الیکشن کی تاریخ کا اعلان، غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ


ڈاکٹر توصیف احمد خان
===================
سپریم کورٹ کی مداخلت پر 8 فروری کو پولنگ کی تاریخ طے ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے صدر عارف علوی آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے کا ذمے دار ہے۔ اس بے یقینی کی فضاء کے اثرات ملک کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال پر پڑرہے ہیں۔ ملک کے دو صوبے خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔

خیبرپختون خوا کے علاقہ کرم ایجنسی میں گزشتہ ایک ماہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ دونوں متحارب گروپ بھاری اسلحہ استعمال کررہے ہیں۔ کرم ایجنسی کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی مشینری یا تو بے بس ہے یا اس صورتحال کو برقرار رکھنے کو اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ کرم ایجنسی کی ضلع انتظامیہ نے جرگہ کے ذریعہ متحارب گروہوں میں جنگ بندی کی کوشش کی ہے مگر جرگہ کے فیصلہ پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔
ڈومیل ضلع بنوں میں دو ماہ قبل ایک واقعہ ہوا۔ علاقہ کی غریب خواتین بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد لینے جاتی تھیں۔ علمائے کرام نے فتویٰ دیا کہ کوئی عورت محرم کے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی۔ علاقہ کے روشن خیال لوگوں نے اس پابندی کے خلاف سیمینار کرایا۔ اس سیمینار میں پروفیسر شیر علی بھی شریک تھے۔

انھوں نے اپنے جامع لیکچر میں خواتین کی برقعہ اور پردہ کے بغیر باہر نکلنے کا دفاع کیا اور برقعہ اور پردہ کو غیر پختون روایت قرار دیا۔ انھوں نے اپنے لیکچر میں ڈارون کے نظریہ کے ارتقاء کا حوالہ دیا۔ پروفیسر شیر علی کو ڈپٹی کمشنر نے دفتر بلایا اور ایک حلف نامہ پر دستخط کرائے گئے کہ وہ آیندہ ان باتوں سے اجتناب کریں گے۔

اسی طرح بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال روزبروز خراب ہورہی ہے ۔ روزانہ دہشت گردوں کے مارے جانے، سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔ کوئٹہ میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی یہ رائے ہے کہ کوئٹہ کی میونسپل حدود کے علاوہ صوبائی حکومت کی بھی کہیں رٹ نظر نہیں آتی۔ سندھ اور پنجاب میں امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔

معیشت کی صورتحال حکومتی دعوؤں کے باوجود بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کے باقی ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے لیے مطلوبہ فنڈز موجود نہیں ہیں۔ وفاق کے تحت کام کرنے والی یونیورسٹیاں بھی شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ قومی ایئر لائن پی آئی اے شدید معاشی بحران سے نبرد آزما ہے۔

وفاقی حکومت کی ایوی ایشن کی وزارت کے افسران پی آئی اے اور پی ایس و کے درمیان تیل کی فراہمی کا نیا نظام قائم کرانے میں ناکام ہوچکے ہیں، یوں گزشتہ 15 دن میں درجنوں پروازیں منسوخ کی گئی ہیں جس سے پی آئی اے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم کے ایوی ایشن کے مشیر نے کئی اجلاس کیے ہیں مگر پی آئی اے کا فلائٹ شیڈول بحال نہ ہوسکا۔

ایف آئی اے کے مسلسل چھاپوں اور طورخم اور چمن کی چوکیوں پر سخت اقدامات کے باوجود کرنسی کی قیمت کم نہیں ہوپارہی ہے۔ ایک یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف نگراں حکومت نے اپنی حدود سے تجاوز کرنا شروع کردیا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں تقریباً 190 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ موسم سرما میں گیس دستیاب نہیں ہوگی۔

نگراں حکومت نے قومی اداروں کی نجکاری کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا ہے۔ دستیاب حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پی آئی اے سمیت کئی اہم اداروں کو فروخت کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان میں جتنے ادارے حکومتوں نے فروخت کیے ان کے مثبت نتائج سے عوام مستفید نہیں ہوئے۔

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC )کی فروخت سے کراچی میں بجلی کی فراہمی کا معاملہ زیادہ سنگین ہوا۔کہا جا رہا ہے کہ اسٹیل مل کی خریداری میں چینی فرم نے دلچسپی کا اظہار کیا تھا مگر یہ معاملہ رک گیا۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اسٹیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے چینی کمپنی کی دلچسپی ختم ہوگئی مگر حقیقی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اس غیر یقینی صورتحال میں سرمایہ کاری کا رسک لینا نہیں چاہتے۔

نگراں حکومت کسی صورت قومی اثاثوں کو فروخت کرنے کا قانونی حق نہیں رکھتی۔ اس حکومت نے سرکار ی ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن میں نقب لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سارا زور غریب ملازمین پر لادا جارہا ہے۔

پنجاب کی حکومت سرکاری اسکولوں کو ٹھیکہ پر دینے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ اس پر احتجاج کرنے والے اساتذہ کو ہفتوں جیل میں مقید رکھا گیا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں۔ پہلے تو اسی طرح کی شکایات بلوچستان، خیبر پختون خوا اور سندھ سے آتی تھیں، اب پنجاب میں بھی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اپنی رپورٹوں میں تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔

دوسری طرف سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ کے بارے میں متضاد آراء کا اظہار کررہی ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے مینارِ پاکستان کے خطاب میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا ذکر نہیں کیا۔ مسلم لیگی اکابرین ماضی میں نہ ملنے والے لیول پلیئنگ فیلڈ کو جواز بنا کر پھر انتخابات کی فوری تاریخ کے انعقاد پر زور نہیں دے رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن بار بار کہتے تھے کہ انتخابات ملتوی کردینے چاہئیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ملک میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اب یقیناً ختم ہوجائے گی۔

اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے 8 فروری کو انتخابات کروانے کی تاریخ کا خیرمقدم کیا ہے، مگر تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے وکلاء نے انتخابات کی تاریخ نہ دینے کی ذمے داری صدر عارف علوی پر عائد کی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ صدر نے اپنی ذمے داریوں سے انحراف کیا ہے۔

https://www.express.pk/story/2561121/268/
=================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC