آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں حسینہ معین کی یاد میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد۔۔معروف علمی و ادبی شخصیات سمیت ٹی وی کے نامور ستاروں کی شرکت

ہندوستان سمیت دنیا بھر سے حسینہ آپا کی تعزیت کیلئے ادیبوں اور فنکاروں نے آرٹس کونسل میں فون کیا۔ احمد شاہ

کراچی ()آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں معروف ڈرامہ نویس اور آرٹس کونسل کراچی کی نائب صدر حسینہ معین کی یاد میں تعزیتی اجلاس جون ایلیاءلان میں منعقد کیاگیا اجلاس میں ادیب و دانشور انور مقصود، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ،افتخار عارف ، کشور ناہید، حارث خلیق، منور سعید ،ارشد محمود، اداکار شکیل ، ساجد حسن، خالد انعم، مہتاب اکبر راشدی، سمیت معروف علمی و ادبی شخصیات اور ٹی وی کے نامور ستاروں کے علاوہ سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی، جوائنٹ سیکریٹری سید اسجد بخاری ، گورننگ باڈی کے رکن طلعت حسین، ڈاکٹر قیصرسجاد، کاشف گرامی، قدسیہ اکبر، محمد اقبال لطیف، سید سعادت علی جعفری ،عنبرین حسیب عنبر، ڈاکٹر ایوب شیخ، نصرت حارث، بشیر خان سدوزئی، عظمیٰ الکریم، شکیل خان، اخلاق احمد، عرفان اللہ خان نے شرکت کی، نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیئے، اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیاگیا، اس موقع پر معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کہاکہ حسینہ کمال کی خاتون تھیں وہ مجھ سے یونیورسٹی میں سینئر تھیں، ان سے جب آخری ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک نظم سنائی تھیں،آخر کہ تئ یں ہنس اکیلا ہی سدھارا،انہوں نے کہاکہ کیوں نہ حسینہ کو ہنس کر یاد کیا جائے، صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہاکہ گزشتہ دس برسوں سے ہمارا ان سے گہرا تعلق تھا، حسینہ آپاہماری گورننگ باڈی کی ممبر رہیں اور پھر نائب صدر بنیں، ان کے آخری الفاظ تھے احمد کو فون کرو، میری بیٹی کی شادی میں انہوں نے بالکل گھر کے بزرگ کی طرح اسے رخصت کیا، ان کے جانے سے ہمارا ذاتی نقصان ہوا ہے، وہ ہماری ماں اور سربراہ تھیں، ہم آرٹس کونسل کے ہال کا نام حسینہ معین ہال رکھ رہے ہیں ان کا نام آرٹس کونسل میں ہمیشہ باقی رہے گا، انہوں نے کہاکہ حسینہ آپا جیسے لوگوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کو زینت بخشی، انہوں نے 23 مارچ کے پروگرام میں آخری تقریر کی اور کہا کی میں چلتی ہوں اور پھر وہ ہمیشہ کیلئے چلی گئیں، ہندوستان سمیت دنیا کے ادیبوں اور فنکاروں نے تعزیت کیلئے آرٹس کونسل فون کیا ہے میں ان سب کا شکرگزار ہوں، کشور ناہیدنے کہاکہ میرے اور حسینہ کے مضمون الگ تھے، میں شاعری لکھتی تھی اور وہ ڈرامہ،لیکن ایک موقع پر آکے ہمارا سنگم ہوتا ہے، اس نے مجھے آخری سیڑھی پر نہیں چڑھنے دیا اور مجھ سے پہلے چلی گئی، افتخار عارف نے کہاکہ میری پہلی دفعہ ان سے ملاقات ہوئی جب وہ بچوں کیلئے خاکے لکھا کرتی تھیں پھر ٹی وی پر انہوں نے بے شمار کامیاب سیریل لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، میں نے کبھی ان سے زندگی کی شکایت نہیں سنی، انہوں نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا، وہ ڈرامے اپنی مرضی سے لکھا کرتی تھی پر جب اسکرپٹز تیار کرتی تھیں تو پروڈیوسرز کے ساتھ بیٹھ کر لکھتی تھیں،میں نے احمد شاہ سے درخواست کی ہے کہ حسینہ آپا کے ڈراموں کی