کے فور منصوبے کی مزید تباہی اب چیئرمین واپڈا کے ہاتھوں ۔۔۔۔۔کراچی کے شہری واپڈا سے مہنگا پانی خریدنے کے لئے تیار ہو جائیں

کراچی کی اگلی نسلوں کو پینے کا پانی کس دام پر ملے گا یہ ایک بہت بڑا سوال بن چکا ہے ۔شہر قائد کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے برسوں پہلے تیار کیے گئے منصوبے کے فور k-4کی لاگت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ منصوبہ بننے کی بجائے مزید التوا کا شکار ہو جاتا ہے کبھی کنسلٹنٹ کبھی ڈیزائننگ کبھی روٹ الائنمنٹ ، کبھی پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تبدیلی کا معاملہ آڑے آ جاتا ہے کبھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان فنڈز کے معاملے پر اختلاف ہوتا ہے ۔کبھی یہ معاملہ عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے ہر مرتبہ ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوتا ہے اور یہ منصوبہ آگے بڑھنے کی بجائے مزید پیچھے چلا جاتا ہے ماہرین کے مطابق پہلے ہی اس منصوبے کو بری طرح نقصان پہنچ چکا ہے اس منصوبے سے طویل عرصے تک شہریوں کو فائدہ پہنچانے کا پلان تو بڑی سنجیدگی اور نیک نیتی سے تیار کیا گیا تھا لیکن مختلف کالی بھیڑوں کی وجہ سے یہ منصوبہ چند ارب سے بڑھ کر اب سو ارب روپے سے زیادہ کا ہوتا جا رہا ہے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چیئرمین واپڈا کے ہاتھوں اس کی مزید تباہی ہوگی ۔

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کینجھر جھیل سے کراچی کو پانی فراہم کرنے کے لیے بنائی جانے والی واٹر کنال میں اسٹیل پائپ لائن ڈالنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس کی وجہ سے اس کی لاگت میں مزید پچاس ارب روپے کے اضافے کا امکان ہے اور اس کے نتیجے میں کام مزید دو سال کی تاخیر سے مکمل ہوگا بتایا جا رہا ہے کہ چیئرمین واپڈا نے منصوبے میں نئی تجاویز کا خیر مقدم کیا ہے اور واٹر کنال میں اسٹیل پائپ ڈالنے کے معاملے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے حالانکہ کینجر جھیل سے پرانے روٹ پر بغیر اسٹیل پائپ کے پانی باآسانی کراچی پہنچ رہا ہے پھر کیا ضرورت پڑی ہے کہ نئے روٹ میں اسٹیل پائپ لائن استعمال کرکے اس پروجیکٹ کی لاگت میں اضافہ کیا جائے جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے اور جس کی لاگت پہلے ہی کئی ارب روپے بڑھ چکی ہے ۔سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والے واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کے فور منصوبے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ بنائی تھی اس پر تفصیلی غور و خوص کے بعد عمل درآمد یقینی بنا دیا جائے تو معاملات خود بخود بہتر ہو سکتے ہیں لیکن اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کرنے کے لالچی عناصر موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ کے فور منصوبے کی لاگت میں مزید تاخیر ہو تاکہ اس کی لاگت پر فنڈز کا حجم بڑھتا جائے اور وہ ان فنڈز پر اپنے ہاتھ صاف کرتے رہیں ۔کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اس منصوبے کے حوالے سے کافی آگاہی رکھتے ہیں جب وہ اپوزیشن میں تھے تو انہیں اس منصوبے کے بارے میں کافی معلومات ہیں اب انہی کی پارٹی پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور وفاقی حکومت اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتی ہے گورنر سندھ عمران اسماعیل کی اس منصوبے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں بظاہر یہ صوبائی حکومت کا منصوبہ تھا لیکن اب اسے واپڈا کے حوالے کیا جا چکا ہے لیکن متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ واپڈا کے پاس جانے کے بعد اس اہم منصوبے میں بہتری آنے کی بجائے مزید مسائل سر اٹھا چکے ہیں اس منصوبے کے التوا میں مزید اضافہ ہو رہا ہے پہلے سے تاخیر کا شکار یہ منصوبہ مزید کئی سال تک لٹکا رہے گا اس لیے وزیراعظم عمران خان کی فوری اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہے سپریم کورٹ کو بھی اس معاملے کو دوبارہ دیکھنا چاہیے ۔
دوسری طرف ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے بھی اس معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کی توجہ مبذول کرائی ہے اور ایک خط لکھا ہے جس میں کراچی کے شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے انتہائی اہم منصوبے کے فور کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔مذکورہ خط میں واٹر پروجیکٹ کے فور کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایم ڈی سید عادل گیلانی نے پی ٹی آئی کو یاد دلایا کہ 2016 میں یہ منصوبہ ایف ڈبلیو او کو 25 ارب 50 کروڑ روپے میں دیا گیا تھا لیکن 2018 میں زمین کے عدم فراہمی کی وجہ سے اس پر کام رک گیا تھا ۔
کے فور منصوبے پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور ایف ڈبلیو اوکنسلٹنٹ کے درمیان ایک تنازعہ اکتوبر 2018 کے مہینے میں سامنے آیا تھا جس پر 14 مہینے کا وقت ضائع ہوا اور مارچ 2020 میں وزیر اعلی سندھ کی جانب سے 12 رکنی ٹیکنیکل کمیٹی بھی بنائی گئی جس کی منظوری کا بینہ نے بھی دی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مینجنگ ڈائریکٹر کو اس کمیٹی کا رکن بنایا گیا فائیو کور سے بھی نمائندہ لیا گیا ۔اس کے بعد یہ طے پایا کہ پندرہ مہینے کے اندر اس پروجیکٹ کو مکمل کیا جائے گا اور اس منصوبے کی ڈیڈلائن جون 2021 رکھی گئی لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوا جس کے بعد اس منصوبے کو فیڈرل گورنمنٹ نے کراچی پیکیج میں شامل کر لیا واپڈا کو اس منصوبے کا امپلیمنٹیشن ہینڈ اوورکر دیا گیا واپڈا نے اس منصوبے کے ڈیزائن کو چیک کیا ۔اور یہ بات سامنے آئی کے واٹر

کے اندر اسٹیل پائپ لائن ڈالنے کی تجویز ہے جس پر 50 ارب سے لے کر 75 ارب روپے کا اضافی خرچہ ہوگا اور منصوبے پر کام دو سے تین سال کے عرصے کا وقت بڑھ جائے گا ری ڈیزائن کرنے کی وجہ سے اس منصوبے پر 45 ارب روپے کے اضافی خرچہ کا خدشہ ہے اس کی وجہ سے اس کی لاگت مجموعی طور پر ایک سو پچیس ارب روپے تک پہنچ جائے گی یہ قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہوگا
جاری ہے ۔۔۔۔
رپورٹ ۔سالک مجید
———
e-mail—jeeveypakistan@yahoo.com
————
whatsapp—-92-300-9253034