چنگیز خان کی سرزمین سرسبز منگولیا

رب کا جہاں
نوید نقوی
===========


صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ قارئین کمبوڈیا کی سیر کے بعد ہم رکشے کا رخ ایک ایسے دیس کی طرف کرتے ہیں جو انتہائی خوبصورت اور سرسبز ہے۔ جی ہاں میں بات کر رہا ہوں چار کروڑ انسانوں کے قاتل عظیم منگول حکمران چنگیز خان کے وطن منگولیا کی، جی ہاں چنگیز خان کی ورثے سے بھرپور سرزمین کی، جو آج بھی چنگیز خان یا منگولوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ چنگیز خان جس کا اصل نام تموجن تھا، ایک ایسا نڈر اور جہاں دیدہ سردار تھا جس نے اپنی بہادری اور قابلیت کے بھروسے پر ایک عظیم منگول سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ چنگیز خان جس کی اولاد آج کروڑوں کی تعداد میں ہے اس وقت اس کے 200 بیٹے تھے جن سے اس کی نسل بڑھی اور آج کروڑوں میں ہے۔ پاکستان میں ہزارہ قبیلے کے افراد جو زیادہ تر افغانستان کے مزار شریف اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رہتے ہیں، وہ بھی چنگیز خان کی اولاد میں سے ہیں۔ چنگیز خان اور اس کے قابل جرنیلوں نے چند عشروں میں ہی بیجنگ سے ماسکو، ثمرقند سے تبریز اور اناطولیا کے میدانوں کو روند ڈالا اور اس زمانے کی سب سے بڑی اور طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھی۔ منگول آندھی جسے تاتاریوں کے بگولے بھی کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا دل دہلا دینے والا طوفان ہوتا تھا کہ جس کی ہیبت سے یورپ کے در و دیوار ہل گئے تھے۔ اپنے عروج کے دور میں منگول سلطنت تین کروڑ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج اس علاقے کی کل آبادی تین ارب نفوس سے زائد پر مشتمل ہے۔ یہ تاریخ عالم کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی جو مغرب میں ہنگری، شمال میں روس، جنوب میں انڈونیشیا اور وسط کے بیشتر علاقوں مثلا افغانستان، ترکی، ازبکستان، گرجستان، آرمینیا، روس، ایران، پاکستان، چین اور بیشتر مشرق وسطی پر مشتمل تھی۔ یاد رہے کہ اپنے زمانے کی ایک اور طاقتور ترین سلطنت کی بنیاد رکھنے والے امیر تیمور لنگ بھی چنگیز خان کی نسل میں سے تھے۔ اس کے بعد ایک اور عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدین بابر بھی چنگیز خان کی نسل میں سے تھے۔ جنہوں نے سنہ 1526 میں ہندوستان کے بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دی تھی۔ آج سے کم و بیش آٹھ سو سال پہلے اس عظیم الشان سلطنت کے نام سے بڑے بڑے شہنشاہ اور حکمران کانپتے تھے پر آج جدید دور میں اس عظیم منگول سلطنت کا ایک چھوٹا سا حصہ باقی ہے جسے دنیا منگولیا کے نام سے جانتی ہے۔ منگولیا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ وسطی ایشیا کی قدیم ترین ریاست ہے۔ منگولیا ایک ایسا ملک ہے جسے کوئی سمندر نہیں لگتا اور یہ دو طاقت ور ترین ممالک یعنی چین اور روس کے درمیان واقع ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کا رقبہ تو کافی وسیع ہے اور یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا اٹھارہواں بڑا ملک بھی ہے۔ یعنی اس کا کل رقبہ 1564116 مربع کلومیٹر ہے۔ لیکن آبادی ملکی رقبے کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔ یعنی کم و بیش 3483669 نفوس پر مشتمل ہے۔ دارالحکومت کا نام اولان باتور ہے۔ قومی زبان منگولیائی ہے، اس کے علاوہ روسی اور التائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ صحرائے گوبی یہاں کا مشہور ویرانہ ہے۔ اسی ویرانے سے اٹھنے والے بگولوں نے تموجن یعنی چنگیز خان کی قیادت میں آدھی دنیا کو روند ڈالا تھا۔ منگولیا میں بہت سے دریا،‏ ندیاں اور اُونچے اُونچے پہاڑ ہیں اور سرسبز ڈھلوانی اور میدانی علاقے بھی ہیں۔‏ صحرائے گوبی اِس کے جنوب میں واقع ہے جہاں ڈائنوسار کی باقیات بہت اچھی حالت میں ملتی ہیں۔‏ منگولیا سطحِ‌ سمندر سے 1580 میٹر یعنی 5200 فٹ بلندی پر واقع ہے۔