کوئی کلیات شائع کردیں تا کہ وہ ہمیشہ باقی رہیں، ٹیلی ویژن کی حد تک کوئی دوسری خاتون ایسی نہیں ہیں جنہوں نے سوشل اسٹبلیشمنزمنٹز کے خلاف لکھا اور شہرت پائی، اداکار طلعت حسین نے کہاکہ حسینہ آپانے ہمیں چلنا سکھایا مجھے بتایا کہ ڈرامہ کیا ہے کیسے بنتا ہے ، ان کے بہت سے ڈراموں میں کام کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا، مجھے اپنے مخصوص انداز میں ڈانٹا بھی کرتی تھیں انہوں نے ہر موڑ میری بہت مدد کی، اداکارہ ثانیہ سعیدبے کہاکہ حسینہ آپا سے میرا دلچسپ رشتہ تھا، پچھلے چند سالوں میں ان کے ساتھ سفر کا بھی موقع ملتا رہا۔ جب مجھے ”آہٹ“ آفر ہوا تھا تو حسینہ آپا کو میں خاص پسند نہیں آئی تھی پر بعد میں ہمارا ایک گہرا تعلق قائم ہوا، دوسروں کے نقطہ نظر کو آپا بہت اہمیت دیتی اوروہ روایت توڑنے والوں میں سے تھیں، لوگ کہتے ہیں فنکار کیا کرسکتے ہیں، دوسرے ممالک میں پاکستان کو تھوڑا زندہ رکھتے ہیں جیسے حسینہ آپا نے اپنی تحریروں سےکیا ،بہروز سبزواری نے کہاکہ وہ بہت دھیمے مزاج کی خاتون تھیں، وہ سینز لکھ کر لاتی تھیں اور پھر پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر انہیں مکمل کرتی تھیں ، میں ان کا بہت چہیتا تھا، ساری زندگی وہ اکیلی رہی ہیں اور اکیلی ہی رخصت ہوگئیں، ہم ان کیلئے دعاگو ہوں اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے اور جہاں بھی اُردو بولی اورسمجھی جاتی ہے وہاں حسینہ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اداکار شکیل نے کہاکہ بات کرنی کبھی اتنی مشکل نہ تھی جتنی آج لگ رہی ہے، میری ان سے آخری ملاقات نہ ہوپائی، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ حسینہ کے ساتھ کام کرنے کا سب سے زیادہ مجھے موقع ملا، ہمارا ٹیلی ویڑن کا سفر ایک ساتھ شروع ہوا مجھے یہ راستہ انہوں نے ہی دکھایا تھا، میری ٹیلی ویژن کی پہچان میں حسینہ کا نمایاں کردار تھا، ارشد محمود نے کہاکہ ”اَن کہی“ کے وقت میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی اس کے بعد ہمارا ایک گہرا تعلق بن گیا انہوں نے جتنے بھی ڈرامے لکھے تھے اس میں کسی نہ کسی حوالے سے میرا تعلق رہا تھا ہم انہیں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے، سیاسی رہنما تاج حیدر نے کہاکہ جس دور میں وہ لکھ رہی تھیں وہ جبر کا دور تھا جو صدیوں سے چل رہا تھا جو آرٹ سوالات نہ اٹھائے جس میں جہد نہ ہو وہ آرٹ نہیں ہوتا، حسینہ نے جبر کے دور میں سوالات اٹھائے پیغامات دیئے، انہوں نے جو حوصلہ اُس وقت دیا عورتوں پر اس کے اثرات آج بھی ہے، ہر ایک نے کہا وہ چلی گئیں، جسمانی طور پر وہ نہیں ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ ہم میں موجود ہیں اور رہیں گی، مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ جو کردار حسینہ نے اپنے ڈراموں میں تخلیق کیے وہ کردار ان کے اپنے جذبات تھے وہ خود کسی سے نہیں لڑتی تھیں پر ان کے کردار بہت بولڈ ہوتے تھے انہوں نے اپنے کرداروں کے عمل سے دکھایا کہ خواتیں کو کیسا ہونا چاہیے آج ہم ان کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر اسد محمد خاں، حارث خلیق ،منور سعید،ڈاکٹر فاطمہ حسن،مصباح خالد، عمرانہ مقصود،ساجد حسن، ایم ظہیر خان، ڈاکٹر عالیہ امام نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان کی زندگی میں لکھے گئے ڈراموں پر مبنی ڈاکومینٹری فلم دکھائی گئی۔آخر میں اقبال لطیف نے دُعائے مغفرت کرائی۔