احسان کا بدلا سلجوق۔ دنیا کی واحد کنواری ماں کا گھر ۔ “اسلامبول سے استنبول” انتساب۔

صاحبو!
پچھلے صفحات میں آپ نے پاموکالے اور ہیراپولس کے بارے میں پڑھا، آج آپ کو ایفیسس کے بارے میں معلومات دوں گا جو طویل بھی ہے، روحانی بھی اور گہری بھی۔ ترکیہ تہذیبوں کا آمین اور ہیریٹج کے وسیع خزانے کا مرکز ہے۔ جہاں قدیم تہذیبوں اور شہروں کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ آنہی اجڑے ہوئے شہروں اور بستیوں کے نزدیک نئے اور ماڈرن شہر آباد ہو چکے۔ ترکیہ حکومت ان تباہ حال شہروں کے کھنڈرات اور ملبے کو بھی محفوظ رکھا ہوئے ہے۔ یعنی ترکیہ میں دو تہذیبیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔غاروں کے زمانے کی تہذیب اور اب جدید سائنسی دور میں ترقی یافتہ شہر، اجڑی تہذیب و ثقافت کے کھنڈرات اور اس کے ساتھ آج کی دنیا، غضب یہ کہ انہی نگوڑی اور برباد تہذیبوں کے برابر میں چمکتے، دھمکتے نئے شہر آباد کئے گئے ہیں۔ اہل ترکیہ اس پر فخر کرتے ہیں اور اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ اب یہ کھنڈرات ترکیہ کی قومی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن چکے۔ ان تباہ شدہ بستیوں میں انتظام و انصرام کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کتنے عظیم لوگ ہوئے ہوں گئے جنہوں نے شہر بسائے اور ایسے شہر کہ جہاں آج کی ماڈرن سہولتوں جیسی ضروریات زندگی مہیا کی، اپنے وقت میں عظمت پر گئے اور پھر امر ہو گئے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس وقت ٹیکنالوجی نہیں تھی، یہ سنگ تراشی اور بھاری پتھروں کو بلندی تک پہنچانا۔ پتھروں پر اتنا پکا رنگ اور کشیدہ کاری کہ ہزاروں سال بعد بھی تازہ لگتی ہے۔ سیوریج کا ایسا نظام کہ آج بڑے شہروں میں ناپید ہے اور اس کی انجنیئرنگ ایسی کہ اس کو دیکھ کر آج کا انجینئر شرمائے۔ ان اجڑے شہروں میں وہ ساری سہولتیں جو آج کے جدید شہروں میں ہیں، کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح وہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہوں گئے۔ آج 25 جولائی 2023ء ہے اور ہم آپ کو ترکیہ کی ایک اور تہذیب کے بارے میں بتاتے ہیں جو پرانی تہذیب و تمدن کی نئی نئی جہتیں اپنے اندر سموئی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں دنیا کا عجوبہ مندر، کئی چرچ، لائبریریاں، حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری سینٹ جان، اصحاب کیف کے مزارات اور حضرت مریم کا گھر بھی موجود ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے اپنی تصنیف ” ترکی ہی ترکی” میں اس وادی کے حوالے سے لکھا کہ ” یہی وہ شہر ہے جہاں اصحاب کیف ایک عرصے تک محو خواب ریے۔ جہاں حضرت مریم نے آخری پناہ لی۔ یہاں ہی سینٹ جان نے مسیحیت کا پہلا پیغام دیا” فرخ سہیل نے اس وادی کا نام سلجوق بتایا لیکن طاہر انور پاشا نے اپنے سفرنامہ، ” ترکی میں پاشا” میں اس قدیم شہر کا نام ایفیسس لکھا، ترکوں نے اس کو مختصر کر کے ایفس (Efec) کر دیا۔ میں طاہر انور پاشا سے متفق ہوں جو سفر نامہ لکھنے کئی بار ترکیہ گئے، ان کے مطابق اس وادی کا نام ایفیسس ہی تھا۔ اب آپ ترکوں کی طرح مختصر کر کے ایفس کریں یا اس تہذیب اور ورثہ کو اصل نام سے یاد کریں، میں تو ایفیسس ہی لکھتا ہوں۔ سلجوقوں کی خلافت کا زمانہ اس شہر خاموشاں سے ہزاروں سال بعد کا ہے قبل مسیح میں کسی شہر کا نام سلجوق کیوں کر رکھا جا سکتا ہے۔ سلجوق اس وادی سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں سیاحوں کے طعام و قیام کے بہترین انتظامات ہیں۔ چوں کہ کوش آداسی یہاں سے 30،40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لہذا سیاح کی اکثریت کوش آداسی میں قیام پسند کرتی ہے، تاکہ رات رنگین اور شام کو سمندر کی لطافت کے مزے حاصل کئے جائیں۔ کوش آداسی میں ہمارا دوسرا روز ہے، آج ہمیں ایفیسس جانا ہے لیکن اس سے قبل وادی سلجوق کے ایک ریسٹورنٹ میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام ہے۔ ترکیہ کے ہر ریجن کے کھانوں میں کسی ایک ڈش کا اضافہ ہوتا ہے اور اضافی ڈش اسی ریجن میں ہی ملتی ہے۔ آج کون سی اضافی ڈش ملتی ہے اس کا اندازہ دوپہر ہی کو یو گا۔ دن گیارہ بجے سلجوق شہر اور ایک بجے ریسٹورنٹ میں پہنچے۔ سلجوق کا علاقہ ہمارے پٹھوار جیسا ہے، نہ زیادہ بلند پہاڑ اور نہ زیادہ میدان ، جنگلات بھی ایسے کہ بلند و بالا درخت نہیں بلکہ ہریالی اور سبزہ، درخت اتنی ہی بڑے کہ جو سب سے بڑا ہے چھ آٹھ فٹ سے زیادہ بلند نہیں اس طرح کے جنگلات آپ کے ویو کا راستہ نہیں روکتے چناں چہ جہاں بلندی پر ہوتے ہیں دورے کے نظارے بھی مل جاتے ہیں، ہم نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ یہاں کی خوب صورتی دیکھنے کے لیے صرف کر دیا۔ ریسٹورنٹ کے سامنے ایک وسیع میدان ہے جہاں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں۔ ہم گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر کے ریسٹورینٹ کے لیے روانہ ہوئے تو اچھا خاصا پیدل چلنا پڑا۔ کھانے کے ساتھ آئران کا استعمال خوب ہوتا ہے، ہم نے بھی دو گلاس ترک لزیز لسی اور کچھ کھانے کی لذت سے لطف اٹھایا اور ریسٹورنٹ سے باہر نکلنے کی تیاری کی۔ ریسٹورنٹ کے ایک حصہ میں ایفیسس کے اثار قدیمہ کے ماڈل، کتابچے اور دیگر تحفہ جات رکھے ہوئے ہیں کہ سیاح کھانے سے فارغ ہو کر ان سے شغل فرمائیں اور جو پسند آئے بڑے شہروں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدیں۔ سیاح تو پاغل ہی ہوتا ہے زر خاص خرچ کر کے نگر نگر گھومتا ہے اور لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے۔ کچھ پاغلوں کو اس دوکان ہائے سامان بوسیدہ سے کچھ نہ کچھ خریدتے دیکھا۔ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے، آثار قدیمہ کے نمونوں کی اس دوکان میں گھس گیا۔ ایفیسس کی تاریخ پر مبنی کتابچہ خریدنے کے لیے اٹھایا تو قیمت سن کر واپس رکھ دیا۔ جب میں نے واپس رکھا تو دوکان دار نے میرے لیے خاص طور پر 5 ڈالر رعایت کر دی۔ مجھے تو ریاعیتی قیمت 30 ڈالر بھی زیادہ لگی، لیکن میں نے اس کے اصرار پر دیکھنا پسند کیا، کہ اس میں ہے کیا، ایفیسس کی رنگین تصویریں اور تقریبا وہ سارا مواد جو مجھے گزشتہ دو ماہ سے پڑھ، پڑھ کر یاد ہو چکا۔ دیکھنے میں تو بہت خوبصورت اور ایفیسس کی تاریخ بھی تھی اس میں، لیکن مجھے لگا کہ یہ میرے سامان کے وزن اور پاکستان میں گھر کی ردی میں اضافہ کرے گا، جیسے دیگر کتابیں ہیں۔ اس آخری عمر میں کتابیں خرید کر کیا کرنا، جو پہلے ہیں وہ تو ردی ہی میں جائیں گی۔۔ جیسے کہ میرے پیش رو کتاب دوستوں کے علمی خزانے کا حشر ہوا، میری لائبریری کے ساتھ بھی وہی ہونا کہ آج کل تو مفت بھی کوئی کتاب نہیں لیتا۔ میں نے دوکان دار کا شکریہ ادا کیا کتاب رکھی اور ریسٹورنٹ سے باہر نکل آیا، کاڑی میں بیٹھنے والا میں آخری مسافر تھا۔ دوسرے ساتھیوں سے سوری کہا تو ایک ساتھی نے حوصلہ بڑھایا کہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں بڑی شہروں میں ٹریفک جام میں تاخیر ہونا معمول بن چکا۔ بات سے بات نکلی اور دور تک چلی گئی۔ ہم آج ایفیسس کے مسافر ہیں اور پھنس گئے سلجوق میں اب ہماری گاڑی سلجوق اور کوش آداسی ملانے والی شاہراہ پر تیزی سے دوڑ رہی ہے۔ ایفیسس پہنچنے میں اب زیادہ تاخیر نہیں جہاں دنیا کی سات قدیم عجائبات میں سے ایک آٹیمس مندر بھی ہے۔ یہ شہر سلجوق سے لگ بھگ دو کلومیٹر دور ہے۔ 1914 کو سلجوق کا نام عثمانیوں نے اپنی پہلی حکمران نسل سلجوق کے نام پر رکھا۔ اس وقت تو اس ٹاون میں کوئی دوکان بھی نہیں ہوئی ہو گی۔ لیکن عثمانیوں نے سلجوقوں کے آبائی ٹاون کا نام ان سے منسوب کر کے احسان کے بدلے میں یہ کارنامہ ہائے عظیم انجام دیا۔ سلجوق خلیفہ نے ان کے جد امجد ارتغرل کو سرداری عطا نہ کی ہوتی تو یہ عظیم الشان سلطنت عثمانیہ وجود میں کیسے آتی۔ سلجوق بارھویں صدی میں اسی ٹاون میں آباد رہے جہاں آج ہم دوپہرے کے کھانے کے بعد اس دوکان میں سلجوقوں کی باقیات دیکھ رہے تھے۔ جب تک دنیا کے سیاح اس ٹاون اور اس سے ملحق وادی ایفیسس میں آتے رہیں گے سلجوقوں کے بارے میں پڑھتے اور سنتے رہیں گے۔ ایفیسس کا صدر دروازہ اسی کشادہ سڑک کے کنارے پر واقع ہے جو سلجوق اور کوش آداسی کو ملاتی ہے۔ اس سے آگئے ایک سڑک حضرت مریم کے گھر کی طرف جاتی ہے جو یہاں سے چند کلومیٹر دور ایک سر سبز پہاڑی پر واقع ہے، عیسائی محققین اور مورخین کی تحقیق اور پوپ اور عیسائی مشینری کی مکمل چھان بین کے بعد اس کا سرکاری علان ہوا کہ روے زمین کی کنواری ماں آخری عمر اسی مکان میں قیام پذیر رہی۔ جس کی تفصیل بعد میں لکھی جائے گی۔
========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC