سال اور بیت گیا..

گزرے ہوئے سال کو الوداع کرنے اور سال نو کو خوش آمدید کہنے کا اپنا اپنا انداز ہے. دنیا بھر میں منچلے ہفتہ بھر پہلے ہی تیاریاں شروع کردیتے ہیں اور نئے سال کی شروعات پٹاخہ بازی،ہلڑبازی، رنگ برنگی روشنیوں اوررقص وسرور کی محفلیں سجا کر کرتے ہیں. میڈیا پر خاص پروگراموں کا انعقاد کیا جا تا ہے جس میں گزرتے سال پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور اس بات کا احاطہ کیا جا تا ہے کہ سال رواں میں کیا کھویا کیا پَایا. سیاسی، معاشی اور معاشرتی میدانوں میں کیا بہتری آئی اور اس کے ساتھ ساتھ محرومیوں کا بھی رونا رویا جا تا ہے. آنے والے سال کی پیش بندی کے لیے ماہرین علم نجوم کی مدد لی جاتی ہے اور وہ اپنی زائچہ بازی کے خوب جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں. پروگرام کا میزبان نجومی کے منہ سے اپنی پسند کی بات سننا چاہتا ہے. کچھ تو اس بات کی تیاری سے میدان میں اترتے ہیں کہ نجومی صاحب سیاست کے میدان پر بات کرتے ہوئے ان کی پسند اور ناپسند کا خاص خیال رکھیں اور نا صرف یہ کہ ان کے پسندیدہ سیاستدان کو تخت پر بٹھائیں بلکہ مخالف کو بستر مرگ پر لٹا کر چھوڑ یں.
انفرادی سطح پر بھی ہماری سوچ کا پیمانہ دنیاوی نفع و نقصان ہی ہوتا ہے کہ کس عہدے کے حصول کیلئے کیاجال بچھانا ہے کس کس کی چاپلوسی کرنی، اپنے آپ کو شاہ کا و فادار ثابت کرنے کے لیے تمام تر توانیاں صرف کر دینی ہے اور اس کے لیے دین داری کی مصنوعی چادر بھی اوڑھنی پڑے تو خوب سلیقے سے اوڑھنی ہے. اہل سیاست اپنے سیاسی داؤپیچ کی جانچ کرتے ہیں اور نئے سرے سے حصول اقتدار کے لیے صف بندی کرتے ہیں. کاروباری حضرات کی اکثریت ملاوٹ، ٹیکس خوری، منافع خوری اور دام بڑھانے کے نئے نئے طریقوں پر غور کرتی ہے. معاشرے کے تمام طبقات بحیثیتِ مجموعی ایسا ہی تاثر پیش کرتے ہیں.

دوسرا طبقہ صالحین کا ہے جن کے پیش نظر ہمیشہ اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی ہے اور یہی محبت ہر گزرتے لمحے کی جانچ کا پیمانہ ہے ان کی خرد زمان و مکاں کی زناری نہیں بلکہ اسکی خوراک روحانیت کی سر سبز وادیاں ہیں جہاں سے وہ اپنا رزق اٹھاتی ہے جو کہ نفس کی طہارت کا سامانِ کلی وابدی ہے. ایسی زندگی گزارنے کا یہ آہنگ زمانے میں کم یاب تو ہو سکتا ہے لیکن ناپیدنہیں. ان کی حقیقت پسندانہ سوچ اس بات کی غماز ہےکہ ہر گزرتا لمحہ ان کو موت کے قریب تر کرتا جا رہا ہے اور آخرت کی تیاری کے لیے وقت محدود ہوتا چلا جا رہا ہے. ان کی نظر میں دنیاوی سود و زیاں کی کوئی اوقات نہیں یہ وہ باصفا ہستیاں ہیں جن کی موجودگی مردہ معاشروں کے لیے آب حیات ہے . تاریک راہوں پر محوِ سفر غفلت میں زندگی گزارنے والوں کے لیے چراغ رہ گزر کہ جو منزل مقصود کی طرف ان کی رہنمائی کرے.
اقبال نے کیا خوب کہا ہے. نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ انکو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

یہی وہ دانا لوگ ہیں جو راز ہستی کو پا گئے کہ شمار صبح و شام کی بجائے جو وقت بھی ملا خالق کی رضا جوئی کے لیے غنیمت جانا اور یہ فقیر اپنے آقا کے در پر ایسے بیٹھے کہ مالک ان سے راضی ہو گیا اور ان کو وہ مقام بندگی عطا کیا کہ جس پر ملائک بھی نازاں ہیں اور ان کو شرفِ لقا حاصل ہوا
ماہ و سال یوں گزر جاتے ہیں کہ خبر بھی نہیں ہوتی. پیری میں پھر عالم شباب کو یاد کرکے آہیں بھرنے کی بجائے وقت پر تائب ہو جا نا ہی دانشمندی ہے اور یہی اللہ کے نیک بندوں کا وصف ہے ورنہ یہ دنیا کھیل تماشے سے کچھ زیادہ نہیں اور نہ ہی یہ تماشا کبھی کسی سے سارا دیکھا جاسکا.
———————-
تحریر / محمد اکرم سردار