میں منٹو نہیں ہوں – ڈرامہ مین منٹو نہیں ہوں دلچسپ موڑ

“مین منٹو نہیں ہوں” ایک ایسا ڈراما ہے جو سماج کے اُن پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے جو عام طور پر پردے میں رہتے ہیں۔ یہ کہانی ہے ایک لکھاری، عابدہ کی، جو اپنے قلم کے ذریعے سچ بولنے کی جستجو میں نکلتی ہے اور اس راستے میں اسے جو حادثات، مصائب اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہی اس ڈرامے کی بنیاد ہے۔
کردار:
عابدہ (مرکزی کردار): ایک نوجوان، حساس اور باصلاحیت لکھاری۔ اس کے اندر گہری مشاہدہ کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ معاشرے کے منافقانہ رویوں سے بیزار ہے۔ وہ سچ لکھنے کی خواہش رکھتی ہے، چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔
سلمان: عابدہ کا شوہر۔ ابتدا میں پیار کرنے والا اور supportive لیکن بعد میں سماج اور خاندان کے دباؤ میں آ کر عابدہ کے خلاف ہو جاتا ہے۔ وہ روایتی سوچ کا مالک ہے جو معاشرے میں “عزت” اور “وقار” کو سب سے بالا تر سمجھتا ہے۔
رفیعہ: عابدہ کی سہیلی اور ہمدرد۔ وہ عابدہ کی لکھائی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لیکن اسے ہمیشہ عابدہ کی بے باکی پر فکر لاحق رہتی ہے۔
ثناء (اینٹی گن): عابدہ کی چچا زاد بہن یا پڑوسی۔ حسد اور تنقید سے بھری ہوئی۔ وہ ہمیشہ عابدہ کی کامیابیوں سے جلی کٹی رہتی ہے اور ہر موقع پر اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔
عابدہ کے سسرال والے: روایت پسند، تنقید کرنے والے اور عورت کی آزادی کے سخت خلاف۔
ادارتی سربراہ (ایڈیٹر): ایک پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ادارے کا سربراہ جو پہلے تو عابدہ کے کام کو سراہتا ہے لیکن جب معاملہ گرماتا ہے تو وہ سماجی اور سیاسی دباؤ کے آگے جھک جاتا ہے۔
کہانی کا آغاز:

=================

==============

ڈراما کا آغاز عابدہ کی شادی شدہ زندگی سے ہوتا ہے۔ وہ ایک عام سی گھریلو خاتون ہے لیکن اس کے اندر چھپا ہوا لکھاری اسے بے چین رکھتا ہے۔ اس کا شوہر سلمان اسے پیار تو کرتا ہے لیکن اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ عورت کا کام صرف گھر سنبھالنا ہے۔ عابدہ اپنے اردگرد کے معاشرے میں پائی جانے والی منافقت، جھوٹ، استحصال اور عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو دیکھ کر کڑھتی رہتی ہے۔
a turning point وہ اپنی ایک کنیزہ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو دیکھتی ہے جہاں معاشرے کے “معزز” لوگ ملزم کی پشت پناہی کر رہے ہوتے ہیں اور مظلوم لڑکی کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس واقعے نے عابدہ کے اندر کے سونے ہوئے جذبات کو بیدار کر دیا۔ اس نے اپنا قلم اٹھایا اور اس واقعے پر ایک مختصر مگر پراثر کہانی لکھ ڈالی، جس میں اس نے معاشرے کے بے حسی بھرے رویے اور مظلوم کے بجائے مجرم کو بچانے کی کوشش کو بے نقاب کیا۔
کہانی کا پھیلاؤ:
عابدہ نے ہمت کر کے اپنی یہ کہانی ایک مشہور میگزین کے ایڈیٹر کو بھیج دی۔ ایڈیٹر کو عابدہ کی تحریر اور اس کا اندازِ بیان اس قدر پسند آیا کہ اس نے فوری طور پر اسے شائع کر دیا۔ یہ کہانی قارئین میں ہیٹ ہو گئی۔ لوگ عابدہ کی بے باکی اور سچ لکھنے کے ہنر کی تعریف کرنے لگے۔ عابدہ کے لیے یہ ایک نئی شروعات تھی۔ اسے میگزین میں باقاعدہ کالم لکھنے کی پیشکش ہو گئی۔
اب عابدہ کی زندگی میں دو رخ ہو گئے۔ ایک طرف اس کا گھریلو کردار تھا جہاں اسے ایک فرمانبردار بیوی اور بہو بن کر رہنا تھا، اور دوسری طرف اس کا ایک نیا روپ تھا، ایک لکھاری کا روپ، جو سماج کے ناسور کو بے نقاب کر رہا تھا۔ اس کی تحریریں تیز اور بے رحم تھیں۔ اس نے معاشرے کے ہر طبقے میں پائی جانے والی برائیوں پر قلم اٹھایا۔ امیروں کی عیاشی، غریبوں کی مجبوری، سیاست دانوں کی کرپشن، اور خاص طور پر عورت کے خلاف ہونے والی ہر قسم کی ناانصافی پر اس نے لکھا۔

