ہم بحران کی زد میں ہیں۔

سہیل دانش
————–
آخر سوچیں تو سہی کہ کوئی ایسا ادارہ نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ کوئی ایسا شخص نہیں جس کی بات اندھیرے میں کرن کی طرح چمکے۔کوئی ایسا لیڈر نہیں جس سے ہاتھ ملا کر اطمینان اور سرور کی لہریں وجود میں دوڑتی محسوس ہو۔ یہ کیا ہوا یہ زمین اتنی بانجھ کیوں ہو گئی؟ اچھے، اعلیٰ ظرف اور ذہین لوگ اچانک ختم کیوں ہو گئے؟ ذرا اندازہ کیجئے کہ ہم کتنے بد قسمت قوم ہیں کہ وقت کے اس تنہا، اداس اور ویران سفر میں ہمارے لئے کوئی ایسا لیڈر نہیں جو اس ہجوم کو قوم بنا سکے۔ جو لوگوں کو تھپکی دے سکے اور ان کی داد رسی کر سکے۔ اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکے، جو من حیث القوم ہماری رہبری کر سکے۔
بہت عرصہ گزر گیا ہم اتنے ہکا بکا چہروں پر درجنوں نہیں سینکڑوں سوالات سجائے ایک دوسرے کو یاس و حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک یا دو نسل پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ آپ کو زندگی کے ہرشعبے کے ٹاپ پر ایسے لوگ ضرور نظر آتے تھے جن کے ظرف، ذہانت، فطانت، محنت اور ایمانداری میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہیں بھی چھوڑیں آپ اپنے ارد گرد دیکھیں،ان بوڑھوں کو دیکھیں جنہیں آپ روز دیکھتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس نسل سے ذیادہ پڑھے لکھے ایماندار اور اعلیٰ ظرف نہیں۔ کیا ان کی زندگی میں اطمینان سکون اور دھیما پن نہیں۔ آپ انہیں بھی چھوڑیں، آپ دیکھیں کہ آپ نے جن اساتذہ سے پرائمری کی تعلیم پائی تھی وہ آج کے اساتذہ سے بہتر،ذہین،محنتی اور ایماندار نہیں تھے۔ اس وقت ہائی اسکول اور کالج کے استادآج کے اساتذہ سے کہیں ذیادہ عظیم اور اعلیٰ ظرف نہیں تھے؟ آپ نے چھوٹی عمر میں جتنی کتابیں پڑھ لیں تھی اور جتنا علم آپ کی گرفت میں تھا وہ آج آپ کے بیٹے کے پاس ہے؟ ہر گز نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک اخلاقی بحران کی زد میں آ گئے جب ہم دوسرے ممالک میں اخلاق، قانون اور حکمرانی کے طور اطوار کی مثالیں سنتے ہیں تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ
جاتی ہیں۔ ایسے لمحات میں مجھے فیلڈ مارشل منٹگمری یاد آ گیا جو جنگ عظیم دوئم کا سپریم کمانڈر تھا، جس کی کمان میں اتحادیوں کی فوج نے نازیوں کی پھیلتی ہوئی آگ بجھا دی۔ جس کے احکامات نے جاپان جیسی طاقت کو گورے سپاہیوں کے قدموں میں سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا۔ جس کی جنگی حکمت عملی آج دنیا بھر کے عسکری سلیبس کا حصہ ہے۔ جب جنرل ریٹائرڈ ہوا تو اس کے پاس رہنے کے لئے فلیٹ تک نہیں تھا۔ وہ کبھی کرائے پر ایک گلی میں رہتا اور کبھی مالک مکان سے لڑ جھگڑ کر کسی دوسری جگہ ٹھکانہ بنا تا۔ جب یہ نقل مکانی اذیت دینے لگی تو وہ وزیر اعظم کے پاس گیا۔ ملک کے آئینی سربراہ نے 10ڈاؤلنگ اسٹریٹ کے گیٹ پر دنیا کے عظیم سپہ سالار کا استقبال کیا اور اسے نہایت عزت و احترام سے اپنے دفتر لایا، کرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے احتراماً کھڑا رہا۔ چند فقروں کے تبادلے کے بعدوزیر اعظم نے تکلیف کرنے کی وجہ پوچھی تو فیلڈ مارشل نے بریف کیس کھول کر ایک درخواست وزیر اعظم کے سامنے رکھ دی۔ وزیر اعظم نے ہٹل لیمپ جلایا، چشمہ ناک پر سیدھا کیا اور درخواست پڑھنی شروع کر دی۔ درخواست میں فیلڈ مارشل نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے کارنامے گنوانے کے بعد حکومت سے درخواست کی کہ اس کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں ہے اور درخواست میں یہ بھی عرض کی کہ بہت بوڑھا ہو چکا ہوں بار بار گھربد ل نہیں سکتا اور مہنگائی بھی بہت ذیادہ ہے اس لئے کرایہ نہیں دے سکتا لہذا مہربانی فرما کر ایک فلیٹ یا زرعی زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کر دیا جائے۔ وزیر اعظم نے چشمہ اتارا اور بڑے احترام سے بولا! سر اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں آپ کی خدمات پوری دنیا کے لئے قابل احترام ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت آپ کے
پائے کا کوئی جرنیل نہیں لیکن سر! آپ زندگی بھر اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے رہے ہیں۔ گریٹ بریٹن نے کبھی آپ کی تنخواہ لیٹ نہیں کی اور سر اگر اس بات کو بھی فراموش کر دیا جائے تو پرائم منسٹر آف گریٹ بریٹن کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں، جس کے ذریعے وہ سپریم کمانڈر کو ایک فلیٹ الاٹ کر سکے۔ آئی ایم سوری سر۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نے ایڑھیاں بجائیں اور بوڑھے فیلڈ مارشل کو ایک سمارٹ سا سلیوٹ کر دیا۔
لیکن ہمیں یہ پڑھ کر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ قائد اعظم کی شخصیت کے ایک ایک پہلو پر نظر ڈالیئے۔ آپ اپنے لیڈر کی ذہانت، ایمانداری اور دور اندیشی کے ایک ایک پہلو پر فخر کر سکتے ہیں۔ شہید ملت کی سادگی اورجواب دہی کے احساس کے حوالے سے آپ سینکڑوں مثالیں دے سکتے ہیں۔

