پاکستان محبت کرنے والے لوگوں کی سرزمین

اگر میں پاکستان گیا تو مجھے جان سے مار دیا جائے گا ، میئر راجر نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ آخر کوئی آپ کو کیوں مارے گا اور آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ اس لیے کہ میں ایک امریکی ہونے کے ساتھ غیر مسلم بھی ہوں تو میری جان کو وہاں خطرہ ہے۔ آپ کو کچھ نہیں ہوگا آپ کی زندگی کی ضمانت میں دیتا ہوں۔ میرے جواب پر مسٹر راجر نے قہقہ لگایا اور کہا کہ کیا ان کی جانب آنے والی گولی کو میں روک لوں گا۔ گولی کو تو نہیں روک سکتا البتہ آپ کے سامنے آکر اپنے سینے پر کھانے کی جرات ضرور رکھتا ہوں۔ سب کہنے کی باتیں ہیں خیر یہ باتیں ہوتی رہیں گی آئو چائے پیتے ہیں یہ کہہ کر میئر راجر نے ڈائیننگ ہال کی جانب قدم بڑھا دیئے۔ میں ان کے ساتھ چلتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ آخر ان کو کیسے سمجھایا جائے کہ پاکستانیوں جیسی مہمان نواز قوم شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔ میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ پاکستانی روایات کے مطابق دشمن بھی گھرچل کر آئے تو اس کا احترام لازم ہوتا ہے۔ ہماری دینی تعلیمات اور روایات کے مطابق تو مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ خیر جن سے میرا مکالمہ ہوا وہ امریکی شہر بولنگ بروک کے میئر راجر سی۔ کلار تھے۔ ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے راجر کلار انیس سو اناسی میں ٹرسٹی کے طور پر منتخب ہوئے بعد ازاں انیس سو چھیاسی میں میئر بنے۔ جس وقت ان کے دفتر میں ان سے میری یہ ملاقات ہوئی یہ دو ہزار سولہ کی بات ہے۔ میں امریکی الیکشن کی کوریج کی غرض سے امریکہ میں تھا۔ یہ الیکشنز صدر ڈونلڈ جے۔ ٹرمپ جیت گئے اور نیو یارک سے محترم طلعت رشید کی دعوت پر میں ریاست ایلینوئے کے ویلیج بولنگ بروک آیا تھا۔ میئر راجر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ کئی مرتبہ میئر منتخب ہونے کے ساتھ صدر ٹرمپ کے ایڈوائزر اور رفیق بھی سمجھے جاتے ہیں۔ حال ہی میں تقریبا چونتیس سال میئر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے آٹھ مہینے بیشترریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔ جس وقت ان سے میری یہ ملاقات ہوئی اس وقت مجھے اندازہ تھا کہ وہ ریپبلکن جماعت کے اہم سیاسی رکن ہیں اسی لیے میری خواہش تھی کہ وہ پاکستان کا دورہ ضرور کریں۔ ان سے گفتگو کے بعد مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے میڈیا کے ذریعے پاکستان کے تشخص کو جس طرح پامال کیا گیا ہے اس کا اثر ان پر بھی ہے۔ ملاقات کے بعد میں طلعت رشید کے ساتھ ان کے گھر کی جانب روانہ ہوا۔ طلعت رشید کو اگر فخر پاکستان کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے طلعت رشید بولنگ بروک کے پہلے مسلم فائر بریگیڈ و پولیس کمشنر ہونے کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور ایسٹ ویسٹ میڈیکل یونیورسٹی شکاگو کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز میں بھی شامل ہیں۔طلعت بھائی آخر یہاں ایسا تاثر کیوں پایا جاتا ہے حالانکہ پاکستان میں آئینی طورپراقلیتوں کو تحفظ حاصل ہے۔ طلعت رشید نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اگراقلیتوں کے خلاف ایک بھی واقعہ ہوتا ہے تو میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر اس طرح کی جاتی ہے جیسے پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ ایسی خبروں کو جس طرح بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے اس سے ہر وہ شخص جو پاکستان کبھی نہیں گیا ایسی ہی رائے قائم کر لیتا ہے۔ ان کی بات میں وزن تھا کیونکہ میرا اپنا مشاھدہ ہے کہ امریکیوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو روزگار و معاش کے گورکھ دھندے میں ایسی الجھی ہے کہ دور دراز ملکوں کے سفر کے لیے وقت ہی کہاں ہے۔ سارا دن محنت مزدوری کے بعد شام میں کچھ وقت کسی بار میں یا پھر گھر میں مہ نوشی کے شغل کے بعد سوکر اگلے دن دوبارہ وہی شیڈول ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی زندگی تو اس طرز پر گزرتی ہے کہ اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقوں کے علاوہ کہیں جانے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اکثر امریکی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی دیگر ریاستوں کی سیر پر نکلتے ہیں۔ طلعت رشید نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میری اپنی خواہش ہے کہ میئر پاکستان کا دورہ ضرور کریں تاکہ ان کے سامنے پاکستان کا اصل چہرہ واضح ہو۔اس دوران ہم ان کے گھر پہنچ چکے تھے جہاں کھانے کی میز پر بھی ہم یہ ہی گفتگو کرتے رہے کہ کسی طرح میئر کو پاکستان کے دورے کے لیے راضی کیا جائے۔ اس سال میں وطن واپس آگیا پر طلعت رشید صاحب کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ بھی وطن کی محبت میں پاکستان کے رخ روشن کو سامنے لانے کی کاوشوں میں جتے رہے۔ نیت صاف تو منزل آسان کے مصداق آخرکار ہماری یہ کاوشیں رنگ لے آئیں اور میئر راجر سی۔ کلار گیارہ رکنی وفد کے ساتھ پاکستان کے دورے کے لیے تیار ہوگئے۔ وفد میں سیاسی اراکین سمیت اہم کاروباری افراد بھی شامل تھے۔ کسی امریکی میئر کی سربراہی میں اتنا بڑا وفد موجودہ حالات میں پہلی مرتبہ پاکستان پہنچا۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں اس وفد نے سیالکوٹ اور لاہور کا دورہ کیا اور پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اور ٹریڈ کے ساتھ اہم میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ میں مسٹر راجر نے ڈیری، مینیوفیکچرنگ اور سیاحت کے شعبوں میں تعاون پر یقین دہانی کروائی۔ وفد نے لاہور اور سیالکوٹ کے میئرز کے ساتھ بزنس کمیونٹی سے اہم میٹنگز کیں۔ اس دوران سیالکوٹ اور بولنگ بروک کو سسٹرز سٹی قرار دے کر مسودے پر دستخط کیے گئے۔ کسی تیسری دنیا کے ملک کے لیے امریکی شہر کے ساتھ سسٹرز سٹی بننے کے معاہدے سے معاشی ترقی کے لیے اہم فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جیسے دنیا بھر میں عام لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ فیفا ورلڈ کپ کے لیے فٹبالز سیالکوٹ میں تیار ہوتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ملک بھر میں سن انیس سو سینتالیس میں لگائے گئے بجلی کے ٹراسفارمرز کا کارخانہ بولنگ بروک میں قائم ہے۔ جذبہ خیر سگالی کے تحت سیالکوٹ کے ماضی میں حاجی پورہ اور پھر بعد میں ڈسکہ روڈ کہلانے والی سڑک کا نام بولنگ بروک اسٹریٹ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح بولنگ بروک کی اہم شاھراہ للی کیچ کا نام سیالکوٹ روڈ رکھ دیا گیا۔ یہ شاھراہ شہر کی ابتدا سے آخری کونے تک جاتی ہے جس پر لگا سیالکوٹ روڈ کا سائن بورڈ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ مسجد الجمعہ کے بالکل سامنے یہ شاھراہ واقع ہے۔ سسٹر سٹی بننے سے تجارتی، سیاحتی ، کلچرل ، طلبہ و سیاسی وفود کے تبادلوں سے نہ صرف ملکی تشخص کی بہتری میں مدد ملتی ہے بلکہ کئی معاشی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اتنے اہم امریکی ریپبلکن وفد کی پاکستان آمد کے لیے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ سے خصوصی اجازت لی گئی۔ کافی دنوں کی کاوشوں کے بعد یہ ممکن ہو سکا تھا۔ اس سارے معاملے میں کیونکہ پاکستان سے ہم بھی شامل تھے تو اس وفد کی پاکستان آمد کے موقع پر ہمیں خصوصی شمولیت کا پروانہ موصول ہو چکا تھا۔ ہمیں فخر تھا کہ ملکی مفاد کے اس منصوبے میں ہم نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اس دوران ہمیں معروف امریکی یونیورسٹی ا?