================

=============

ابتدائی کامیابیوں کے بعد، عابدہ کو پہلی بار سماجی دباؤ کا سامنا ہوا۔ اس کے سسرال والوں کو اس کی تحریریں پسند نہیں آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک “عورت” کا باہر کی دنیا میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا، خاص طور پر ایسے مضامین پر لکھنا، جو “حیا” کے خلاف ہیں، ان کے خاندان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ سلمان پر اس کے گھر والوں کا دباؤ بڑھنے لگا۔ وہ عابدہ سے کہنے لگا کہ وہ ایسا مواد لکھنا بند کر دے جو “متنازعہ” ہو۔
اس کے علاوہ، عابدہ کی کامیابی سے اس کی چچا زاد بہن ثناء کو شدید حسد ہوا۔ وہ ہر جگہ عابدہ کی برائی کرنے لگی، یہاں تک کہ اس نے عابدہ کے خلاف سسرال میں بھی زہر گھولنا شروع کر دیا۔ وہ عابدہ کی تحریروں کو غلط طریقے سے پیش کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرتی کہ عابدہ دراصل اپنے خاندان کی توہین کر رہی ہے۔
تنازعہ کی شروعات:
عابدہ نے ایک ایسی کہانی لکھی جس میں اس نے ایک مذہبی پیشوا کے منافقانہ چہرے کو بے نقاب کیا، جو عوام کو تو تقویٰ اور پرہیزگاری کی sermons دیتا ہے لیکن خود اس کی ذاتی زندگی بہت ہی مختلف ہوتی ہے۔ یہ کہانی ایک بھڑکتی ہوئی چنگاری ثابت ہوئی جس نے معاشرے کے ہر طبقے میں آگ لگا دی۔
لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ وہ تھا جو عابدہ کی ہمت اور سچائی کی تعریف کر رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عابدہ ہمارے معاشرے کی آواز ہے، جو ہماری کہانیاں کہہ رہی ہے۔ دوسرا گروہ، جو کہ تعداد میں زیادہ اور آواز میں بلند تھا، عابدہ کے خلاف ہو گیا۔ انہوں نے عابدہ پر الزام لگایا کہ وہ مذہبی عقائد سے کھیل رہی ہے، معاشرتی اقدار کو پامال کر رہی ہے اور عورت کے حیا کے تصور کو مجروح کر رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر عابدہ کے خلاف مہم چل نکلی۔ اسے گالم گلوچ کی جا رہی تھی، اس کی توہین کی جا رہی تھی، حتیٰ کہ اسے موت کی دھمکیاں بھی ملنے لگیں۔ میگزین کے دفتر کے باہر احتجاج ہونے لگے۔ ایڈیٹر نے، جو پہلے عابدہ کا ہمدرد تھا، دباؤ میں آ کر عابدہ سے کہا کہ وہ معافی مانگ لے اور اپنی تحریر واپس لے لے۔
ذاتی زندگی پر اثرات:
عابدہ کی ذاتی زندگی اب جہنم بن چکی تھی۔ سلمان کا گھر والوں کا دباؤ برداشت نہ ہو سکا۔ اس نے عابدہ پر زور ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ لکھائی چھوڑ دے اور معافی مانگ لے۔ دونوں کے درمیان تلخ بحثوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ سلمان کا کہنا تھا، “تمہیں اپنے خاندان کی عزت سے زیادہ اپنی تحریروں کی پرواہ ہے!” عابدہ جواب دیتی، “میں نے کوئی جھوٹ نہیں لکھا۔ میں نے وہی لکھا ہے جو سچ ہے۔ کیا سچ بولنا گناہ ہے؟”
سسرال والے تو عابدہ کو “خاندان کی بدنامی” کا ذریعہ سمجھنے لگے۔ انہوں نے سلمان پر عابدہ کو طلاق دینے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ عابدہ کے اپنے ماں باپ بھی، جو ابتدا میں اس کے ساتھ تھے، سماجی دباؤ کے آگے جھک گئے اور انہوں نے بھی عابدہ سے لکھائی چھوڑنے کی گزارش کی۔
عابدہ خود کو ایک ایسے جنگل میں تنہا محسوس کرنے لگی جہاں ہر طرف سے اسے ڈسنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ اس کی سہیلی رفیعہ اس کا ساتھ دیتی ہے لیکن وہ بھی عابدہ کو سمجھاتی ہے کہ سماج کے سامنے سر اٹھا کر چلنا مشکل ہے، خاص طور پر جب آپ ایک عورت ہوں۔
“مین منٹو نہیں ہوں” کا جذبہ:

====================

============

ان تمام مصائب کے درمیان، عابدہ ایک دن انتہائی مایوسی کے عالم میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے اسے موت کی دھمکیوں بھرے messages آ رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے لیکن اس کے ہاتھ میں قلم تھا۔ اس نے اپنے کالم کے لیے ایک نئی تحریر لکھنی شروع کی۔ اس کا عنوان تھا: “مین منٹو نہیں ہون”۔
اس تحریر میں عابدہ نے لکھا:
“لوگ مجھے جدید دور کی منٹو کہتے ہیں۔ میں منٹو نہیں ہوں۔ منٹو ایک عظیم لکھاری تھے۔ میں تو صرف ایک چھوٹی سی کہانی کار ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ میری تحریریں بے حیا ہیں۔ میں کہتی ہوں، بے حیا تو وہ لوگ ہیں جو ان سچائیوں کو چھپاتے ہیں جن پر میں لکھتی ہوں۔ میں وہ آئینہ ہوں جس میں سماج اپنا اصل چہرہ دیکھتا ہے۔ اگر چہرہ بدصورت ہے تو اس کا قصور آئینے کا ہے؟… میں منٹو نہیں ہوں۔ میں صرف عابدہ ہوں۔ ایک عورت جو سچ بولنے کی جرم میں سزا پا رہی ہے۔”
یہ تحریر شائع ہوئی تو ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ کچھ لوگوں نے اس کی ہمت کی تعریف کی تو کچھ نے اس پر مزید تنقید کی۔