“ شاید کے اتر جائے تیرے دل ميں میری بات “

تحریر-
—–
لہنا فراز
سعودی عرب ( الخُبر )
——–

کافی عرصہ سے عجیب کشمکش اور شدید اضطراب کی کیفیت کے بعد فیصلہ کیا کہ اس موضوع کو قلم بند کروں کہ
“ شاید کے اتر جائے تیرے دل ميں میری بات “
دل میں ہول اور طرح طرح کے عجیب سے درد نے میرے پورے وجود کو اپنی گرفت ميں لیا ہوا ہے مسلمانوں کی صورتحال پر اب اور کتنا دکھ کرئيں ؟ اور کب تک کرئيں ؟ تباہی کے دہانے پر ہیں ہم۔ پاکستانی ڈرامے تو ہماری نئی نسل کو باقائدہ پوری سازش کے تحت خراب کر رہے ہیں۔ اب ایک فلم نظر سے گزری ہے ابھی صرف ٹریلر دیکھ کر فلم دیکھنے کے نام سے ہم میاں بیوی شدید تذبذب کا شکار ہيں ، سمجھ ميں نہیں آتا اتنے منجھے ہوئے اداکار چند پیسوں کی خاطر کچھ بھی کرنے کو کیوں تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی سنسر پالیسی نہیں رہی انگریزوں کی گالیاں پہلے ہندوستان نے دینا شروع کیں پھر ان سے متاثر ہو کر فورا ہم بھی اُن کے رنگ ميں رنگ گے ؟ ساتھ ساتھ اشارے بازیاں بھی اب اگر ہمارے بچے وہ فلمیں دیکھیں گے جو کہ لازمی سنیما گھروں میں چلیں گی تو ان کے اخلاقیات پر کیا اور کتنا اٽر پڑے کا ؟ ہماری روائتیں تمیز تہذیب ٽقافت ، رہن سہن اوڑھنا بچھونا، لحاظ شرم ، حدود بھی ختم ہوتی جا رہی ہيں م والدین اپنی اولادوں سے خوفزدہ ہیں اور ان کے آگے کچھ نہیں بول سکتے اور کوئی اگر کچھ تنقید کرئيں توبچوں کا بس نہیں چلتا کہ کیا کیا جواب نہ دے ديں ۔
بجائے ارتغرل ، یونس امرے اور ہمارے پرانے ڈرامہ محمد بن قاسم ، راجہ داہر، مغلیہ ڈرامہ دوبارہ بنائے جائیں ہمارے مقدس رشتوں کی توہین کی جا رہی ہے،


دیور بھابھی ،نند بھاوج ،سسر بہو سالی بہنوئی جیسے رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ live in کے تصور کو نئی پود کے دماغوں میں اتارا جا رہا ہے۔
میرا سوال ان لوگوں سے ہے کہ اب وہ کہاں ہیں جنہوں نے پہلی دفعہ زوہیب حسن اور نازیہ حسن کے ساتھ گانا گانے پر اعتراض کیا تھا۔ حدیقہ کیانی کا live concertنہیں ہونے دیا تھا؟؟ خدارا اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں اور سنبھال لیں ہمارے دلوں پر مہر لگ رہی ہے اللہ کا اتنا سخت عذاب کرونا کی شکل میں بھی ہمیں راہ راست پر نہیں لا رہا، تو کیا اب عیسی ابن مریم کی آمد ہی معاشرہ سدھارے گی ؟؟؟