محض خواب

ڈاکٹر توصیف احمد خان
================

f
پیپلز پارٹی حکومت کا اپنے اقتدار کے 16برسوں کے دوران کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ کا پہلا پروجیکٹ بھی تعطل کا شکار ہے۔ ملیر کینٹ سے نمائش تک روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں مسافر مٹی، ریت اور گندے پانی میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے فیصلہ کیا ہے کہ لاہور میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے کامیاب منصوبوں کے بعد اب پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید نظام زیر ِ زمین ریل گاڑی کے منصوبہ پر کام شروع کیا جائے۔ ایک اخبار نے لکھا ہے کہ اب صدر آصف زرداری نے ریڈ لائن منصوبہ کے کام کو دوبارہ شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹیں دورکرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

کراچی میں گرین لائن بس کا منصوبہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے شروع کیا تھا جو میاں صاحب کی برطرفی کے بعد التواء کا شکار ہوا۔ بہرحال نمائش سے نارتھ کراچی سفر کرنے والے لاکھوں مسافر (گرین لائن سے مستفید ہونے والے) مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتوں کو دعائیں دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف گرین لائن پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھ رہے تھے تو اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے مسئلہ کے دائمی حل کے لیے ایسی 5 کے قریب لائنوں کا سرکاری اعلان کیا تھا مگر یہ وعدہ ہی رہا۔

ریڈ لائن کا منصوبہ 2022میں شروع ہوا تھا اور یہ منصوبہ 2025میں پایہ تکمیل ہونا تھا۔ اس منصوبہ کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک نے 79 بلین روپے کا قرضہ منظور کیا تھا۔ یہ منصوبہ 22 کلومیٹر طویل ہے۔ اگرچہ منصوبہ پرانی نمائش پر ختم ہوگیا مگر حکومت سندھ کے منصوبہ کے تحت ریڈ لائن کو ایک اور بلیو لائن سے منسلک کیا جائے گا جو ٹاور تک تعمیر ہوگی۔ اگر ریڈ لائن کا منصوبہ مکمل ہوا تو روزانہ 4 لاکھ کے قریب مسافر ریڈ لائن کی بسوں میں سفر کریں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ابھی اس منصوبہ کا صرف 5 فیصد کام مکمل ہوا ہے۔

اس منصوبہ پر کام کرنے والے ٹھیکیدار نے تعمیراتی سامان کی قیمتوں میں اضافے کی بناء پر کام بند کردیا ہے۔ یہ بھی خبریں اخبارات میں شایع ہوئی ہیں کہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اضافی بجٹ کی بھی منظوری دیدی ہے۔ اس منصوبے کی نگرانی کرنے والی ٹرنک کراچی کمپنی کی انتظامی کمیٹی کے رکن این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ پروجیکٹ پر خرچ ہونے والی مجموعی رقم جو پہلے 79 بلین روپے تھی اب 130بلین روپے تک ہوجائے گی۔

بتایا جاتا ہے کہ جب منصوبہ تیار کیا جارہا تھا تو نامعلوم وجوہات کی بناء پر تعمیراتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب تو اس صورتحال سے اس اتنے پریشان ہیں کہ انھوں نے ایک موقع پر کہا کہ ریڈ لائن منصوبہ بلدیہ کراچی کے لیے ’’ درد سر‘‘ بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریڈ لائن بلدیہ کراچی کا منصوبہ نہیں ہے، یہ منصوبہ حکومت سندھ کا ہے مگر ہر شخص بلدیہ کراچی کو منصوبہ کی عدم تکمیل کا ذمے دار قرار دیتا ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبہ ابتدائی دنوں سے سندھ حکومت کے بدترین طرزحکومت کا شکار ہوا۔ جب افسران کی ذمے داری تھی کہ وہ اس منصوبہ کے لیے زمین حاصل کریں انھوں نے اپنے کام کی تکمیل میں خاصی دیر کی۔ حکومت سندھ کے مختلف محکموں کے درمیان تعاون کا فقدان تھا، جس زمین پر ریڈ لائن تعمیر ہورہی ہے وہاں پانی، بجلی، گیس اور سیوریج کی لائنیں موجود نہیں ہیں۔ یوں مختلف محکموں کو اپنی لائنوں کی منتقلی کا انتظام کرنا تھا مگر یہ کام بہت دیر میں مکمل ہوا۔ ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر پانی اور سیوریج کی لائنیں پھٹ گئیں اور اس پورے علاقہ میں ہفتوں گٹر کا پانی جمع رہا۔ پانی کی لائنیں پھٹنے سے کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی۔

انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ تعمیراتی کام کرنے والے ٹھیکیدار نے حسن اسکوائر سے نیپا تک لگے درختوں کو بے دردی سے کاٹ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جدید طریقوں سے ان درختوں کو محفوظ کیا جاسکتا تھا۔ جب لاہور میں میٹرو بس کی لائن تعمیر ہورہی تھی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ایک ایسی مشین درآمد کرائی تھی جو درخت کو جڑوں کے نیچے سے نکال کرمنتقل کرتی ہے، یوں یہ درخت پھر زندگی پاتے ہیں مگر سندھ کی حکومت کے اکابرین اس طرح نہیں سوچتے۔ ہر عوامی منصوبہ خاص طور پر سڑکوں کی تعمیر کے موقع پر متبادل راستے بنائے جاتے ہیں تاکہ شہریوں کو مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے مگر ٹھیکیدار نے اس اہم مسئلہ پر توجہ نا دی نا ہی اس منصوبہ کی نگرانی کرنے والے افسروں نے اس بارے میں سوچا۔ اس سڑک سے گزرنے والے مسافروں کے ساتھ ایک ظلم اور ہوا کہ جب جیل چورنگی سے صفورہ چوک تک مسلسل ٹریفک جام ہوا اور خاص طور پر موٹر سائیکل سوار حادثات کا شکار ہونے لگے پھر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور اخبارات میں ٹریفک جام کے مناظر وڈیوز اور تصاویر آویزاں ہونے لگیں تو بھی سندھ حکومت کے ارباب اختیار نے کوئی توجہ نہ دی۔

گزشتہ سال رمضان میں روزانہ شام کو اس سڑک پر جو مناظر دیکھنے میں آئے وہی مناظر آج کل نظر آرہے ہیں۔ سندھ حکومت کی پالیسیاں کس کے مفاد میں تیار ہوتی ہیں؟ اس کی مثال یونیورسٹی روڈ کی سبق آموز کہانی ہے۔ یونیورسٹی روڈ ایک طرف ملیر کینٹ اور دوسری طرف جیل چورنگی تک تعمیر ہوئی تھی۔

پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے دور میں یونیورسٹی روڈ پر ارباب اختیار کی نظر نہیں پڑی مگر جب سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو اس سڑک کی قسمت جاگ اٹھی مگر اس وقت سندھ حکومت کے ترقیاتی منصوبے بنانے والے صاحبان علم و دانش کے ذہنوں میں انڈر گراؤنڈ ٹرین ٹرام وے اور میٹرو لائن جیسے منصوبوں کا تصور نہیں تھا یا اس وقت ان کی ترجیحات میں کراچی کے جدید پبلک ٹرانسپورٹ نظام کے قیام کا ایجنڈا شامل نہیں تھا۔

اس لیے یونیورسٹی روڈ کو پرانے انداز میں تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا مگر یہ منصوبہ بھی التواء کا شکار ہوا۔ سڑک کی تعمیر کے دوران کئی دل دہلا دینے والے حادثات رونما ہوئے۔ یونیورسٹی روڈ پر وفاقی اردو یونیورسٹی کے بس اسٹاپ پر ایک بس نے کئی طالبات کو کچل کر ہلاک کیا تھا۔ بہرحال یہ طویل سڑک 10 بلین روپے کی لاگت سے 2017 میں مکمل ہوئی۔ اس وقت وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے فخر سے اعلان کیا تھا کہ سڑک 3.2 میٹر چوڑی ہے اور اس کے ساتھ سروس روڈ بھی تعمیر کی گئی ہے۔

سندھ حکومت نے گزشتہ سال 300ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلائی تھیں جن میں اب مزید کچھ اور بسیں شامل ہونگی مگر یہ سب کچھ میگا سٹی کے لیے انتہائی کم ہے۔ نگراں حکومت کے ایک وزیر نے لکھا تھا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 5 ہزار جدید بسوں کی ضرورت ہے ۔ کراچی کے شہری انڈر گراؤنڈ ٹرین، الیکٹرک ٹرام، جدید بسوں کے ٹریک کے خواب دیکھتے ہیں مگر ان حالات میں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض خواب ہی رہے گا۔
https://www.express.pk/story/2623294/268/