#کھاد_بحران_کسان_پریشان


کسانوں کو یوریا کی قلت کی وجہ سے بہت پریشانی لاحق ہے۔ یوریا ایک اہم کھاد ہے جو گندم، چاول، گنے اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یوریا کی قلت سے کسانوں کو اپنی فصلوں کو کھاد دینے میں مشکلات جس سے پیداوار میں کمی کا خطرہ ہے

#کھاد_بحران_کسان_پریشان
===================

بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 4 روپے 66 پیسے اضافے کا امکان
نومبر کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی درخواست دائر‘ صارفین پر 40 ارب سے زائد بوجھ پڑے گا

بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 4 روپے 66 پیسے اضافے کا امکان

اسلام آباد ( 20 دسمبر 2023ء ) بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 4 روپے 66 پیسے اضافے کا امکان ظاہر کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق سی پی پی اے نے قیمتوں میں اضافے سے متعلق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی میں درخواست دائر کر دی ہے، اس درخواست پر 27 دسمبر کو نیپرا میں سماعت ہوگی، سی پی پی اے کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی درخواست نومبر کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں دائر کی گئی ہے، نیپرا کی بجلی کے فی یونٹ قیمتوں میں 4 روپے 66 پیسے اضافے کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 40 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔
بتایا جارہا ہے کہ بجلی صارفین کی جیبوں سے اربوں روپے نکالنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، بجلی کی کمپنیوں کی آپریشنل لاگت صارفین سے وصول کرنے کی سی پی پی اے کی درخواست پر نیپرا سماعت کرے گا کیوں کہ نیپرا میں 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ ماہانہ آپریشن فیس وصول کرنے کی درخواست کی گئی ہے، ملازمین کو دیئے گئے قرض کے 8 کروڑ 80 لاکھ روپے بھی صارفین سے لیے جائیں گے، انتظامی اخراجات پر ٹیکس کے 6 کروڑ روپے بھی صارفین بھریں گے۔

جس میں سی پی پی اے کا کہنا ہے کہ رقم بجلی کی کمپنیوں کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں شامل کی جائے، آپریشنل فیس میں کمپنیوں کی انتظامی لاگت، انشورنس اور دفاتر کے اخراجات شامل ہیں، انتظامی لاگت اور اخراجات کی مد 2 ارب 14 کروڑ روپے وصول کیے جائیں گے۔ دوسری جانب ملک میں بجلی پیدا کرنے والے نجی پاور پلانٹس کو بنا کسی حساب کتاب کے بھاری ادائیگیاں کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، دنیا نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ ناصرف پاور پلانٹس کو بنا کسی منظم حساب کتاب کے بھاری ادائیگیاں کی گئیں، ساتھ ساتھ صارفین سے بجلی کی قیمتوں پر بغیر حساب کتاب ٹیکسز بھی وصول کیے گئے، مہنگی بجلی والے تخمینے کا نظام اندازوں پر مبنی ہے، جب کہ نیپرا کے پاس بجلی گھروں کو کی جانے والی ادائیگیوں کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے، سی پی پی اے اور دیگر اداروں کی جانب سے پاور پلانٹس کو اندازوں پر کیپسٹی پے منٹس کی جاتی رہیں۔
یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ کئی سالوں سے پاور پلانٹس کی قابل استعمال کیپسٹی اور ہیٹ ریٹ کا ٹیسٹ نہیں ہوا، ہیٹ ریٹ ٹیسٹ قواعد و ضوابط میں پھنسنے کے ڈر سے نہیں کروائے گئے جب کہ قانون کے تحت پلانٹس کے ہیٹ ریٹ اور قابل استعمال کیپسٹی کے ٹیسٹ ہونا لازمی ہیں، 3 سے 6 ماہ کے اندر پاور پلانٹس کے ٹیسٹ کرانا لازمی ہوتا ہے، اس حوالے سے سی پی پی اے نے ذمہ داری پوری نہیں کی۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC