دنیا بھر میں بچوں کے نگہداشت کے مراکز، ڈے کیئرز اور اسکولوں میں ہونے والے زیادتی کے واقعات، والدین اور پیشہ ور افراد کے لیے نہایت پریشانی اور تشویش کا باعث ہیں۔ روایتی نگرانی کے نظام اکثر ناکافی ثابت ہوتے ہیں اور بچوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے میں قاصر رہتے ہیں۔ بیشتر کیسز رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے یا سالوں بعد سامنے آتے ہیں، لیکن حال ہی میں اے آئی کی مدد سے تیار کیا گیا ایک جدید سسٹم تیار کیا گیا ہے جو ایک انقلابی ایجاد ہے۔
ہانگ کانگ کی 17 سالہ طالبہ چاؤ سزی لوک اور ان کی ٹیم نے بچوں کی حفاظت کے لیے اے آئی کی مدد سے ایک جدید سسٹم متعارف کرایا ہے جس کا نام “کڈ ایڈ” (KidAID) ہے۔ یہ سسٹم بچوں کے ڈے کیئر اور اسکولوں میں ہونے والے تشدد کی شناخت کر سکتا ہے۔
کڈ ایڈ والدین اور نگہداشت کے پیشہ ور افراد کے لیے امید کی کرن بن گیا ہے۔ یہ سسٹم سی سی ٹی وی فوٹیج اور جسمانی حرکات کا تجزیہ کر کے مشکوک رویوں کو بروقت شناخت کرتا ہے، جس سے بچوں کو مؤثر حفاظتی اقدامات کے ذریعے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح، یہ ٹیکنالوجی بچوں کے تحفظ میں ایک قابل اعتماد اور جدید حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔
دنیا بھر میں لوگ اس سسٹم میں دلچسپی لے رہے ہیں تاکہ بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔
کڈ ایڈ سسٹم کو چاؤ اور اس کی اسکول ٹیم نے سینٹ میری کینوسین کالج کے طلبہ کے ساتھ مل کر تیار کیا ہے۔ یہ سسٹم نہ صرف ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کرتا ہے بلکہ اس میں پوشیدہ اور چھپے ہوئے اشاروں کو بھی سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جیسے کہ بچوں کا الگ تھلگ ہونا، خوفزدہ لہجہ، غیر آرام دہ جسمانی حرکات یا اچانک جھٹکے لینا یا بچے کو پکڑ کر جھنجھوڑنا جیسے معاملات کی نشاندہی۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ حساس ہے اور خطرناک رویے کی صورت میں فوری طور پر نگرانی کرنے والے عملے کو اطلاع بھیج دیتا ہے۔
چاؤ سزی لوک نے اے آئی بیسڈ کڈ ایڈ سسٹم بنانے کا مقصد بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اور ایسے حالات کا پتہ لگانا بتایا جو عام نگرانی یا انسانی نظر سے اکثر چھپ جاتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی بنانا چاہتی تھیں جو عام انسانی نظر سے چھپے خطرات کو سامنے لا سکے تاکہ بچوں کی زندگی اور حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کے مطابق کڈ ایڈ سسٹم ایک ایسی کوشش ہے جو بچوں کو محفوظ بنانے کے مشن سے جڑی ہے۔
کڈ ایڈ کی کام کرنے کی بنیاد ہائی ریزولوشن جدید کیمرے، حساس مائیکروفونز اور پیچیدہ رویے کے ماڈلز پر ہے۔ یہ سسٹم اس قدر حساس نوعیت کے رویوں اور علامات کو بھی پہچانتا ہے، جیسے بچوں سے غیر معمولی یا طویل رابطہ، خوف کی علامات، کسی بچے کو بار بار الگ کرنا، اور تشدد یا اضطراب بھرا لہجہ۔ کسی بھی خطرناک رویے کی شناخت کے بعد سسٹم خودکار طور پر نگرانی کرنے والے عملے اور تصدیق شدہ تیسرے فریق کو اطلاع بھیج دیتا ہے، اور محفوظ طریقے سے ریکارڈ شدہ مواد کی جانچ شروع کی جاتی ہے۔
چاؤ کی ایجاد کے عالمی اثرات بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی ممالک میں اس کا پائلٹ پروجیکٹ جاری ہے اور بچوں کی حفاظت کے ادارے اور حکومتیں اسے تمام رجسٹرڈ نگہداشت مراکز میں لازمی بنانے پر غور کر رہی ہیں۔ ابتدائی نتائج میں تشدد کی جلد اور درست شناخت، عملے کے جذباتی بوجھ میں کمی، اور ایسے بچوں کی بہتر مدد شامل ہے جو اپنے مسائل خود بیان نہیں کر سکتے۔























