گاجر اور چھڑی کی پالیسی …… قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

سینیٹ انتخابات تقاضا کرتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات پر توجہ دی جائے۔ پارلیمان کے لئے تمام جماعتوں کو پالیسی ساز فیصلہ کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ بنانے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟۔ سب سے پہلے تو سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی کے عنصر کے وجہ سے فرد واحد کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی روش کو اب ختم ہونا چاہیے۔جمہوریت پسندوں کو حقیقی نظام لانے کے لئے ابتدائی تیاریوں کی گہری معنویت کو سمجھنا ہوگا، حزب اختلاف اپنے مطالبات تسلیم کرانے، یا حکومت کا اپنی ضد پر اڑ جانا اب ایک حساس اور بے چین معاملہ بن چکا۔ دونوں فریقین کو پنجاب میں سینیٹ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرح ملک کے وسیع تر مفاد کے تناظر میں اُن غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے عوامی مسائل کا پائدار حل نہیں نکل سکا۔یہی وقت ہے کہ ہمارے حکمراں اب کمال تدبر سے عوام و حزب اختلاف کو تبدیل شدہ حقائق سے آگاہ کریں۔ پنجاب میں جب سینیٹ سیٹ کے لئے بدترین سیاسی مخالفین اپنے بیاینے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور علاقائی صورتحال کا ادراک کیا جاسکتا ہے تو ملکی منظر نامہ اس امر کا متقاضی بھی ہے کہ اندیشوں، مفروضوں، توقعات اور پیدا شدہ الجھن کو ختم کرنے میں مزید مثبت پیش رفت بھی کی جاسکتی ہے، حزب اقتدار و اختلاف ملکی استحکام کو بنیادی حقائق سے مشروط رکھتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور قومی مختاری کو یقینی بنانے کی کوشش میں پہل کریں۔
خوش کن بات کہ سیاست میں حقیقی معنوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، حرف آخر نہیں ہوتا، ہر جماعت اپنے سیاسی بیاینے کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش خطرات، داخلی تبدیلیوں اور جمہوری انتخابات کے نتائج، دیگر ملکی مسائل اور عصری حقائق کے حوالے سے، سمجھنا ہوگا کہ درپیش حالات و مضمرات ایک چیلنج سے کم نہیں، مسائل پہاڑ کی طرح کھڑے ہیں،اداروں کی بے توقیری، امن و امان کو مستحکم بنانے اور سیاسی معاملات میں شکست و ریخت ایسے مسائل ہیں، جن کو حل کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر حکومت کو عوام کی بھی حمایت اور مدد درکار ہوگی،عوام کو درپیش خدشات اور تحفظات سے قطع نظر تمام سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کن اور دو ٹوک انداز میں قومی امنگوں کی عکاسی کرنا ہوگی۔سینیٹ انتخابات کے بعد ملکی صورتحال میں خوش گوار مائنڈ سیٹ کی بھی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتوں کو برداشت کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔جمہوریت پسندوں کو عدم اعتماد یا مایوس اُس صورت میں ہونا چاہیے جب بحران سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہو، جب کہ خدشات کے خاتمے کے لئے جتنی سود مند کوششیں دور حاضرہ میں کی جاسکتی ہیں، وہ کسی نظام (اسلام کے علاوہ) میں نہیں۔
عالمی بد امنی، کرونا وبا ، ملکی معاشی مسائل اور اقتصادی بحرانوں کو ایک ایسی با اختیار اور عوامی حکومت ہی صحیح معنوں میں نبردآزما ہوسکتی ہے جسے عصری حقائق کا گہرا ادارک ہو، جو تاریخ اور شعور سے سبق حاصل کرے۔جسے فری ہینڈ ملا ہو، جو کسی ڈکٹیشن کی محتاج نہ ہو، جس کی پشت پربالادست تمام ادارے ہو ں، ایسی حکومت اور ایسا ریاستی نظام عوام کے مشکلات کو حل کرنے کی اہل کہلائی جاتی ہے، اگر تمام ادارے ایک صفحے پر ہونے کے باوجود اصلاحات و اقدامات نہ کرسکیں تو پھر اپنے گریبانوں میں جھانکنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔سینیٹ انتخابات کے بعد حکومت کو زیادہ تدبر و زمینی حقائق کا ادارک کرتے ہوئے پرجوش انداز میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، کسی بھی جانب سے، کسی بھی ادارے یا سیاسی جماعت کے خلاف دباؤ کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔وطن ِعزیزکو بدترین دہشت گردی کا ایسا سامنا رہا جو کبھی اس قوم کا مقدر نہیں بنی تھی، سرحدی علاقوں میں نہتے عوام اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی وارداتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مملکت کو مزید محفوظ بنانے کے لئے اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جمہوریت کو کسی نہ کسی جواز کو وجوہ بنا کر مصلوب کیا جاتا رہا ہے، عدلیہ کی آزادی سمیت سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی روش سے سب آگاہ ہیں،داخلی خلفشار، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بے سمت جنگ کو ختم کرنے کی خواہش عوام کو مایوس نہیں ہونے دیتی۔ حالات کے جبر سے تنگ آنے کے بجائے عوام نظام کی حقیقی تبدیلی کی پہلی اینٹ رکھنے کے متمنی اب بھی ہیں۔ اب ملک کی مین سٹریم جماعتوں کی اخلاقی، آئینی اور قانونی ذمے داری اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ملک وقوم کی کشتی کو بحرانوں سے نکال کر دم لیں، نان ایشوز پر سیاسی چاند ماری ختم کریں۔ملکی ترقی اور عوامی خوش حالی کے جتنے وعدے کئے، اس کا یہ حال ہے کہ قوم غربت اور مہنگائی کا دو طرفہ عذاب بھگت رہی ہے۔جو لوگ قومی خزانے اور مضبوط معیشت دینے کا ڈھنڈوراپیٹتے رہے، اب بھی اپنی جعل سازیوں پر نادم نہیں۔چنانچہ وقت ہے کہ دلیرانہ فیصلے کئے جائیں، فروعی مفادات کو ایک جانب رکھ دیا جائے،یہ فیصلے کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہونے چاہیں، کسی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ قوم کی تقدیر کے فیصلے پارلیمنٹ میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کے ساتھ کئے جائیں، ہمیں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہے کہ پھر کوئی عناصر کسی کی جنبش ابرو کا منتظر ہو۔
سینیٹ انتخابات بالخصوص پنجاب میں بلامقابلہ تمام امیدواروں کی کامیابی ایک نئے زمینی حقائق کا اظہار ہے، ملک میں جمہوری قوتوں کو کو نظر انداز کرکے غیر جمہوری قوتوں کی حمایت کا تجربہ کبھی کامیاب نہیں رہا، بلکہ اس سے بدگمانی اور نفرت میں بے حد اضافہ ہوا۔خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اب یہ ممکن نہیں کہ امن پسندی اور عالمی امن کے قیام کی امکانی کوششوں میں خود اپنے ملک کو کسی نئے میدان جنگ میں داخل کردیں۔حقیقت پسندی کا ثبوت دینا ہوگا، حکومت اشتراک عمل میں اخلاص نیت سے آگے بڑھے، اس کی گاجر اور چھڑی کی پالیسی زمین بوس ہوچکی ہے، اس تناظر میں سینیٹ انتخابات کا جو فیصلہ بھی آیا ہے، اس کے بعد آئینی و انتخابی اصلاحات کے لئے تمام جماعتیں ایک دوسرے سے ہر ممکن تعاون کریں۔حزب اختلاف کو اب یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد ان کی جمہوری فرائض میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ حکمراں جماعت کو بھی اپنی پوزیشن پر غور کرنے کی ضرورت ہے،وزیراعظم کے ساتھ کوئی ناتجربہ ٹیم نہیں کہ وہ مسائل و اس کے حل سے واقف نہ ہو، بس ضرورت اس اَمر کی ہے وہ فیصلہ کیا جائے جو سب کے حق میں بہتر ہو