایسے ہیں جن پر آج کی پریس کانفرنس کررہا ہوں جس میں سی سی آئی اجلاس میں مردم شماری پر ہمارے موقف، ملکی معیشت اور کورونا وائرس کی بگڑتی صورتحال شامل ہیں۔ انھوں نےپریس کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ سوا دو سال سے میں جب بھی پریس کانفرنس کرتا ہوں تو کورونا وائرس سے متعلق آگاہی دیتا ہوں اس وقت یہ وبا دیگر پڑوسی ممالک سے بھی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے۔ انھوں نے کہاکہ اس وقت صوبہ سندھ دیگر صوبوں سے زیادہ بہتر ہے اور یہاں اس وقت 664 آئی سی یو یبڈز ہیں جن پر وینٹی لیٹرز بھی موجود ہیں جبکہ اس وقت 39 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں اور وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑنے والے مریضوں کی تعداد 79 ہیں مجموعی تعداد 95 ہے۔ انھوں نے کہاکہ ایس او پیز کو نہ اپنانے سے یہ وبا بہت جلد پھیلتی ہے اور اس طرح ہوا بھی ہے۔ گزشتہ این سی سی اجلاس میں وزیراعظم کو درخواست کی تھی کہ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ دو ہفتوں کیلئے بند کی جائے جس سے وبا کو پھیلنے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک معیشت کی بات ہے تو میں نے یہ بھی کہاتھا کہ مقامی کاروبار ہر جگہ جاری رہنے دیں جس میں کراچی پورٹ ہے یا گڈز ٹرانسپورٹ ہوگئی وہ سب جاری رہے باقی صرف مسافروں کی آمدو رفت کیلئے ٹرانسپورٹ جس میں ٹرین، بسز، جہاز وغیر آتے ہیں پر پابندی لگائی جائے لیکن انھوں نے ہماری یہ بات نہیں مانی اور ہم سندھ میں اکیلے بیٹھ کر عملدرآمد نہیں کراسکتے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بارڈرز بند کریں تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے دوسری طرف بھی ہمارے بھائی بہن ہیں لوگ بارڈرز پر جمع ہوجائیں گے جس سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ انھوں نے کہاکہ جب ہم نے وبا کی پہلی لہر میں اقدامات اٹھانے میں پہل کی تھی تو دیگر صوبوں نے بھی ہمارے فیصلوں پر پیروی کیا تھا حتیٰ کہ وفاق نے بھی پیروی کی تھی اس لئے ہم کامیاب ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ بتایا جاتا ہے کہ کوویڈ کی تیسری لہر انگلینڈ سے آئے کچھ لوگوں نے یہ وبا پاکستان میں پھیلائی ہے جس کے نتیجے میں انگلینڈ نے پاکستان پر پابندی لگادی ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ جب انگلینڈ سے لوگ آئے تو آپ ایئرپورٹ پرچیکنگ سسٹم نافذ کرتے بہرحال میں نے اجلاس میں کہا کہ جتنے بھی انگلینڈ کے باشندے یہاں ا ٓئے ہیں انکا ڈیٹا اکھٹا کریں انکو ٹریک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے کہ وہ کہاں کہاں گئے ہیں لیکن میرے مطابق ان تمام تجاویز کو رد کردیا گیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ اگر سندھ میں ہم نے چیکنگ سسٹم نافذ کیا ہے جو ہائی رسک ممالک سے یہاں آتے ہیں انکا ڈیٹا ہمارے پاس ہے لیکن اس وقت وہ ہائی رسک بھی نہیں رہے انگلینڈ نے تقریباً 50 فیصد ویکسی نیشن کردی ہے جبکہ ہم 0.5 فیصد پر کھڑے ہیں یہ ہماری ناکامی ہے اور چاہتا ہوں کہ وفاق اس حوالے سے اقدامات کرے۔
معیشت:


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پرسوں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری صاھب نے بھی تفصیلی پریس کانفرنس کی تھی جس کو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ رواں سال ہماری شرح نمو دڈیڑھ فیصد سے کم ہے جوکہ پچھلے سال کی کمی کو دیکھ کر کی جاتی ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رواں سال 8 اور 9 فیصد پر گروتھ کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے افراد زر دگنی ہوگئی ہے۔ وزیراعلیی سندھ نے کہ اکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بغیر سوچے سمجھے کئی قوانین تبدیل کررہے ہیں ، نیپرا کے قوانین تبدیل کردئے گئے اور بتایا جاتا ہے کہ جون تک سوا پانچ روپئے بجلی مہنگی ہوجائے گی۔ جوکہ آئندہ دو سال اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ انھوں نے کہ کہ درآمد میں اضافہ آپکے برآم دکے دگنے ریٹس پر ہے جس سے شرح کسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ غیر ملکی ترسیلات کے آنے سے کرنٹ اکاؤنٹ میں کچھ بہتری لائی گئی جس پر بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ غیر ملکی ترسیلات کے آنے سے کرنٹ اکاؤنٹ میں کچھ بہتری ہوئی ہے جس پر بھی بہت سی باتیں ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ غیر ملکی ترسیلات اس لئے آئی کی کہ دیگر ممالک میں بیٹھے ہمارے بھائیوں کو دیگر ممالک سے روزگار سے نکالا گیا تو انکو رٹائرمنٹ بینفٹ ایک ساتھ ملنے سے انھوں نے وہ پیسہ یہاں بھیجا جوکہ مستقل بنیاد پر عمل ہے یہ ایک اتار چڑھاؤ کی بنیاد پر ہوا ہے اور یہ ایک منفی اسباب میں گنا جائے گا۔ انھوں نے کہ اکہ رواں سال فسکل ڈفسٹ جوکہ ہم ٹارگیٹ کرتے تھے تین سے چار فیصد تک وہ آٹھ فیصد سے تجاوز ہورہا ہے جوکہ جی ڈی پی کو متاثر کرتا ہے۔ ہماری معاشی صورتحال خراب ہے ، ہم مکمل لاک ڈاؤن نہیں لگا سکتے۔ انھوں نے کہاکہ قرضہ جو لیا ہوا ہے اس کا قانون موجود ہے، جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد سے نہیں لینا چاہئے لیکن اس وقت نو سے فیصد لیا گیا ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو قرضہ نہ اٹھانے کی بات کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی انفلیکشن آئی تھی پر تنکواہیں بڑھائی گئی اور اسٹیٹ بینک کو پاور فل بنایا گیا ہے۔ اب وہ احتساب سے بالاتر ہیں، کارونار کو سستے قرضے دئے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لوگوں کو ڈرانا نہیں چاہتا پر بتانا چاہتا ہوں صورتحال خراب ہے ، وہ شخص جو ایک دن کہتا ہے میرا وزیر خزانہ سب سے بہتر ہے پر اس کو چارج شیٹ کرکے نکالا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی آئی ایم ایف ڈیل بھیانک ہے، پارلیامنٹ کو اعتماد میں لیا جائے، فون آتا ہے کہ پورا پاکستان بند ہونے جارہا ہے، ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ایک دو گھنٹے میں پورا شہر بند کردیا جاتا ہے، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا جب تک پولیس پہچنے دھرنے دئے جاچکے تھے، چھوٹے بچے عورتیں بھی ان میں شامل تھے۔ ہم نے کہا کہ پولیس کا استعمال ہوش سے کیا جائے، ہم نے کہا احتجاج کریں لیکن لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ صوبے میں 26 مقام پر احتجاج ہوا، 26 میں سے 24 جگہ سے احتجاج ختم کروادیا ہے۔ اب ہم نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے الرٹ کئے ہیں۔ دھرنوں سے پانچ اموات ہوئی ہیں ، 18 زخمی اور 12 پولیس اہلکار زخمی ہیں۔ ہم احتجاجیوں سے سیاسی مزاکرات کرنے ان کو متبادل جگہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ عوام کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تینوں اسپتالوں پر وزیراعظم سے جب بھی ملاقات ہوئی بات کی، ان کو غلط گائیڈ کیا جاتا رہا ہے، قانون بنانے شروع کردئے گئے، وزیر صحت اور ہم نے خط لکھے ہیں لیکن سپریم کورٹ فیصلے میں ہی حل موجود ہے۔ سی سی آئی کے اجلاس سے پہلے میری وزیراعظم سے بات ہوئی، وزیراعظم خود کہہ رہے تھے کہ یہ اسپتال سندھ چلائے، ڈاکٹر فیصل سلطان کو معاملات بہتر کرنے کی ہدایت دی گئی۔ کل ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں حل بتائیں، اگر بیچ میں خلل نہیں ڈالا گیا تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ انھوں نے کہ اکہ جب مردم شماری 2017 میں ہوئی تو اس وقت اگست سے آوازیں آنی شروع ہوئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سندھ نے اور دیگر نے بھی اعتراضات کئے، وزیر قانون نے کہا کہ ہم مردم شماری کو تسلیم نہیں کرتے تو 2018 کے انتخابات پرانی مردمشماری پر کروانے پڑیں گے۔ سب نے ملک رآئین میں ترمیم کرکے صرف الیکشن کیلئے نتائج تسلیم کئے، پہلے ایک فیصد کو چیک کروانے کی بات کی گئی پھر پانچ فیصد پر اتفاق ہوا اور 24 نومبر 2017 کو یہ فیصلہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ مارچ 2018 میں سی سی آئی اجلاس ہوا، 27 مئی کو آخری اجلاس ہوا اس میں کہا گیا کہ ہم سے پانچ فیصد نہیں ہوسکتا۔ نئی پارلیامنٹ پر اتفاق ہوا، یہ حکومت آئی تو تاخیر سے چار اجلاسز ہوئے ان میں مرد شماری کا ذکر نہیں تھا اب کابینہ کمیٹی بنادی گئی ہے۔ میں نے کہا کہ کمیٹی صوبوں سے رائے ضرور ہے، ہم انتخار کرتے ہیں، کابینہ کی کمیٹی کے بعد کابینہ نے بھی منظوری دے دی اور صوبوں سے مشاورت نہیں کی گئی، اس مردم شماری کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں نہیں لایا گیا، نومبر کے اجلاس میں جو چئے ہوا اس پر عمل نہیں کیا گی ااور سی سی آئی احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا، سندھ کے ساتھ شدید ناانصافی کی گی۔ وزیراعلیی سندھ نے کہا کہ پہلے گھر شماری کی جاتی ہے پھر افراد گنے جاتے ہیں، اگر ٹوٹل مردم شماری کو گھروں میں تقسیم کریں تو کے پی میں اور بلوچستان پنجاب میں آبادی تھی۔ چاروں صوبوں میں صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر فیصلے کئے جاتے ہیں، سندھ اور بلوچستان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ یونیسف سروے کے تحت سوا ملین آبادی بلوچستان کی ہوجاتی ہے۔ سندھ حکومت کے ساتھ یونیسف نے جو سروے کی اتھا 2-7 ہمارے افراد تھے، ہماری آبادی ڈیڑھ کروڑ کم گنی گئی، ہماری آبادی 27 فیصد بنتی ہے اب 24 فیصد حصہ ملتا ہے۔ انھوں نے کہ اکہ وزیراعظم کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ سی سی آئی میں سب فیصلے اتفاق رائے سے ہوئے ہیں، یہ پہلا فیصلہ ہے جس میں اختلاف کے باوجود منظور کی اگیا۔ انھوں نے کہا کہ وفاق ترمیم کرسکتا ہے، میں نے ووٹ رجسٹرڈ کروایا جسکو تینوں صوبوں نے حمایت میں ووٹ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے مردم شماری نتائج پر مخالفت میں ووٹ دیا، تین وزرائے اعلیٰ نے ’’جی حضوری‘‘ جواب دیا۔ سی سی آئی فیصلے کے خلاف سندھ حکومت نے پارلیمنٹ میں ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، سندھ کابینہ نے ریفرنس کی منظوری دے دی ہے، 1998 کی مردم شماری پر سب کو تحفظات تھے، جب مردم شماری نوٹیفائی ہونگی تو 2017 کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیاں ہونگی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر تشدد کیا گیا۔ بدقسمتی سے ہر دفعہ مردم شماری کو متنازعہ بنادیا جاتا ہے، پیپلز پارٹی چاہتی ہے جو جس کا حق ہے اسکو دیا جائے۔ وفاقی حکومت پاکستان کیلئے کیا کرنا چاہتی ہے حکومت کو خود بھی نہیں معلوم۔
مہنگائی:
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مہنگائی کی مہ داری صوبائی حکومت کی بھی ہے، میں بری الذمہ نہیں ہوں، اسپاٹ چیکنگ کیلئے کل اجلاس بلایا ہے، قیمتوں کو بھی بہتر بنائیں گے، قیمت وہ رکھی جائے جو مناسب ہو جس سے فروخت کرنے والا اور خردینے والا دونوں مطمئن ہوں، غلط چیز غلط ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت زیادہ ذمہ دار ہے کیوں کہ منظوری انھوں نے دی ہے، شیخ رشید معافی مانگ چکے ہیں انکی بات پر زیادہ بات نہیں کروں گا۔ وزیراعظم کا احترام کرتا ہوں انکے آنے کی کوئی اطلاع اب تک نہیں ہے۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ پریس کانفرنس کی ابتدا میں ماہ رمضان کی آمد پر اپنی گفتگو میں کہا کہ سب کو رمضان کی مبارکباد دیتا ہوں، اللہ پاک اس ماہ صیام میں زیادہ عبادتیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ملک میں پیدا شدہ اختلافات ختم ہوسکیں۔
عبدالرشید چنا
میڈیا کنسلٹنٹ، وزیراعلیٰ سندھ
—————————–
Jeeveypakistan.com-report
———–
whatsapp……92-300-9253034