imran khan dissolve assemblies

ہماری تاریخ میں ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جن کی راست بازی، دیانتداری اور فرض شناشی کے ساتھ ساتھ ایمانداری بھی مثالی تھی۔ خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہر وردی، سردار عبد الرب نشتر، محمد علی بوگرہ حتیٰ کہ ایوب خان، ذولفقاری علی بھٹو اور ضیاء الحق پر بھی مالی بد عنوانیوں کا کوئی ایسا الزام نہیں جو شرمندگی کا باعث ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں دو طرح کے طرز حکمرانی کرنے والے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے ملک بنایا اور اپنی عزم،محنت اور اصول پسندی کی مثالیں قائم کی اور پھر دوسرے وہ ہیں جنہوں نے قومی دولت کو خرچ کرنے میں شاہانہ انداز اختیارکیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارا معاشرہ بتدریج ایک ایسے اخلاقی بحران کا شکار ہوتا رہا جس میں بد عنوانی، رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور میرٹ کو نظر انداز کرنے کا رواج عام ہو گیا۔
آج کی صورت حال ملاحظہ کیجئے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر بد عنوانی اور لوٹ مار کے الزامات لگا کر چور اورڈاکو ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک دوسرے سے اس طرح گھتم گھتا ہیں کہ اس پریشان کن صورت حال کا نتیجہ کیا نکلے گا اسکی کوئی فکر نہیں۔ نواز شریف جار حانہ سیاسی حکمت عملی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں اور حکومت بھی مفاہمت سے بتدریج دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف انتشار اور محاذ آرائی کی جڑیں ہیں۔ جوں جوں سیاست اور واقعات کے انداز اور تیور جارحانہ ہوتے جارہے ہیں۔ صورت حال میں غیر یقینی بڑھتی جا رہی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ شہباز شریف کی تمام تر مفاہمانہ کوششوں کے با وجود ریلیف نہ ملنے اور ہاتھ مڑوڑنے کی پالیسی نے نواز شریف کو فرنٹ فٹ پر آنے پر مجبور کر دیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری کا لازمی نتیجہ جارحانہ بیانئے میں تیزی اور تندہی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ حزب مخالف کے پاس بظاہر حکومت پر دباؤ بڑھانے کا راستہ دکھائی دے رہا ہے۔ ایک اندازہ یہ تھا کہ شاید حکومت آئیندہ چھ ماہ تک اپوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے احتساب کرتے ہوئے اپنی گورننس کو بہتر کرنے پر زور دے گی تاکہ ایک طرف اس پر عوامی مسائل پر انگلی اٹھانے والے خاموش ہو سکیں اور دوسری حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ اورعمران خان کی مقبولیت میں کمی کو بریک لگ سکے لیکن نہ حکومت اپوزیشن کو اہمیت دینے کو تیار ہے اور نہ عمران خان ان کے سامنے بیٹھنے کے روادار ہیں مگر تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اپوزیشن کو بلڈوز کرنے کی حکومتی حکمت عملی سے اس کی مشکلات میں ہمیشہ اضافہ ہوا۔ ایوب خان سے بھٹو تک کے ان حکومتی اقدامات اور نتائج پر ایک نظر ڈالیں جو انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ روا رکھا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اپوزیشن کے پاس ٹکرانے اور حکومت کے خلاف شازش کرنے کے تمام راستے مسدود ہوتے جا ئینگے۔ اگر یہ ٹیمپو بن گیا تو آخر کارحکومت لڑکھڑا جائی گی۔ عمران کے تھوڑے سے لوگوں کے دھرنے نے نواز شریف کے دو تہائی اکثریت والی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن عمران حکومت کے سامنے توایک مضبوط اپوزیشن کھڑی ہے اگر اس مضبوط اپوزیشن نے پیش قدمی کی تو پھر حکومت کا مستحکم رہنا مشکل ہو جائیگا۔ مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے مل جل کر کام کرنے کی کوشش کرنا حکومت کے لئے بہترین آپشن ہے بصورت دیگر ٹکراؤ کی صورت میں کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ سارے خواب بکھر جائیں گے کیونکہ یہ بات یاد رکھیں کہ ہم گریٹ بریٹن میں نہیں رہتے۔