…..افتخار شوکت…. ایک بہترین دوست اور عمدہ تخلیق کار…….


================

(تحریر/علی رضاخان پروڈیوسر پی ٹی وی ملتان)

یہ 90کی دہائی کے آغاز کی بات ہے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے زمانہء طالبعلمی میں مجھے کالج میں ہونے والی علمی اور ادبی سرگرمیوں میں ایک نوجوان نہایت ذوق و شوق سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوا نظر آتا رہا وہ نوجوان دوسرے بہت سے طالبعلموں سے مجھے کچھ مختلف سا نظر آیا بہت سادہ، معصوم اور نہایت مودبانہ انداز میں وہ ان سرگرمیوں میں شامل رہتا میں ان دنوں غالباً تھرڈ ایئر یا فورتھ ایئر کا طالبعلم اور کالج میگزین کا ایڈیٹر ہونے کے ساتھ کالج کی بزم ادب کا صدر بھی تھا جب کہ افتخار شوکت فرسٹ ایئر یا سیکنڈ ائیر میں زیر تعلیم تھا……… کالج کے عرصہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ شہر کی علمی، ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرنے لگا اور خود بھی نظم و نثر کے میدان میں تخلیقی عمل سے گزرنے لگا اسی اثنا میں اس کی تخلیقات قومی اخبارات و رسائل میں جگہ پانے لگیں بعد میں وہ نوجوان ملک کے علمی اور ادبی حلقوں میں افتخار شوکت کے نام سے معروف ہوا……………. . اس کی ولادت 23 دسمبر 1976 کو ساہیوال میں ہوئی…. والد گرامی شوکت علی چوہدری 1976 سے 1982 تک ایجوکیشن کےشعبہ سے وابستہ رہے اور اس دوران گورنمنٹ کالج ساہیوال میں بطور لیکچرار انگریزی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے رہے محکمہ تعلیم کی ملازمت کے دوران صوبائی سول سروس کا حصہ بن گئے اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے کرتے ڈائریکٹر ایکسائز کے عہدے تک پہنچے اور دوران ملازمت ہی عارضہءقلب کی وجہ سے لاہور میں انتقال کر گئے……………….

افتخار شوکت نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد پنجاب لا کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی…. ادبی ذوق گھریلو ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا…… علم و ادب سےان کی قلبی وابستگی کا اندازہ ان کی قائم کی گئیں کاروان ادب اور لاہور ادبی فورم جیسی ادبی تنظیموں کے تحت ہونے والی سرگرمیوں سے لگایا جا سکتا ھے انھوں نے ان پلیٹ فارمز کے زیر اہتمام بے شمار معیاری علمی اور ادبی تقریبات کا انعقاد کروا کر فروغ علم و ادب کے لئے جو بے لوث کاوشیں اور عملی اقدامات کئے ہیں وہ یقیناً لائق تحسین ہیں اپنے قیام فیصل آباد کے دوران انھوں نے روٹری کلب انٹرنیشنل فیصل آباد سٹی کے سیکرٹری اور بعد ازاں صدر کے طور پر رفاحی اور سماجی شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں……

افتخار شوکت نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1993 میں کیا وہ ان دنوں ساہیوال میں مقیم استاد شاعر سید جعفر شیرازی کی شاگردی میں آگئے اور ان سے شعری اسرار و رموز سیکھنے کے عمل میں مشغول ہوگئے شیرازی صاحب کی توجہ، بھرپور رہنمائی اور فنی تربیت کی وجہ سے افتخار شوکت کا کلام بہت جلد ملک کے صف اول کے ادبی جرائد و رسائل میں جگہ پانے لگا اس کی نگارشات کو نیرنگ خیال، تخلیق، شام وسحر، تجدید نو اور دیگر میں پزیرائی ملنے لگی…… ان کا اولین شعری مجموعہ “پیار کی پہلی بارش” 2016 میں شائع ہوا جس میں ان کی ایک حمد، نعت اور سلام کے علاوہ تقریباً ساٹھ غزلیں شامل ہیں اس مجموعہ شاعری کے وقار میں نامور اہل قلم کی آراء نے اضافہ کرتے ہوئے ان کے فنی اور تخلیقی کام کو سراہا ھے….. ان کی دوسری کتاب ” محبت روشنی ہے ” کے نام سے 2018 میں منصۂ شہود پر آئی
جس میں ان کی آزاد نظمیں شامل ہیں اس مجموعہ نظم میں بھی مقتدر اہل قلم نے ان کی شخصیت اور فکری وفنی پہلوؤں پر خوبصورت انداز میں تبصرہ کیا ھے انھوں نے شعری تخلیق کے ساتھ ساتھ نثر کے میدان میں بھی خوبصورت کام کیا ھے ان کے سماجی، سیاسی، علمی اور ادبی موضوعات پر لکھے گئے مضامین اور کالمز قومی اخبارات اور جرائد میں تواتر سے چھپ رہے ہیں ان مضامین اور کالموں کا مجموعہ بھی عنقریب شائع ہونے والا ھے….

افتخار شوکت نے اپنے فنی سفر کے دوران شہر غزل ساہیوال کے بڑےشاعروں حاجی بشیر احمد بشیر ، گوہر ہوشیار پوری ، سید ناصر شہزاد سمیت دیگر بہت سے اہل قلم سے بھی رابطے اور ملاقاتیں رکھیں اور ان سے بھر پور انداز سے کسب فیض بھی کیا….. افتخارشوکت گو تلاش معاش کے سلسلہ میں فیصل آباد، ڈیرہ غازی خاں، بہاولپور اور لاہور طویل عرصہ مقیم رہے اور ان شہروں میں کئی برس گزارنے کے باوجود ان کا دل اپنے آبائی شہر ساہیوال ہی کی فضاؤں میں دھڑکتا رہا……. اس نے اپنے فنی سفر کے ابتدائی عرصہ میں جدید غزل کے دو دیدہ زیب انتخاب بھی کتابی صورت میں خوبصورت انداز سے شائع کر کے علمی اور شعری حلقوں میں پزیرائی حاصل کی…ان دونوں کتابوں کی اشاعت سے افتخار شوکت کے حسُن انتخاب اور شعری ذوق کے اعلیٰ معیار کا بھی پتہ چلتا ھے…….وہ آجکل مستقل طور پر لاہور میں سکونت پذیر اور وکالت کے پیشےسے منسلک ھے…….

افتخار شوکت مجھےبہت عزیز ہیں وہ مجھے ہمیشہ عزت و تکریم سے ملے ہر مرتبہ مجھے ان سے ملاقات پر خوشگوار حیرت اور طمانیت کا احساس ہوا اور حیرانی ہوئی کہ مادہ پرستی کی فرسودہ روایات میں جکڑے ہوئے معاشرے کی آلودگی اور تعفن نے ان کی شفاف شخصیت کا کچھ نہیں بگاڑا….. وہ ہمیشہ دوستوں کی کامیابیوں پر مسرور نظر آئے….. نفرت، حسد، کینہ، بغض اور کدورت سےکوسوں دور رہنے والے اس خوش فطرت انسان کے لئے ے پناہ محبتوں کا خراج…………………

آخر میں افتخار شوکت کے چند اشعار نذرِ قارئین…

ہستی کا کچھ وجود نہ تھا آپ کے بغیر
خوشبو سے بے خبر تھی ہوا آپ کے بغیر
میں آپ کے بغیر کسی کام کا نہیں
کوئی نہیں حضور مرا آپ کے بغیر

سیدھے سادوں کو بھی ہشیار بنا دیتے ہیں
دھوکے دنیا کے سمجھ دار بنا دیتے ہیں

بہت مانوس ہوتے ہیں در و دیوار انساں سے
مکیں جب چھوڑ جائیں تو مکاں خاموش رہتے ہیں

شوکت کسی بھی گھر میں جو ماں کا وجود ہو
رہتی ہے اس میں چھاؤں شجر کے بغیر بھی