جنرل نیازی کا آرام دہ بستر

کیا 16دسمبر 1971کو جنرل امیر عبدﷲ نیازی کا ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ درست تھا ؟کیا جنرل نیازی کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تھا؟ کیا جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا براہِ راست حکم دیا گیا تھا اور اگر ایسا کوئی حکم دیا گیا تھا تو اُس کی قانونی حیثیت کیا تھی ؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر سال 16دسمبر کو زندہ ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل و دماغ پر چابک بن کر برستے ہیں۔


حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ نے اِن سوالات کا جواب دیا ہے۔ 545 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہئے جو مطالعہ پاکستان کے کنوئیں سے باہر نکل کر پاکستان کی درست تاریخ جاننا چاہتا ہے! 26دسمبر 1971 کو اُس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں بنائے گئے اِس کمیشن نے قریباً چھ ماہ میں یہ رپورٹ تیار کی جو بذات خود ایسا کارنامہ ہے جس پر معزز جج صاحبان علیحدہ سے ایک تمغے کے حقدار ہیں۔

اِس تجویز کا فائدہ تو کوئی نہیں مگر پھر بھی دینے میں کوئی حرج نہیں کہ اِس رپورٹ کو کم از کم بی اے کے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے کیونکہ جس تیزی سے ہم جہالت کی طرف گامزن ہیں اس میں کوئی بعید نہیں کہ آئندہ دس پندرہ برسوں میں وہ وقت بھی آ جائے جب بی اے پاس نوجوان کو یہ علم ہی نہ ہو کہ کبھی بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ ہوا کرتا تھا!

جنرل نیازی نے کمیشن کے سامنے یہ بیان دیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے کے حکم پر عمل کرنے کا قانونی طور پر پابند تھا۔

جنرل نیازی کے اِس بیان کی کمیشن نے پڑتال کی اور مینوئیل آف پاکستان ملٹری لا کا حوالہ دیا جو کہتا ہے کہ قانونی حکم سے مراد ایسا حکم ہے جو بالکل واضح انداز میں کسی فرد کو دیا جائے اور جس شخص کو وہ حکم دیا جائے وہ اسے بجا لانے کا اہل ہو۔

کمانڈر اِن چیف جنرل یحییٰ خان محاذِ جنگ سے ہزاروں میل دور بیٹھا تھا، اسے جنگ کی جو بھی تفصیل ملی وہ جنرل نیازی کے ذریعے ملی، اکیلے جنرل نیازی کو ہی مکمل فوجی حالات کا علم تھا جو اُس وقت مشرقی پاکستان میں موجود تھا۔ کمیشن نے کہا کہ اگر سپریم کمانڈر جنگ کے اصل معرکے سے دور بیٹھ کر ہتھیار ڈالنے کا حکم دے بھی ڈالے اور موقع پر موجود کمانڈر کی رائے میں وہ حکم حالات کے مطابق درست نہ ہو تو ایسا حکم قانونی حکم نہیں ہوگا اور وہ اُس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔

کمیشن نے صرف قانونی بحث ہی نہیں کی بلکہ دیگر اعلی ٰ فوجی افسران کے بیانات کی روشنی میں بھی یہی طے کیا کہ ’قانونی حکم‘ ماننے کی آڑ میں ہتھیار ڈالنے کا جنر ل نیازی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

میجر جنرل رحیم خان نے نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے اقدام کی حمایت کی جبکہ میجر جنرل جمشید اور میجر جنرل قاضی عبدا لمجید نے اِس بات کی تائید نہیں کی۔

میجر نذر حسین شاہ کا بیان سب سے دلچسپ ہے، انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی رو سے ہتھیار ڈالنے کا حکم دینا کہیں سے بھی قانونی حکم نہیں کیونکہ کوئی بھی قانون کسی فوجی کو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میجر شاہ نے کہا کہ جس لمحے کوئی کمانڈر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کرتا ہے اسی لمحے وہ اپنی فو ج کی کمانڈ سے دستبردار ہو کر دشمن سے ملی بھگت کرنے کا مرتکب ہو جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جنرل یحییٰ نے ہتھیار ڈالنے کو کوئی حکم دیا تھا تو اسی لمحے وہ کمانڈر نہیں رہا تھا جس کا حکم قانونی سمجھ کر مانا جاتا۔

کمیشن لکھتا ہے کہ اگر جنرل نیازی ہتھیار نہ ڈالتا اور بالآخر ایک با عزت تصفیہ ہو جاتا تو آج کوئی بھی جنرل نیازی کو اِس بات پر موردِ الزام نہ ٹھہراتا کہ اُس نے ہتھیار ڈالنے کا ’قانونی حکم ‘کیوں نہیں مانا؟ کمیشن نے ایک اور اہم بات کی نشاندہی بھی کی کہ اُس وقت مشرقی پاکستان میں جو صورتحال تھی اُس کے تناظر میں ہتھیار پھینکنے کی کوئی حقیقی وجہ کم ازکم اُس لمحے تک نہیں تھی جس وقت یہ فیصلہ ہوا۔

کمیشن کے بقول یہ بات جنرل نیازی نے بھی تسلیم کی۔گو کہ جو پیغامات اُس وقت موصول ہو رہے تھے اُن سے یہی لگتا تھا جیسے بھارتی فوج ڈھاکہ کے مضافات میں پہنچ چکی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا، بھارتی فوج کو ڈھاکہ پر مکمل قبضہ کرنے کے لیے مزید دو ہفتے درکار تھے۔

کمیشن نے لکھا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل نیازی نے ڈھاکہ پر بمباری کی بھارتی دھمکی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا حالانکہ بھارت ایسی کوشش کبھی نہ کرتاکیونکہ بھارت تو بنگالیوں کے لیے ’نجات دہندہ ‘ بن کر آیا تھا، وہ ڈھاکہ پر بمباری کا رسک کیسے لے سکتا تھاجس کے نتیجے میں ہزاروں شہریوں کی جانیں ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔

اِن تمام حالات کے تناظر میں کمیشن نے رائے قائم کی کہ جنر ل نیازی کا یہ کہنا درست نہیں کہ اُس کے پاس سوائے ہتھیار ڈالنے کے کوئی راستہ نہیں تھا۔

آج کوئی شخص بھی جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے جرم کا دفاع نہیں کرتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وطن کی مٹی کی حفاظت کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کا اختیار کسی کے بھی پاس نہیں ہوتا، سپاہی کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں ، وطن کے دفاع میں شہید ہو جائے یا آخری لمحے تک لڑتے ہوئے گرفتار ہو جائے۔ بہادری کی کئی داستانیں ہمارے فوجیوں نے سن 71ء میں رقم کیں مگر یہ داستانیںجنرل نیازی کی بزدلی تلے دفن ہو گئیں۔

ڈھاکہ کا دفاع کرنا شاید ممکن نہیں تھا مگر ڈھاکہ کے دفاع میں جان قربان کرنا ممکن تھا۔ Braveheartکا ایک مکالمہ یاد آ گیا’’ہاں ، لڑنے کی صورت میں شاید موت تمہارا مقدر بن جائے اور بھاگنے کی صورت میں شاید تم کچھ دن اور زندہ رہ سکو۔

مگر آج سے کئی سال بعد اپنے آرام دہ بستر پر مرنے کی بجائے اور اِن تمام دنوں کے عوض کیاتم یہ سودا کرنا پسند نہیں کرو گے کہ تمہیں ایک موقع ملے ، صرف ایک موقع،اور تم ایک جوانِ رعنا کی طر ح واپس آؤ اور اپنے دشمنوں کو بتاؤ کہ تم ہماری جان تو لے سکتے ہو مگر ہماری آزادی کبھی نہیں چھین سکتے؟‘‘۔جنر ل نیاز ی نے لڑنے کی بجائے اپنے آرام دہ بستر میں مرنے کا فیصلہ کیا۔
———-jang—–یاسر پیر زادہ
https://jang.com.pk/news/858820