ف لوزیانہ ایٹ لیفییٹ کی چار روزہ عالمی میڈیا کانفرنس میں شرکت کا پروانہ موصول ہو چکا تھا۔ جہاں نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کرنا تھی بلکہ اسپیکر ہونے کے علاوہ ہمیں عالمی ایکسیلنس فار جرنلزم ایوارڈ سے بھی نوازہ جانا تھا۔ طلعت بھائی سے مشاورت کے بعد ہم مطمعئن تھے کہ پاکستان میں اس حوالے سے سارے معملات بہ احسن خوبی تشکیل پا چکے ہیں۔ ہم نے دوسرا محاظ سنبھالتے ہوئے امریکہ کا رخ کیا اور وفد نے پاکستان کے لیے رخت سفر باندھا۔ مشکل حالات میں ایسے اہم وفد کا پاکستان آنا گو کہ خوش آئند رہا پر افسوس کہ میڈیا میں جو پزیرائی ملنی چاہیئے تھی وہ نظر نہ آئی۔ کانفرنس سے فراغت کے بعد ہم نیو یارک روانہ ہو گئے۔ اس اثنا میں وفد کامیاب دورے کے بعد بولنگ بروک واپس آچکا تھا۔ میئر راجر اور طلعت بھائی کی دعوت پر میں شکاگو، ایلینوئے کے ولیج بولنگ بروک پہنچا اور میئر راجر اور ان کے وفد سے خصوصی ملاقات ہوئی۔ میں نے مسکراتے ہوئے میئر راجر سے سوال کیا کہ جی جناب کیسا رہا یہ دورہ اور اب کیا رائے ہے پاکستان کے بارے میں آپ کی۔ پاکستان تو بہت خوبصورت ملک ہے اور پاکستانی قوم تو اتنی محبت کرنے والی قوم ہے کہ ایسے لوگ دنیا کی کسی قوم میں نہیں پائے جاتے۔ میں نے تو اپنے پاس سے سیکیورٹی ہٹا دی تھی۔ میئر راجر پاکستان اور پاکستانیوں کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔ وہ عام لوگوں میں گھل مل گئے تھے۔ داتا دربار اور مینارے پاکستان پر کس طرح لوگوں نے ان کے ساتھ سیلفیاں لیں۔ کس طرح ٹھیلے والے اور خوانچہ فروش غریب لوگوں نے خریداری کے باوجود پیسے لینے سے انکار کیا۔ شال اوڑھے مجذوب سا آدمی ان سے گلے ملنے آگیا اور وہ بے خوف لاہور اور سیالکوٹ کی شاھراھوں اور گلیوں میں گھومے۔ ان کی اور دیگر اراکین کی گفتگو سے میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا۔بولنگ بروک میں دس ہزار سے زائد پاکستانی ااباد ہیں۔ یہ میئر راجر ہی ہیں جنہوں نے پاکستانی کمیونٹی کو ہمیشہ اہمیت دی۔ محترم طلعت رشید کے پاس شہر کے اہم عہدے ہیں اسی طرح میر علی سومرو چیئر آف پلاننگ کے عہدے پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ میئرراجر کی سربراہی میں سٹی بلڈنگ میں گزشتہ تیس سال سے چودہ اگست کے روز میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے اورپاکستان کا پرچم بلند کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں پاکستانی امریکنز شرکت کرتے ہیں۔ بولنگ بروک میں میئر راجر سی۔ کلار نے دو مساجد قائم کی ہیں۔ امریکی قوانین کے مطابق کوئی بھی عبادت گاہ چاہے وہ گرجہ گھر ہی کیوں نہ ہو مغرب سے پہلے بند کر دیا جاتا ہے۔ بولنگ بروک میں محض مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ ماہ رمضان میں تراویح و اعتکاف سمیت دیگرعبادات کے لیے مساجد کھلی رہتی ہیں اور امریکی پولیس کے جوان سیکیورٹی کے لیے مستعد نظر آتے ہیں۔ ہماری حکومت کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالیہ دورے حکومت میں اوور سیز پاکستانیوں نے لبیک کہتے ہوئے کروڑوں ڈالر کا فنڈ پاکستان کو مہیا کیا ہے۔ اس ضمن میں میئر راجر کی ان خدمات کے صلہ میں پاکستانی سرکاری اعزاز سے کیوں نہیں نوازہ جاتا؟ایسے لوگ جنہوں نے بغیر کسی لالچ کے پاکستانیوں کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں سرکاری اعزاز سے نواز کر ان کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے تاکہ اوور سیز پاکستانیوں کے لیے مزید آسانیاں پیدا ہوں۔ اسی طرح امریکی حکومت کو چاہیئے کہ میئر راجر سی۔ کلار جیسے لوگ جو پاکستان کے کلچرکوقریب سے سمجھتے ہیں ایسے لوگوں کوسفیرتعینات کرے ایسے ہی لوگ پاک امریکاتعلقات کی بہتری میں کرداراداکرسکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This-artical-was-1st-published-last-year-in-september 10,2020 -in-daily-jurrat-newspaper.