نازی جرمنی کا جہاز جو پاکستان کا سفینہ حجاج بن گیا

انور اقبال
=============

بلوہم اینڈ ووس ( Blohm&Vass) جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں قائم شدہ ایک بحری جہاز سازی اور انجینئرنگ کا ادارہ تھا۔ یہ ادارہ 1877 میں وجود میں آیا تھا۔ یہ وہی جہاز سازی کا ادارہ ہے جس نے نازی جرمنی کی بحریہ کے لئے دوسری جگہ عظیم میں عظیم الشان بحری جنگی جہاز بسمارک بنایا تھا۔ اس شپ یارڈ میں 16 جنوری 1935 کو ایک اور بحری جہاز کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب جرمنی میں نازی پارٹی کی حکومت تھی اور ایڈولف ہٹلر پورے طمطراق سے حکومت کر رہا تھا۔

یہ جہاز ایک جرمن جہاز ران کمپنی ”ہمبرگ امریکہ لائن“ کے لیے تعمیر کیا جا رہا تھا۔ لیکن اس کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے ہی ”ہیمبرگ امریکہ لائن“ نے اس جہاز کو ایک دوسری جرمن جہاز ران کمپنی ”نارتھ جرمن لائیڈ“ کو فروخت کر دیا۔ اس جہاز کی تعمیر 27 جون 1935 کو مکمل ہو گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 35 سال بعد یہ دونوں جہاز ران کمپنیاں ایک دوسرے میں مد غم ہو گئیں اور آج یہ دنیا کی پانچویں بڑی جہاز ران کمپنی ہے اور یہ اب ہیپگ لائیڈ کہلاتی ہے۔ جہاز کا نام ”پوٹس ڈیم“ (Potsdam) رکھا گیا۔

پوٹس ڈیم دراصل جرمنی کے شہر برلن کے مضافات میں واقع ایک تاریخی مقام ہے جو اپنے شاہی محلات کی وجہ سے مشہور ہے۔ پوٹس ڈیم ایک ایسا بحری جہاز تھا جو بیک وقت مال برداری اور مسافر برداری کے لیے استعمال ہو سکتا تھا۔ جہاز میں مال لادنے کے لیے وسیع و عریض جگہ موجود تھی اور ساتھ میں مسافروں کے رہنے کے لیے 286 کمرے بھی موجود تھے یہ اپنے وقت کا ایک جدید جہاز تھا اور جرمن انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔ اس کے انجن میں ٹربو الیکٹرک پاور پلانٹ نصب تھا اور یہ 21 ناٹ کی رفتار سے چل سکتا تھا۔

5 جولائی 1935 کو ”پوٹس ڈیم“ اپنے پہلے بحری سفر پر جرمنی کی بندرگاہ ہیمبرگ سے روانہ ہو گیا۔ اس کا پہلا سفر جاپان کی جانب تھا۔ اس کا سمندری راستہ ہیمبرگ۔ بارسلونا۔ کو لمبو۔ شنگھائی۔ یو کو ہاما پر مشتمل تھا۔ اسی طرح اس بحری جہاز نے نازی جرمنی کو سامراجی جاپان سے معاشی اور سفارتی طور پر جوڑ دیا۔ بد قسمتی سے پہلی ستمبر 1939 کو دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ اس وقت یورپ کے مسافروں اور سامان کو لے کر پوٹس ڈیم، اپنے معمول کے سفر پر امریکہ کی جانب رواں دواں تھا اس نازک وقت میں اس کے کپتان نے کمال ہوشیاری کا ثبوت دیا اور جہاز کا رخ دوبارہ جرمنی کی جانب موڑ دیا۔

کپتان نے ایک غیر روایتی سمندری راستہ اختیار کیا اور اسکاٹ لینڈ کے شمالی ساحلی علاقوں میں سفر کرتے ہوئے اتحادی جنگی بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں سے بچتا بچاتا بخیریت واپس جرمنی پہنچ گیا۔ جرمنی پہنچتے ہی ”پوٹس ڈیم“ کی خدمات نازی جرمنی کی بحری فوج نے حاصل کر لیں۔ ابتدا میں اسے ہیمبرگ کی بندرگاہ پر بحری افواج کے لیے عارضی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔

1941 میں جرمن بحریہ کے کار پرداز یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ جرمن بحریہ کو اتحادیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے طیارہ بردار بحری جہازوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت تک جرمن بحریہ کے پاس کوئی طیارہ بردار جہاز نہیں تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ موجودہ بحری بیڑے میں سے ہی کچھ جہازوں کو چن کر ان کو طیارہ بردار جہاز میں تبدیل کر دیا جائے۔ ”پوٹس ڈیم“ کو بھی اس مقصد کے لئے چن لیا گیا اور دسمبر 1942 میں اس کو جرمنی میں واقع بریمرہیون کی شپ یارڈ میں پہنچا دیا گیا۔

جہاز کا نام تبدیل کر کے ایلبے (elbey) رکھ دیا گیا۔ سب سے پہلے مسافروں کے لیے بنائے گئے کمرے اکھاڑنے شروع کیے گئے۔ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ اس جہاز پر 24 ہوائی جہاز کھڑے کرنے کی جگہ بنائی جائے گی چھوٹی بڑی ملا کر 35 طیارہ شکن تو پیں نصب کی جائیں گی۔ لیکن امریکہ کے جنگ میں کود پڑنے سے اتنی افراتفری پھیل چکی تھی کہ اس منصوبہ کو ختم کر دیا گیا۔ اور یہ جہاز اپنے پرانے نام کے ساتھ ہی پولینڈ کے ساحلی شہر گڈینیا (Gdynia) کی بندرگاہ پر تعینات کر دیا گیا۔

البتہ اس پر اب مکمل طور پر فوجیوں کے رہنے کے لیے بیریکس تعمیر کردی گئیں تھیں۔ گڈینیا پر بھی کچھ عرصے یہ بحری افواج کی عارضی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ اس کے بعد یہ فوجی دستوں کو ناروے سے بالٹک بندر گاہوں پر لانے لے جا نے کا کام سرانجام دینے لگا۔ 1945 کی ابتدا ہی سے جرمنی کو یورپ میں پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور اور مئی کا مہینہ آتے آتے جرمنی تقریباً ڈھیر ہو چکا تھا۔ آخر کار 13 مئی کو جرمنی کے ساحلی شہر فلینز برگ کی بندر گاہ پر برطانوی فوج نے ”پوٹس ڈیم“ پر قبضہ کر لیا۔

برطانوی بحریہ نے فوری طور پر اس کا نام تبدیل کر کے ”ایپمائر جیول“ رکھ دیا۔ تین ہفتہ بعد اس کو اسکاٹ لینڈ کے ساحلی شہر میٹہل ” بھیج دیا گیا۔ جہاں یہ 20 جولائی 1945 کو پہنچ گیا۔ یہ جہاز برطانوی حکومت نے اپنے قبضے میں جنگ کے انعام کے طور پر رکھ لیا اور اس کا انتظام و انصرام برطانوی جہاز ران کمپنی“ پی اینڈ او ”کے سپرد کر دیا۔ اس جہاز کا نام ایک دفعہ اور بدل دیا گیا۔ اس کا نیا نام“ ایمپایئر فووی تھا۔

برطانوی حکومت نے طے کیا کہ ”ایمپایئر فووی“ کو برطانوی فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی عالمی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے اس کو مکمل طور پر مسافر بردار جہاز میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اس کو اسکائش شپ یارڈ ”ہار لینڈا اینڈ وولف“ جو کوینز آئی لینڈ بلفاسٹ میں واقع تھا۔ بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ 1912 میں مشہور عالم بحری مسافر جہاز“ ٹایٹینک ”اسی شپ یارڈ میں بنایا گیا تھا۔

