تباہ کن لڑائی

پاکستان سٹاک ایکسچینج کی طرح سیاست کے بازار میں بھی مندی کا رجحان ختم ہو چکا اور انتہائی تیزی آ گئی ہے۔ اپوزیشن متحرک ہو چکی ہے‘ شریف فیملی اور مولانا بہت جلدی میں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی بدستور ایک مناسب فاصلے پر کھڑی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے۔ نواز شریف فیملی کے بعد شہباز شریف اور ان کا خاندان بھی کڑے احتساب کی زد میں آ چکا ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے یہ حقیقت ہے کہ متعلقہ اداروں کے پاس شہباز فیملی کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں‘ یہ الگ بحث کہ ان ثبوتوں کی بنیاد پر قانون کی حکمرانی ہو گی یا پھر بارگین کیا جائے گا‘ کیونکہ ماضی میں ہمیشہ ترجیح بارگیننگ کی رہی ہے۔ مثال سامنے ہے کہ شہباز شریف کو گرفتارکرنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن کبھی مخبری اور سیاسی مزاحمت اور کبھی مقامی انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے نیب انہیں گرفتار نہ کر سکا۔ شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا‘ عبوری ضمانت منظور ہوئی اور اس دوران ایسے بینک اکاؤنٹس سامنے آئے جو شہباز شریف فیملی کے ملازمین کے نام پر کھولے گئے تھے اور ان کھاتوں میں نو ارب روپے سے زائد رقم موجود پائی گئی۔ ملازمین کی تنخواہیں چند ہزار اور بینک اکاؤنٹس میں رقم نکلی اربوں روپے۔ عدلیہ نے طویل سماعت اور صفائی کا پورا موقع دیا‘ لیکن جب عدالت نے حکم لکھوانا شروع کیا تو احساس ہونے پر درخواست واپس لے لی گئی اور شہباز شریف کی عبوری ضمانت خارج کر دی گئی‘ کیونکہ نیب نے ناقابل تردید ثبوت پیش کر دیے تھے۔ عدالتی حکم کے بعد ملزم کو گرفتار کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ دوسری جانب آصف زرداری اور دیگر کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد جو عمومی تاثر ابھرا وہ ان گرفتاریوں اور مقدمات کے بعد زائل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سیاسی تناؤ بڑھ رہا ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ معاملات حتمی راؤنڈ میں داخل ہو چکے ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اور اپوزیشن خاص طور پر نون لیگ کے لب و لہجے میں آنے والی تلخی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پس پردہ شریف فیملی کچھ معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہی تھی‘ مگر جو مانگا جا رہا تھا‘ وہ نہ مل سکا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ نواز شریف ہر صورت میں مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنانا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی میں ہی انہیں وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے وہ اب میدان میں اترے ہیں‘ پہلے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مذاکرات کرتے رہے اور خود مریم نواز بھی بعض مواقع پر براہ راست مذاکرات میں شریک رہیں‘ لیکن جس گفتگو کو شریف فیملی مذاکرات سمجھتی رہی وہ درحقیقت محض ایک سٹریٹیجک انگیج منٹ تھی‘ جس کا مقصد درجہ حرارت اور اعصاب کے پیمانے کو جانچنا تھا اور جو اندازے لگائے گئے تھے خبث باطن اس سے کہیں زیادہ نکلا‘ اسی لیے ایف اے ٹی ایف جیسی اہم ترین قانون سازی کے معاملے میں بھی شریف فیملی کو کوئی رعایت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ شریف فیملی کے نیب آرڈیننس میں ترمیم کے مطالبات محض تین تھے‘ جن کے پورے ہونے کے نتیجے میں مریم نواز کی سزا اور سیاسی نااہلی عارضی طور پر ختم ہو جاتی اور شہباز فیملی کو گرفتاری سے محفوظ رکھنا بھی ایک مطالبہ تھا۔ پیپلز پارٹی الگ سے معاملات طے کرنے میں مصروف تھی اور اب بھی ہے‘ لیکن زرداری چونکہ زیرک سوچ کے حامل فہیم شخصیت ہیں اس لیے ان کا پیکیج ایسا ہے جو جزوی طور پر قابل عمل بھی ہے اور ان کے منفی عزائم میں شدت کی نوعیت وہ نہیں جو شریف فیملی کی ہے۔ واقفان حال یہ مخبری کر چکے ہیں کہ ارشد ملک کے ساتھ کی گئی ریکارڈنگ کی کاپی کر کے برطانیہ میں مختلف غیر ملکی سفارت کاروں کو بھجوائی جا چکی ہیں اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو دی جانے والی سزائیں شفاف نہیں تھیں۔ شریف فیملی کے پاس ارشد ملک سے متعلق جو مواد تھا وہ غیر ملکیوں کے حوالے کیا جا چکا ہے‘ یہ کب منظر عام پر آتا ہے اس کا انتظار ہے۔ شریف فیملی کے منصوبہ سازوں کے مطابق اس بات کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا کہ اس سارے مواد کو کب عالمی میڈیا کے حوالے کیا جائے۔ اس کا انحصارصورتحال پر ہو گا تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
نواز شریف اور مریم نواز نے جو کچھ مراعات اور رعایتیں مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے کی کوششیں کیں‘ ناکام رہیں‘ اب وہ دوسرے طریقے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ جبکہ دوسری جانب ارشد ملک نے حکومتی اداروں کو بہت کچھ بیان کر دیا ہے اور دستاویزات اور آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں یہ سارا ریکارڈ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شریف فیملی بھرپور وار کر چکی ہے‘ نواز شریف چونکہ اسی سسٹم کا اہم ترین پرزہ رہ چکے ہیں جس کو وہ للکار رہے ہیں‘ انہوں نے اب بند کمروں کے تمام معاملات پر زبان بندی ختم کر دی ہے۔ کروز میزائل سے ابتدا کی ہے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھیں گے۔ مزاحمت کا فیصلہ کن راؤنڈ شروع ہو چکا ہے ایک طرف وہ کوشش کر رہے ہیں کہ پارٹی پر اپنا کنٹرول برقرار رکھ سکیں اور جماعت کے باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز بھی کر چکے ہیں۔ اپنی جماعت کے لوگوں پر سیاسی اور عسکری ملاقاتوں پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔ نواز شریف اس کوشش میں ہیں کہ اداروں میں گھات لگائی جائے۔ وہ تمام متعلقہ اداروں میں اپنا پیغام بھیج رہے ہیں‘ کیا نتیجہ برآمد ہو گا؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ نواز شریف سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ہر صورت میں نیا الیکشن چاہتے ہیں‘ کیونکہ سینیٹ کے انتخابات کے بعد ان کی جماعت مزید سکڑ جائے گی اور پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مزید تگڑی ہو جائیں گی اور اگر موجودہ سیاسی سیٹ اپ جاری رہتا ہے تو نون لیگ کا سائز کم اور پیپلز پارٹی کی جگہ میں اضافہ ہو گا۔ شریف فیملی کی کامیابی کا دارومدار زرداری کی امداد پر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ کونڈولیزا رائس کی طرح اب بھی بیرونی عناصر اس کوشش میں ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین مستقبل کے لیے پاور شیئرنگ فارمولا طے کروا دیں اور آصف علی زرداری اور شریف فیملی کے درمیان بداعتمادی کو ختم کروا کر گارنٹر بن جائیں۔ نواز شریف بار بار اپنی تقریروں میں ان بیرونی عناصر اور ممالک کا ذکر کر کے ان مخبریوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں کہ ان کے سکرپٹ میں پاکستان کی بدلتی ہوئی لبرل خارجہ پالیسی اور خطے میں پاکستان‘ ترکی‘ چین‘ روس اور ایران پر مشتمل بنتے ہوئے نئے اتحاد پر مزاحمت بھی ایجنڈے کا اہم جزو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور اس کے ادارے اپنی صفوں میں کس حد تک اتفاق اور اتحاد برقرار رکھتے ہیں۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ سسٹم میں موجود کتنے سپاٹ فکسر ان سے رابطے میں ہیں۔ حملہ دو طرفہ ہو گا نواز شریف سیاسی سرحدوں کو عبور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور مولانا فضل الرحمان مذہبی کارڈ دکھا کر بازی پلٹنے کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہیں۔ سکرپٹ کچھ بڑا ہے اور نتائج کے اعتبار سے خطرناک بھی ہو سکتا ہے‘ اللہ خیر کرے۔ نواز شریف جنہوں نے سیاسی کیریئر مقامی مقتدرہ سے شروع کیا تھا‘ لگتا ہے ان کا آئندہ سفر بین الاقوامی مقتدرہ کے رحم و کرم پر ہو گا۔ چو مکھی لڑائی ہے‘ اعصاب شکن جنگ ہے‘ جیتے گا وہ جو اپنے آپ پر‘ اپنے فیصلوں کی ٹائمنگ پر کنٹرول رکھے گا

by sabir shakir