عوام مزید بدحال


ڈاکٹر توصیف احمد خان
=================

نگراں حکومت ماضی کی حکومتوں کی روش پر چل رہی ہے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ کرنے کو تیار نہیں ہے، مگر حکومت نے اعلیٰ ترین انتظامی افسران ایم پی ون اور ایم پی ٹوکی تنخواہوں میں 54 فیصد اضافہ کردیا ہے۔

عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کو توقع تھی کہ 31 اکتوبرکو حکومت تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کرے گی لیکن حکومت نے اگلے 15 دن کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت پٹرولیم کے ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے مٹی کے تیل، لائٹ ڈیزل آئل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں معمولی کمی کی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 3.82 روپے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 3.40 روپے فی لیٹرکی کمی کی گئی ہے۔

پٹرولیم کی وزارت نے واضح کیا ہے کہ اگلے 15 دن تک پٹرول کی موجودہ قیمت برقرار رہے گی۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں تقریباً 17 روپے فی لیٹرکی کمی ممکن تھی مگر 29 اکتوبر کو پٹرول کے کارگو کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کی کلیئرنگ نہ مل سکی۔

حکومت نے گزشتہ ہفتے گیس کی قیمتوں میں 195 فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ نگراں وزیر توانائی محمد علی نے حساب لگا کر دعویٰ کیا ہے کہ گیس کا گھریلو بل زیادہ سے زیادہ 1300 روپے آئے گا۔ وزیر موصوف کا یہ مفروضہ ہے کہ گیس کے نرخ میں اضافے سے غریب صارفین پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ انھوں نے اپنے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے 76 برسوں سے وزراء کے اس بیانیہ کا سہارا لیا کہ یہ اضافہ قومی مفاد میں کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت 2018میں برسراقتدار آئی تھی تو اپنے ساتھ مہنگائی لائی تھی۔ پہلے اسد عمر معیشت کو سدھارنے پر معمور ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ آئے اور پھر شوکت ترین نے کمانڈ سنبھال لی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بطور وزیر اعظم شام کو ٹی وی کی خبریں ضرور دیکھتے تھے۔ انھیں ٹی وی کی خبروں سے پتا چلا کہ روپے کی قیمت کم کردی گئی ہے۔

اس فیصلے سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان تیز ہونا شروع ہوا۔ پٹرولیم مصنوعات، کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر ادویات کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی ہر تقریر میں عوام کو یہ دلاسے دیتے رہے کہ ’’ گھبرانا نہیں ہے‘‘ پھر آئی ایم ایف کا قرضہ لینے سے بہتر خودکشی کا دعویٰ کرنے والے سابق کپتان نے یہ قرضہ بھی لیا، مگر پی ٹی آئی حکومت نے ریاستی ڈھانچہ کم کرنے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بھارت سے تجارت پر پابندی لگا دی، یوں بھارت سے دالوں، سبزیوں اور ادویات وغیرہ کی درآمد سے قیمتوں میں جو استحکام ہوسکتا تھا، عام آدمی اس سے محروم ہوا۔

میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ امریکا سے اچھی طرز حکومت کے مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آنے والے مفتاح اسماعیل نے معیشت کوکچھ بہتر کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ، درآمدی اشیاء کم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

انھوں نے بھارت سے تجارت کی تجویز بھی دی بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ اگلے دنوں میں اس بارے میں نوٹیفکیشن کا اجراء ہوگا، مگر یہ نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا۔ انھوں نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے بجلی،گیس اور پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی واپس لے لی اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں کو بین الاقوامی مارکیٹ سے نتھی کیا، یوں بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے لگیں مگر لندن میں مقیم مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف، مفتاح اسماعیل سے ناراض ہوگئے اور اپنے قریبی عزیز اسحاق ڈار کو بھیجا ۔

ان کی جانب سے معیشت کی بحالی کے لیے جتنے دعویٰ کیے گئے وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ پی ڈی ایم حکومت میں وزارت تجارت کا قلمدان پیپلز پارٹی کے نوید قمر کے پاس تھا۔ انھوں نے درآمدات پر پابندی کی سخت مخالفت کی، یوں جانوروںکی خوراک، کاسمیٹکس اور لگژری گاڑیوں کی درآمد پر عائد پابندی ختم ہوئی، مگر اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو رام نہ کرسکے۔

ملک میں زرمبادلہ کا سنگین بحران پیدا ہوا۔ ڈالرکی قیمت بہت بڑھ گئی جس کے نتیجے میں افراطِ زرکی شرح 35 فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس اقتصادی بحران سے سب سے پہلے ٹیکسٹائل کا شعبہ متاثر ہوا۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں میں کارخانے بند ہونے لگے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے۔

یہ معاملہ محض ٹیکسٹائل کی صنعت تک محدود نہ رہا، ادویات کی صنعت، بینکنگ انڈسٹری اور سروس فراہم کرنے والے اداروں میں کارکنوں کی چھانٹی کردی گئی، مارکیٹ سے ادویات لاپتہ ہوگئیں۔ جان بچانے والی ادویات مثلاً انسولین وغیرہ ڈالر کے بحران کی بناء پر بازاروں سے لاپتہ ہوگئیں۔ یہ بحران ابھی تک جاری ہے۔

آخرکار آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے سارا بوجھ نچلے متوسط اور غریب طبقہ پر ڈال دیا گیا۔

ملک میں معاشی حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ حج کوٹہ کے لیے پہلی دفعہ قرعہ اندازی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور حج کوٹہ کے لیے مطلوبہ تعداد میں عازمین نے رجوع نہیں کیا، یوں اسحاق ڈار کو ناکام ترین وزیر خزانہ کا لقب دیا گیا، مگر شہباز شریف کی حکومت نہ تو بھارت سے تجارت پر پابندیاں ختم کر پائی نہ انفرا اسٹرکچر کوکم کرنے کے لیے کچھ ہوسکا۔

آصف زرداری جنھوں نے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے میاں شہباز شریف کا نام تجویزکیا تھا نے یہ اقرارکیا کہ اتحادی حکومت عوام کوکچھ نہ دے سکی ۔

نگراں حکومت نے اگرچہ کرنسی اسمگلنگ کو توڑنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں مگر نگراں وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں سے محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری اداروں کے اخراجات میں کمی کے لیے کچھ نہیں ہوا۔

صوبائی حکومتوں نے مزدوروں کی کم ازکم اجرت کا تعین توکیا ، مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کراسکیں۔ سندھ گورنمنٹ نے گزشتہ روز اس بارے میں آخرکار نوٹیفکیشن جاری کیا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 32 فیصد تھی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد یہ شرح 26 فیصد تک آگئی ہے، عوام میں مستقل مایوسی ہے۔ ان کا سرکاری اداروں سے اعتماد ختم ہوگیا ہے۔

آئی ایم ایف کی سربراہ بار بارکہتی ہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں اور غریبوں پر سے ٹیکس کم کیے جائیں مگر کوئی اس معقول بات پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں خودکشی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

نگراں حکومت تیل کی قیمتوں میں مزید کمی کر کے عوام کو جو سہولتیں دے سکتی تھی، اب یہ سہولت بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔ عوام کے پاس مزید بدحالی کا شکار ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

https://www.express.pk/story/2562858/268/
==================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC