معیشت میں مسکراہٹوں کی تجارت اور امیدوں کی دولت بھی اہم ہے

اعتصام الحق ثاقب
=============


امریکی ریاست سان فرانسسکو میں ایپیک کا اجلاس یقینا دنیا کے لئے اہم ہے لیکن شاید اس سے زیادہ اہم یہ خبر رہی کہ چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت سان فرانسسکو میں ملاقات کریں گے۔یہ خبر کیوں اہم رہی اور یہ ملاقات کیوں اہم ہے؟یہ بات د نیا جانتی ہے۔دنیا کی دو بڑی معیشتیں اپنی اپنی حیثیت میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور ان کا آپس میں تعلق دنیا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔دنیا یقینا اس ملاقات سے خوش ہے کیوں کہ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ عالمی معیشت میں وہ کسی دھڑے بندی کا شکار ہو یا اس بڑھ کر یہ خیال بھی اہم ہے کہ کورونا وبا کے بعد عالمی معیشت کی بحالی میں سستی سے اس وقت جو مسائل دنیا کو درپیش ہیں ان میں مزید اضافہ ہو۔
چینی صدر نے امریکی صدر کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے ایپیک اجلاس میں شرکت اور دونوں ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے 14 نومبر کو جب چین سے اڑان بھری تو اس اڑان کے ساتھ دنیا کی توقعات نے بھی اپنی اڑان لی۔سان فرانسسکو پہنچنے پر صدر شی جن پھنگ کا پر تپاک استقبال کیا گیا تو مسکراہٹوں کے تبادلے میں عالمی معیشت بھی امید کی مسکراہٹ لئے ہوئے تھی۔سان فرانسسکو میں موجود چینی شہریوں نے سڑک کے دونوں اطراف کھڑے کو کر انہیں خوش آمدید کہا۔عوامی جوش و خروش دیدنی تھا لیکن دنیامنتظر تھی ایک سال بعد ہونے والی سربراہ ملاقات کی ۔16 نومبر کی سہ پہر چینی صدر کا قافلہ سان فرانسسکو سے 40 کلومیٹر دور کنٹری ہاؤس فیلولی اسٹیٹ پہنچا تو امریکی صدر جو بائڈن صدر شی کے استقبال کے لئے موجود تھے۔دونوں سربراہان مملکت نے آگے بڑھ کر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور میڈیا کے لئے کچھ دیر دروازے پر قیام کیا ۔
دنیا میں کئی بڑے ممالک ہیں جن کی تاریخی ،تزوایراتی اور معاشی حیثیت مسلمہ ہے ۔ان ممالک کے سربراہان کو دیکھ کر دنیا اندازہ لگاتی ہے کہ ان ممالک کا “امیج” اور ان سربراہان کا وژن کیا ہے۔چین اور امریکی صدر نے جب گاڑی کے پاس ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور چلتے ہوئے عمارت کے دروازے تک گئے تو اندازہ ہوا کہ واقعی دو بڑے ممالک کے سربراہان اپنی اپنی حیثیت میں تجربہ کارہیں اور زندگی اور بین الاقوامی تعلقات کی اوینچ نیچ سے گر چکے ہیں۔ان کے قدم نپے تلے اور چہروں پر مسکراہٹ کے ساتھ دنیا بھر کی ذمہ داری نمایاں تھی۔ سربراہی اجلاس میں دونوں جانب سے مختصر وفود نے بھی شرکت کی۔اس اجلاس سے پہلے چینی صدر شی جن پھنگ نے ایک مختصر مگر جامع تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ چین اور امریکہ کی تاریخ، ثقافت، سماجی نظام اور ترقی کے راستے مختلف ہیں۔صدر شی کے یہ کلمات اس لئے اہم ہیں کیوں کہ اختلافات یا فرق کو جان کر اور سمجھ کر اس کے ساتھ چلنا آسان ہوتا ہے۔امریکی اور چینی ثقافت،تاریخ اور سماجی و ریاستی نظام یکسر مختلف ہے تو اس فرق میں لکیر کے دونوں اطراف ایک تواز ن کا ہونا بھی ضروری ہے۔ چین کے صدر کی اس بات میں صداقت ہے کہ اسی توازن اور فرق کے ادراک سے دونوں ممالک ایک دوسرے کا احترام کر یں ،امن کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہیں اور باہمی تعاون کو آگے بڑھائیں تو اختلافات سے بالاتر ہوکر دونوں بڑے ممالک باہمی طور پر تعلقات کی درست سمت متعین کر کے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک اس کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جیسا کہ خود صدر شی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا۔