اس دوران اس کی تکنیکی خامیاں اور خرابیاں ٹھیک کی گئیں۔ اس تمام تر کاوشوں میں تین سال کا عرصہ گزر گیا اور سال 1947 آ گیا۔ اس کام میں تقریباً 3 ملین پاونڈ خرچ کیے گئے۔ اب اس میں 1636 فوجی سما سکتے تھے۔ “ ایمپایئر فووی ”پوری طرح برطانوی بحری فوج کا حصہ بن گیا۔ وہ برطانوی فوجیوں اور ان کے خاندانوں کو تمام دنیا میں لانے لے جانے کا کام سر انجام دینے لگا اس کا عام بحری راستہ برطانیہ سے مشرق بعید کے ممالک اور آسٹریلیا ہوا کرتا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہونے لگا تھا اور برطانوی سامراج کا سورج جو جنگ عظیم سے پہلے نصف النہار پر تھا رفتہ رفتہ غروب ہو رہا تھا۔ اس کے زیر تسلط علاقے اور ممالک آہستہ آہستہ آزاد ہو رہے تھے۔ 1947 میں ہندوستان بھی برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہو گیا۔ اس آزادی کے نتیجے میں ایک نیا ملک پاکستان بھی معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے حصے میں جو اثاثے آئے اس میں کوئی جہاز ران کمپنی شامل نہیں تھی۔

پاکستان آزادی کے وقت دو خطوں پر مشتمل تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اور ان دونوں کے درمیان ایک ہزار میل لمبا سمندر حائل تھا۔ دونوں حصوں کے درمیان سامان کے کی نقل و حمل کے لیے سمندری جہاز درکار تھے۔ جو ایک جہاز ران کمپنی ہی فراہم کر سکتی تھی۔ چنانچہ 1950 میں پاکستان میں نجی شعبہ ایک جہاز ران کمپنی“ پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی لمیٹڈ ”کے نام سے قائم کی گئی۔ اس کمپنی نے دو چھوٹے مسافر بردار جہاز خریدے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سمندر کے ذریعے پہلا مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کا رابطہ قائم کیا۔

اس رابطے کے ذریعے سے فوجی، عام مسافر اور سامان کو ایک خطے سے دوسرے خطے پہنچایا گیا۔ ساڑھے سات کروڑ عوام کا نو آزاد ملک پاکستان، ابھی تک اپنے حاجیوں کی نقل و حمل کے لیے بمبئی میں رجسٹرڈ کے ایک بھارتی جہاز ران کمپنی مغل لائنیر کو استعمال کر رہی تھی۔ 1948 میں کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک کے تعلقات بہت خوشگوار نہیں رہے تھے۔ حکومت پاکستان کی خواہش تھی کہ کوئی پاکستانی کمپنی پاکستانی حاجیوں کی نقل و حمل کا بیڑہ اپنے سر پر اٹھائے۔

اس کام کے لیے بڑے مسافر بردار جہاز اور بڑا سرمایہ درکار تھا۔ اس تگ و دو میں سن 50 کا پورا عشرہ بیت گیا۔ اس دوران“ پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی ”مالی طور پر خاصی مستحکم ہو گئی۔ سوئے اتفاق کہ 1960 میں برطانوی بحریہ نے اپنے جہاز ایمپایئر فووی“ کو اپنی ضروریات کے لیے فاضل قرار دے دیا جس کے نتیجے میں حکومت برطانیہ نے فروری 1960 ء میں اس جہاز کو فروخت کرنے کا اعلان کر دیا۔ پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور پاکستانی حاجیوں کی ضروریات کے پیش نظر اس جہاز کو فوری طور پر خرید لیا۔

اب اس جہاز کا نام ”سفینہ حجاج“ رکھ دیا گیا۔ 1961 کا سال وہ پہلا سال تھا جب پاکستان کے عازمین حج کراچی کی بندرگاہ سے اپنے ہی ملک کی ایک جہاز ران کمپنی کے جہاز میں حج کے فرائض کی ادائیگی کے لیے عازم سفر ہوئے۔ اس جہاز کی مسافروں کی گنجائش بڑھا کر 2500 کر دی گئی۔ سفینہ حجاج کراچی سے حاجیوں کو لے کر سات دن میں سعودی عرب کی بندر گاہ جدہ پہنچتا تھا اور راستے میں یمن کی بندرگاہ عدن پر بھی تقریباً آدھے دن کے لیے قیام کرتا تھا۔

پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی نجی شعبے میں قائم ہوئی تھی اور بہت کامیابی سے چل رہی تھی۔ 1970 تک ان کے بحری بیڑے کی تعداد دس ہو گئی تھی اور سفینہ حجاج ان کا سب سے بڑا مسافر جہاز تھا۔ ان 10 سالوں میں سفینہ حجاج نے ہزاروں حاجیوں اور مسافروں کو اپنی منزلوں پر پہنچایا۔ بدقسمتی سے جب 1974 میں یہ کمپنی بام عروج پر تھی اس کو قومیا لیا گیا۔ سفینہ حجاج بھی سرکاری تحویل میں چلا گیا۔ اس کے بعد بمشکل تمام دو سال سفینہ حجاج نے حاجیوں کی خدمت کی اور 20 فروری 1976 کو اسے ناقابل استعمال قرار دے دیا گیا۔

ہمارے دوست جناب سہیل صدیقی صاحب جن کا تعلق شوبز سے ہے، بتاتے ہیں کہ نومبر 1976 میں وہ پاکستان مرچنٹ نیوی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری محمد اقبال شیخ سے ملاقات کی غرض سے ان کے دفتر گئے تو وہاں ان کی ملاقات پین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی کے کیپٹن ظفر احمد خان اور چیف انجینئر حامد علی خان سے ہوئی دوران گفتگو ان دونوں حضرات نے بتایا کہ ہماری کمپنی کے بحری جہاز سفینہ حجاج پر ایک عشائیے کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور خیال ہے کہ اس عشائیہ کے ساتھ ایک محفل موسیقی بھی منعقد کر دی جائے۔

ان دونوں حضرات نے ہمارے دوست سہیل صدیقی صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس محفل کا انتظام آپ اپنے ہاتھ میں لے لیجیے۔ الغرض اس تقریب کو منعقد کرنے کی تاریخ 21 نومبر 1976 طے کی گئی۔ سفینہ حجاج کیماڑی کی بندرگاہ سے تھوڑے فاصلے پر کھلے سمندر میں لنگر انداز تھا۔ تمام مدعوعین کو لانچوں کے ذریعے سفینہ حجاج پر پہنچا دیا گیا۔ سہیل صدیقی صاحب بھی تمام فنکاروں کے ساتھ ایک مخصوص لانچ میں سفینہ حجاج پر پہنچے فنکاروں میں مہدی حسن۔ مجیب عالم۔ ایم کلیم۔ بلقیس خانم۔ مہناز معین اختر کے علاوہ رقاصائیں اور مزاحیہ فنکار بھی شامل تھے اس محفل کی نظامت/ میزبانی کے فرائض مشہور شاعر عبید اللہ علیم سرانجام دے رہے تھے۔ تقریباً 500 افراد مدعو تھے۔ جس میں کے پی ٹی کے چیئرمین، نیوی کے کمانڈر، وزارت جہاز رانی کے وزیر وغیرہ بھی شامل تھے۔ عشائیے میں مشروب مشرق کے علاوہ مشروب مغرب کا بھی وافر انتظام تھا۔ کیونکہ اس وقت تک مملکت خداداد میں شراب پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔

اس محفل کے آخر میں عبید اللہ علیم نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا اور کہا کہ سفینہ حجاج 16 سال تک حاجیوں کی خدمت کا مذہبی فریضہ انجام دیتا رہا اور جب اس کے ڈبونے کا وقت آیا تو ہم جیسے گنہگاروں کو محفل رقص و سرور اور عیش و طرب منعقد کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اگلی صبح 22 نومبر 1976 کو سفینہ حجاج اپنے سفر آخرت پر گڈانی کے ساحل کی جانب روانہ ہو گیا جہاں اس کو توڑ کر پرزے پرزے کرنے کے لیے مزدوروں کی ایک جمیعت اس کا انتظار کر رہی تھی۔