نہ کرپشن کرنے دیں گے کی بات کرکے بڑی ہمت افزا بات کی ہے۔ جبکہ سندھ میں پی پی پی کی وزارتیں بلاول بھٹو سوچ سمجھ کر دینا چاہتے ہیں۔

نہ کرپشن کرنے دیں گے کی بات کرکے بڑی ہمت افزا بات کی ہے۔ جبکہ سندھ میں پی پی پی کی وزارتیں بلاول بھٹو سوچ سمجھ کر دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بھی مراد علی شاہ کو کرپشن کی روک تھام کی ہدایت کی۔ پی پی پی کے حوالے سے سسٹم کی باتیں اسکی شہرت پر ضرب لگاتی ہیں۔ لیکن امید چلی ہے کہ بلاول اس پر بھی روک تھام کریں گے۔ وزیر اعلی سندھ کی تقریب میں انور مجید کی موجودگی سے بلاول بھٹو کے لئے سوالیہ نشان تو موجود ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر عاصم حسین، انور مجید، اے جی، یونس میمن،محمد علی شیخ، علی زرداری سمیت مختلف نام گردش کرتے ہیں۔ ان سارے سسٹموں کو بھی انہیں ہی دیکھنا ہوگا۔ کے ایم سی، KDA, LDA, MDA, KWSC, SBCAمیں بھی سسٹم کی جڑیں ہیں وہ بھی بلاول بھٹو کے لئے چیلنج ہیں۔ جمہوریت کی گاڑی میں پنکچر ڈالنے کی کوششیں ہونگیں۔ صدر زرداری کے آنے کے بعد مولانا فضل الرحمان بھی ٹریک پر آجائیں گے۔ جبکہ انکے حریف محمود خان اچکزئی بھی صدر زرداری کی سپر مین سیاست اور جمہوریت کے لئے حکومتی ٹیم میں آسکتے ہیں۔ نواز شریف بھی گیم چینجر کا رول صدر زرداری کے ساتھ ملکر ہوں گے۔ نواز شریف کی کوششوں سے سعودی عرب اور دوست ممالک بالخصوص چین اہم کردار ادا کریں گے۔ صدر زرداری کے آنے سے ایران اور پاکستان کی گیس پائپ لائن اور بجلی کے مسئلے حل ہوں گے۔ یہ کام وہ اپنے صدارتی پہلے ٹرن اور میں کرگئے تھے جسے ن لیگ نے ؤگے نی بڑھنے دیا اگر یہ ہوجاتا تو آج گیس اور پٹرول کے مسائل اور مہنگائی کی یہ حالت زار نہ ہوتی۔ ملک میں وزارت خارجہ کے لئے بلاول بھٹو سے بہتر کوئی نہیں۔ ن لیگ کو پی پی پی کو منانے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ صدارتی الیکشن کے بعد برف پگھلے گی۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ساتھ جے یو آئی بھی حکومت کا حصہ بن سکتی ہے۔
کالم نویس محمد رضوان خان