چین کے صدر نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ان کی اور صدر بائڈن کی بالی میں ہونے والی ملاقات کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران دنیا میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔جیسے دنیا کورونا کی وبا سے چھٹکارا پا کر معاشی بحالی کی جانب گامزن ہے لیکن یہ رفتار ابھی سست ہے۔شی جن پھنگ نے صنعتی اور رسد کی زنجیروں میں تعطل کے خطرے اور تحفظ پسندی کو سنگین مسائل قرار دیا۔چین کے صدر نے اس بات کی بھی شاندہی کی کہ چین اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ 50 سالوں سے زائد عرصے میں مستقل ہموار نہیں رہے اور انہیں کسی نہ کسی مسائل کا سامنا رہا ہے لیکن یہ پھر بھی آگے بڑھتے رہے ہیں ۔یہ بات یقینا حوصلہ افزا ہے۔دنیا اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کو صرف دو ممالک کے طور پر نہیں بلکہ دنیا کے فائدے کے وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے تا کہ اس سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ انسانیت کی بہتری کے لئے کام کیا جا سکے
چینی صدر کے افتتاحی کلمات میں دلچسپ امر اس بات کی عکاسی تھا کہ دونوں ممالک کے لئے ایک دوسرے کو نظر انداز کرنا اور ایک دوسرے سے دور ہونا ممکن نہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ دونوں کی تاریخ،ثقافت،جغرافیائی حالات کو تبدیل کر دیا جائے اور انداز فکر میں فوری اور ڈرامائی تبدیلی کا تقاضہ کیا جائے ۔ایسے میں یہ خیال واقعی حقیقت پسندانہ اور وسیع وژن رکھتا ہے کہ تنازعات اور محاذ آرائی کے نتائج دونوں ملکوں کے لئے ناقابل برداشت ہیں ۔
جیت جیت تعاون کا نظریہ چین کی کامیاب سفارتکاری اور عالمی فلاح و بہبود کے لئے پیش کئے جانے والے عالمی امن ،عالمی سلامتی ،عالمی تہذیب اور عالمی ترقی کے چینی اقدامات میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے ۔یہ نظریہ صاف اور وا ضح انداز میں یہ تصور دیتا ہے کہ ممالک اور خطوں کے مابین مسابقت کی دوڑ میں مثبت سوچ یہ نہیں کہ ایک دوسرے کو گرا کر ،یا شکست دے کر جیت حاصل کی جائے بلکہ دوسرے کی جیت میں حصہ ڈال کار بھی اپنی جیت کا جشن منایا جا سکتا ہے ۔اسی نظریے کی بنیاد پر صدر شی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ زمین اتنی بڑی ہے کہ امریکہ اور چین دونوں اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور ایک کی کامیابی دوسرے کے لئے موقع ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ شی جن پھنگ کے ساتھ ملاقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے نزدیک دونوں رہنمائوں کا ایک دوسرے کو واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مسابقت تنازعات میں تبدیل نہ ہو اور اسےذمہ داری سے منظم کرنا ہوگا۔امریکی صر جو بائیڈن نے دنیا کو درپیش موجودہ چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے لے کر انسداد منشیات اور مصنوعی ذہانت اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ دونوں جانب سے ان پر مشترکہ کوششیں کی جائیں ۔
مسربراہی اجلاس کا اختتام ہوا تو امریکی اور چینی صدر نے کچھ گفتگو باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے بھی کی ۔اس طرح کا انداز ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے میں یقینی طور پر مدد دیتا ہے ۔ملاقات کا اختتام بھی ملاقات کے آغاز کی طرح گرمجوشی سے ہوا ۔شی جن پھنگ اور ان کی گاڑی تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ آنے والے امریکی صدر جوبائڈن نے ایک بار پھر مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا اور یوں دنیا کی دو بڑی معیشتوں نے مسکراہٹوں کی تجارت میں امیدوں کے زر کا اندیکھا معاہدہ کیا۔
=================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC