پاکستان میں سول ایوی ایشن کی آخری سانسیں


پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی آرڈیننس 1982 کے تحت پاکستان میں سول ایوی ایشن سیکٹر کو سول ایوی ایشن اتھارٹی ریگولیٹ کرتی ہے یہ ایک انتہائی اہمیت کا حامل ادارہ ہے اسے پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے سمیت مختلف ایئر لائنز کے آپریشن کو دیکھنا ہوتا ہے ایئرپورٹ سے لے کر جہازوں کی سیفٹی تک اس کے ذمہ انتہائی نازک احساس اور اہمیت کے حامل معاملات ہوتے ہیں کسی بھی ریگولیٹر ادارے کے لئے اس کا ایک آزاد اور خود مختار حیثیت میں کام کرنا لازم ہوتا ہے لیکن ماضی میں یہ بات واضح رہی ہے کہ سول ایوی ایشن کے ساتھ ایسی صورتحال نہیں تھی ۔آج بھی وفاقی حکومت سول ایوی ایشن آرڈیننس کے تحت سی اے کو بائنڈنگ پالیسی ہدایات جاری کرتی رہتی ہے ۔ایوی ایشن ڈویژن کے سیکرٹری سی اے بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے متحرک رہتے ہیں جبکہ چار وفاقی سیکرٹری اور حاضر ڈیوٹی وائس چیف آف ائیر سٹاف اور پی آئی اے کا مینجنگ ڈائریکٹر سول ایوی ایشن کے بورڈ ممبرز کے طور پر متحرک نظر آتے ہیں اس کے علاوہ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایوی ایشن ڈویژن کے سیکریٹری سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل کا عذاب فی چارج بھی اپنے پاس رکھتے رہے ہیں ان سب معاملات کی وجہ سے کسی کے لیے بھی یہ حیران کن بات نہیں کہ سول ایوی ایشن جیسے ریگولیٹر کی کارکردگی آج جہاں پر پہنچ چکی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں سال 2018 سے لے کر سال2020 کے آخر تک اس انتہائی اہمیت کے حامل ادارے کو فل ٹائم ڈائریکٹر جنرل کی خدمات سے محروم رکھا گیا اس ریگولیٹر ادارے کو بیوروکریٹک پاور فل انداز سے چلانے کی کوشش کی جاتی رہی قائد اعظم پر ہونے والے فیصلوں سے اس ادارے کی تباہی عروج پر پہنچ گئی ایوی ایشن سیکٹر کی مہارت اور خوبیوں سے نابلد لوگوں کے پاس اہم فیصلوں کا اختیار رہا جن کی بندر بانٹ کے نقصانات پوری انڈسٹری کو اٹھانے پڑے ۔خوش قسمتی تھی کہ بڑے بڑے حادثات رونما ہونے سے بچتے رہے لیکن ایسا کب تک ہوتا بالآخر 22 مئی کو گزشتہ برس پی آئی اے کا ایئر بس طیارہ بدترین حادثے سے دوچار ہوا کراچی ایئرپورٹ کے بالکل نزدیک ہونے والے اس حادثے نے پاکستان میں سول ایویشن اتھارٹی کے کردار اہلیت قابلیت اور کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھائے ۔ویسے تو دنیا کی بہترین ائیر لائن کا طیارہ بہترین ریگولیٹر کے موجودگی میں بھی حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے لیکن سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کی تاریخ کے حوالے سے بہت خراب ہے ۔۔۔۔۔
جب یہ بدترین حادثہ ہوا تو پی آئی اے کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سول ایوی ایشن کی انتظامیہ اور ایوی ایشن ڈویژن کے کرتا دھرتا سبھی تنقید کی زد میں آئے سب سے زیادہ نقطہ چینی اور اعتراضات اس وقت پاکستان ایوی ایشن سیکٹر کی پاور فل شخصیت حسن ناصر جامی پر ہوئے جو پاکستان کی ایشن ڈویژن کے سیکرٹری تھے اور سولائزیشن بورڈ کے چیئرمین بھی اور سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل کا ایکٹنگ بھی ان کے پاس تھا اور وہ کافی عرصے سے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے بورڈ ممبر بھی تھے ان پر اعتراض کرنے والوں نے یہ بات بھی یاد دلائی تھی کہ وہ ایک زمانے میں پنجاب حکومت میں سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے طور پر فرائض انجام دیتے تھے پھر ان کی سول ایوی ایشن سے کیا مطابق تھی جو ہر اہم فائل ان کے پاس سے ہوکر گزرتی ہے اور ہر اہم فیصلہ کرتے رہے ۔

سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ وفاقی وزیر کی پریس کانفرنس کے نتیجے میں یورپ اور دیگر ملکوں میں پاکستانی پائلٹوں اور پروازوں پر پابندی لگا دی گئی یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کے اقدامات کوئی سرپرائز نہ تھے انہوں نے وہی فیصلے کیے جو نہیں کرنے چاہیے تھے کیوں کہ پابندی کے فیصلے کی دعوت خود ہمارے وزیر کے بیان نے دے دی تھی ایک ایسا سچ بولا گیا تھا جس کے بعد ساری دنیا میں ہمارے پائلٹ اور ہماری ایئرلائن بد نام ہو گئی ۔

یہ بات سامنے آئی کہ حادثے کے بعد تحقیقات کا حکم وفاقی حکومت دے تو دیتی ہے لیکن کیا ان لوگوں کے خلاف آزادانہ انکوائری ممکن ہے جو خود سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کے بورڈ ممبر ہوں اور اہم عہدوں پر موجود ہو اور اثر انداز ہوتے ہو ں۔ ان کی موجودگی میں کیا کوئی بھی انکوائری رہ جانے دار اور آزادانہ نتائج پر مبنی قرار پا سکتی ہے

اب کافی عرصے بعد سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ایک فل ٹائم ڈائریکٹر جنرل موجود ہے اور خاقان مرتضی پوری سنجیدگی لگن اور محنت کے ساتھ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے معاملات کی بہتری اور ادارے کی ترقی کے لئے کوشاں اور متحرک نظر آتے ہیں لیکن آزاد ذرائع سے موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق ادارے کی کارکردگی میں ابھی تک کوئی نمایاں بہتری آنے کی بجائے معاملات جوں کے توں ہیں بلکہ بعض شعبوں میں کارکردگی بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہو رہی ہے ریگولیٹر کی حیثیت سے ادارہ اپنا کردار مثبت اور موثر انداز میں انجام دینے

سے قاصر نظر آتا ہے کیونکہ قومی ائیر لائن کی جانب سے مسلسل خلاف ورزیوں کی شکایات سامنے آئی ہیں اور عالمی پابندیوں کے سنگین خطرات اور فیصلوں کے باوجود ایئر لائن اور اس کا ریگولیٹر ادارہ اپنی اصلاح کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہا میڈیا میں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں قواعد اور قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ۔ملائیشیا میں پاکستانی طیارے کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس نے ساری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ۔ایئر لائن اور ریگولیٹر ادارہ اہم ملکی اور بین الاقوامی امور اور معاملات سے قطعی طور پر لاعلم اور غافل نظر آیا ۔ جس ملک میں ایک طیارے کے حادثے میں 98 قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہو اور جس ملک کا قومی طیارہ ایک دوسرے ملک میں عدم ادائیگی پر تحویل میں لے لیا جائے اس ادارے کے قومی ایئرلائن اور اس کے ریگولیٹر ادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے معاملات کس قدر غیر سنجیدہ اور معاملات سے غافل لوگوں کے ہاتھ میں چل رہے ہیں اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف پی آئی اے کو گزشتہ برس 604 مرتبہ ایسے نوٹس جاری کیے گئے جن کا مقصد قواعد کی خلاف ورزی پر اس کی توجہ دلانا تھا 604 مرتبہ آپریٹر نون کمپلائنس رپورٹس کا جاری ہونا معاملے کی سنگینی کا پتہ دیتا ہے ۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ادارہ اپنے ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے ماضی میں متعدد ملکی اور غیر ملکی ایئرلائنز کو تنگ کرنے اور بیجا پریشان کرنے کے معاملات میں بھی ملوث رہا ہے اور اس کی وجہ سے متعدد ایئرلائنز کو شکایات ہوئی یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا تھم نہیں سکا ۔۔مختلف ادوار میں مختلف ایئرلائنز کو کس طریقے سے تنگ اور پریشان کیا جاتا رہا اور آج سول ایوی ایشن کی کالی بھیڑیں کس طرح نجی ایئرلائنز کو تنگ اور پریشان کر رہی ہیں اس حوالے سے مزید تفصیلات جاننے کے لئے اگلی قسط ضرور پڑھیں جو عنقریب شائع کی جائے گی
—————-
(جاری ہے )
————–
جیوے پاکستان ڈاٹ کام اسپیشل رپورٹ
————