جناح سندھ یونیورسٹی -وائس چانسلر کے عہدے کے لیے-17 امیدوار

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے موزوں امیدواروں کے انتخاب میں تلاش کمیٹی کے آراکین تذبذب کا شکار ہیں۔ جنگ کو انتہائی باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چند خاص امیدواروں کا اسسٹنٹ پروفیسر کا تجربہ بھی بروئے کار لایا گیا ہے جبکہ تجربہ کا اطلاق پروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر سے ہونا چاہیے۔ جامعات کے ایکٹ کے مطابق صرف پروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہی شعبے کا سربراہ بن سکتا ہے اسٹنٹ یا لیکچرار نہیں بن سکتا ۔ تلاش کمیٹی امیدواروں کے انٹرویوز عدالتی سماعت کے اگلے روز 8اپریل کو کرے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کیا تلاش کمیٹی کے رکن علم الدین بلو اجلاس میں شریک ہوں گے یا نہیں کیوں کہ وہ سینئر ممبر بورڈ تعینات ہوچکے ہیں اور انھیں ایڈیشنل چیف سیکرٹری بورڈز و جامعات کا اضافی چارج بھی دیا جاچکا ہے مگر عدالت نے دہرے چارج اور او پی ایس کے خلاف فیصلہ دے رکھا ہے۔ یاد رہے کہ اجلاس میں شریک ایک رکن نے بتایا تھا کہ اگر اشتہار کے مطابق امیدواروں کی دستاویزات کی حقیقی بنیادوں پر جانچ کی جاتی تو امیدواروں کی تعداد 10 سے بھی کم رہ جاتی چنانچہ مزید عدالتی کارروائی سے بچنے کیلئے تمام 17 امیدواروں کو انٹرویو کیلئے بلایا گیا ہے۔ ایک امیدوار نے جنگ کو بتایا کہ انھیں انٹرویو ملتوی ہونے کی اطلاع فون پر دی گئی اور بتایا گیا کہ انٹرویوز عدالتی احکامات پر ملتوی کیے گئے ہیں جبکہ عدالت نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔جن 17 امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا ہے ان میں ڈائو یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر ڈاکٹر عمر فاروق، پیپلز میڈیکل یونیورسٹی کے قائم مقام وی سی گلشن علی میمن، ڈاکٹر نوشاد اے شیخ، ڈاکٹر امجد سراج میمن، ڈاکٹر شاہد رسول، ڈاکٹر نرگس انجم، ڈاکٹر خاور سعید جمالی، ڈاکٹر لبنیٰ بیگ، ڈاکٹر سید حسن مہدی، ڈاکٹر قمرالدین بلوچ، ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی، ڈاکٹر انیلہ عطا الرحمان، ڈاکٹر خواجہ مصطفی قادری، ڈاکٹر سید جمال رضا، ڈاکٹر سید محمود حیدر اور ڈاکٹر عبدالرزاق شیخ شامل ہیں
——————https://jang.com.pk/news/907567?_ga=2.5828787.1835023267.1617527853-1853118414.1617527853
—————-

ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود محکمہ تعلیم سے دہرے چارجز اور او پی ایس افسران کو عہدے ہٹایا نہیں جاسکا ہے۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے سربراہ احمد بخش ناریجو کے پاس سیکرٹری اسکول ایجوکیشن کے عہدے کا بھی چارج ہے۔ 19گریڈ کی ڈی او ایجوکیشن وسطی تحسین فاطمہ کے پاس نہ صرف 20 گریڈ کے ڈائریکٹر سیکنڈری کراچی کا چارج ہے بلکہ ایڈشنل سیکریٹری تعلیم سیمت دو چارج اور بھی ہیں۔ اسی طرح درجنوں افسران اسکول ایجوکیشن میں دہرے چارج پر ہیں یا وہ او پی ایس پر تعینات ہیں۔حیدرآباد کے ریجنل ڈائریکٹر عبدالحمید چنڑ کے پاس طویل عرصے سے ڈی جی کالجز کا چارج ہے۔ حیدرآباد سے کیمسٹری کے ایسوسی ایٹ قادر شاہ کو ڈائریکٹر پرائیویٹ کالجز سندھ تعینات کیا گیا اور انھوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائی نوید شاہ اور کالج لیکچرار کو اسٹنٹ ڈائریکٹر پرائیویٹ کالجز حیدرآباد بنا رکھا ہےجب کہدونوں کو کالجوں میں پڑھانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ریجنل ڈائریکٹر کالجز سندھ اور ڈی جی کالجز سندھ کے دفاتر میں کئی لیکچرار ز، اسٹنٹ پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز انتظامی عہدوں پر تعینات ہیں۔سندھ کے درجنوںکالجوں میں 19 گریڈ کے بجائے 18 اور 20 گریڈ کے بجائے 19 گریڈ کے سفارشی پرنسپلز تعینات ہیں۔ عدالتی احکامات کی روشنی میں او پی ایس اور دہرے چارج کے معاملے پر سیکریٹری کالج ایجوکیشن حیدر شاہ نے گزشتہ ہفتے نوٹس نکالا مگر اس پر عمل نہیں ہوا بس اس کی حیثیت رسمی سی رہی تاہم قائم مقائم سیکریٹری تعلیم نے او پی ایس اور دہرے چارج پر تاحال کوئی نوٹیفکیشن نہیں نکالا۔ زرائع کے مطابق سیکریٹری اسکول ایجوکیشن خود دہرے چارج کے حامل ہیں تو ان کے لیے دہرے چارج کا نوٹفیکشن نکالنا مشکل ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ وزیر تعلیم سعید غنی جو وزیر محنت بھی ہیں انھیں محکمہ تعلیم کا قلمدان سنبھالے ایک سال سے زائد عرصہ گزرگیا ہے تاہم ان کے دور میں او پی ایس اور دہرے چارج کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ صوبے میں ٹیکسٹ بک بورڈ کے چئیرمین کو سیکریٹری اسکول ایجوکیشن کے عہدے کا اہم ترین چارج دے رکھا ہے۔جنگ نے جب وزیر تعلیم کے میڈیا کنسلٹنٹ زبیر میمن سے رابطہ کیا کہ محکمہ تعلیم میں او پی ایس اور دہرے چارج کے معاملے پر کب عمل ہوگا تو انھوں نے کہا کہ یہ آپ براہ راست وزیر تعلیم سے ہی معلوم کریں ویسے وزیر تعلیم ایک پریس کانفرنس میں اس کا جواب دے چکے ہیں۔ وزیر تعلیم سعید غنی رابطے کی کوشش کی مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔

https://jang.com.pk/news/907568?_ga=2.162616508.1835023267.1617527853-1853118414.1617527853