‏ مقامی لوگ اِسے نیلے آسمان کی سرزمین کہتے ہیں کیونکہ یہاں سال میں 250 سے زیادہ دن دھوپ رہتی ہے۔‏ اس ملک میں شدید سردی اور شدید گرمی پڑتی ہے۔‏ گرمیوں کے موسم میں درجۂ‌حرارت 40 ڈگری سینٹی‌گریڈ 104 ڈگری فارن‌ ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ سردیوں میں یہ منفی 40 ڈگری سینٹی‌گریڈ منفی 40 ڈگری فارن‌ہائیٹ تک گِر جاتا ہے۔‏ سال میں موسم سرما طویل ہوتا ہے۔ یہاں کی تقریباً ایک تہائی آبادی خانہ‌بدوش ہے۔‏ یہ لوگ صبح سویرے اُٹھ جاتے ہیں اور اپنی بکریوں،‏ گایوں،‏ اُونٹنیوں اور گھوڑیوں کا دودھ نکالتے ہیں۔‏ منگولیا کے لوگوں کی خوراک میں عام طور پر دودھ سے بنی چیزیں اور گوشت شامل ہوتا ہے۔‏ یہاں کے لوگوں کو چھوٹا گوشت بہت پسند ہے۔‏ موسمی شدت کی وجہ سے یہاں کے لوگ اپنی خوراک پر خاص دھیان دیتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کے موسم میں صحت مند رہا جا سکے۔ دنیا کے باقی پہاڑی علاقے کے لوگوں کی طرح منگولیا کے لوگ بھی مہمان نواز ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر گول خیموں میں رہتے ہیں جنہیں گیر کہا جاتا ہے۔ یہاں کی ایک خاص اور حیرت انگیز روایت یہ ہے کہ لوگ اپنے خیموں کے دروازوں کو کھلا رکھتے ہیں تاکہ ان کی غیر موجودگی میں مہمان یا مسافر اندر آ سکیں اور بلا روک ٹوک کھا پی سکیں۔ ترکی اور ایران میں اپنے مہمانوں کو سب سے پہلے قہوہ یا چائے پیش کی جاتی ہے جبکہ منگولیا میں آنے والے مہمانوں کو سب سے پہلے دودھ والی نمکین لسی پیش کی جاتی ہے۔ منگولیا میں آبادی کا ایک بڑا حصہ بدھ مت کے ماننے والوں کا ہے۔ جبکہ عیسائی، مسلمان اور شمانی بھی کافی تعداد میں رہتے ہیں۔ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتا ہے۔ اس ملک کی آبادی کا چوتھا حصہ دارالحکومت میں رہائش پذیر ہے۔ دارالحکومت کے باسی ہر سال کچھ ماہ ملک کے طول و عرض میں جنگلوں اور بیابانوں میں گزارتے ہیں تاکہ فطرت سے لگاؤ قائم رہے۔ سویت یونین کے زوال کے بعد منگولیا کی معیشت کو بھی کافی مسائل کا سامنا رہا تاہم مخلص قیادت نے معیشت کو سیاحت اور صنعتی پالیسیوں کی بدولت سہارا دیا۔ آج منگولیا میں موسم بہار میں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور منگول ڈربی میں حصہ لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ سنہ 2009 میں منگولیا کے کھلے میدانوں میں پہلی مرتبہ منگول ڈربی کا انعقاد کیا گیا۔ تب سے ہر سال اس ریس میں حصہ لینے کے لیے دنیا کے ہر کونے سے گُھڑسوار اور گھڑ سواری دیکھنے کے شوقین سیاح منگولیا آتے ہیں۔ ملک کی بیشتر آبادی چونکہ خانہ بدوشوں پر مشتمل ہے اس لیے ریس میں حصہ لینے والے گھوڑے خانہ بدوش خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ ٹیموں اور سواروں کی میزبانی کے لیے بھی خانہ بندوش خاندانوں کو ملازمت پر رکھا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے طویل اور مشکل ترین ریس ہے۔ یہاں کے میدانوں میں گھوڑے دوڑانا ایک خوبصورت احساس ہے۔ خوبصورت پہاڑوں میں گھرے سرسبز، کھلے اور کشادہ میدان جنت کا گمان پیدا کرتے ہیں۔ اس ریس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا ٹریک 1000 کلومیٹر ہے۔ چنگیز خان نے دنیا بھر کی سلطنتوں سے رابطے کے لیے خط و کتابت کا ایک نظام بنا رکھا تھا جو 1000 کلومیٹر تک محیط تھا۔ اسی لیے یہ ریس بھی 1000 کلومیٹر طویل رکھی گئی ہے۔ گھوڑوں کو تازہ دم رکھنے کے لیے انھیں ہر 40 کلومیٹر یا اس سے کچھ کم فاصلے پر تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن گھڑ سوار تبدیل نہیں ہوتا اور انھیں 1000 کلومیٹر تک کا سفر مکمل کرنا پڑتا ہے۔
اسی لیے گھوڑے ہمیشہ ہی ہشاش بشاش لیکن سوار تھکن سے نڈھال نظر آتے ہیں۔ آپ کا اگر اس خوبصورت ملک میں جانے کا اتفاق ہو تو منگول ڈربی میں شرکت لازمی کریں یا پھر اس ریس کا قریب سے مشاہدہ کریں یقیناً آپ کا خرچ اس ریس کو دیکھ کر ہی پورا ہو جائے گا۔ پاکستان سے منگولیا جانے کے لیے براستہ چین روٹ استعمال کریں تو براستہ ماسکو والے روٹ سے سستا پڑتا ہے۔