لیاقت پور کو ضلع کا درجہ کیوں نہیں دیا جا رہا

تحریر: وحید رشدی

لیاقت پور ضلع رحیم یار خان کا شمار رقبے و آبادی کے لحاظ سے جنوبی پنجاب کی بڑی تحصیلوں میں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سڑکوں، ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم کی ناکافی سہولتوں کی وجہ سے لوگوں کے لیئے کہیں آنا جانا جان جوکھوں کا کام ہے اور ضلع مرکز سے دوری کی وجہ سے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آئے روز سفری مشکلات اور مایوسی کا سامنا رہتا ہے تحصیل لیاقت پور کے چولستانی علاقے ٹھکو میں رہنے والے 90 سالہ میوہ کلر دل اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ایک دن طبعیت زیادہ بگڑنے پر اہلخانہ انہیں لیاقت پور کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال لے گئے جو اس علاقے سے 55 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کرنےکے بعد انہیں 100 کلومیٹر دور رحیم یار خانے کے شیخ زاید ہسپتال کو ریفر کر دیا جہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا میوہ کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اگر ان کے علاقے میں کوئی اچھا ہسپتال ہوتا یا لیاقت پور اور رحیم یار خان پہنچنے کے لئے بہتر سڑکیں موجود ہوتیں تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی لیاقت پور شہر سے 17 کلومیٹر دور چک 143 عباسیہ کے محمد خالد کو اپنی بیٹی کا ڈومیسائل بنوانے کے لئے کاغذات مکمل کرنے کی غرض سے لیاقت پور کے کئی چکر لگانا پڑے۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر آفس رحیم یار خان میں دستاویزات جمع کرانے، ان پر اعتراضات دور کرنے اور پھر ڈومیسائل وصول کرنے کے لیے انہیں کئی مرتبہ رحیم یار خان جانا آنا پڑا جس پر ان کا بہت سا وقت اور پیسہ خرچ ہو گیا ان کا ہنا ہے کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی سہولیات حاصل کرنے کے لئے بھی رحیم یار خان جانا پڑتا ہے۔ اگر ہمارے یہ کام لیاقت پور میں ہی ہو جائیں تو یہاں کے لوگ بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں تحصیل کی بیشتر بار ایسوسی ایشن لیاقت پور کے صدر سردار اسد نواز خان کا کہنا ہے کہ لیاقت پور کے عوام اور وکلاء کو اپنے ضلعی سطح کے مقدمات کی پیروی اور انتظامی مسائل کے حل کے لیئے رحیم یار خان جانا عذاب سے کم نہیں ضلعی ہیڈکوارٹر تک پہنچنے میں طویل وقت صرف ہوتا ہے۔ اگر اس تحصیل کو ضلع کا درجہ دے دیا جائے تو یہاں کی تقریباً 13 لاکھ آبادی کی بہت سی مشکلات ختم ہو جائیں گی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 255 کے سابق ایم پی اے رئیس محمد اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ لیاقت پور شہر کا اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹر رحیم یار خان سے فاصلہ 100 کلومیٹر ہے مگر جب کچے کے مواضع، عباسیہ کے چکوک اور چولستان کے ٹوبہ جات سے لوگ تکلیف دہ سفر کے بعد لیاقت پور پہنچتے اور یہاں سے ضلعی ہیڈکوارٹر جاتے ہیں تو یہ فاصلہ ڈیڑھ سے پونے دو سو کلومیٹر تک جا پہنچتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2002ء سے 2007ء کے دوران بطور رکن صوبائی اسمبلی انہوں نے لیاقت پور کو ضلع کا درجہ دلانے کی کوشش کی تھی مگر انہیں کامیابی نہ مل سکی لیاقت پور کو ضلع بنانے کا مطالبہ پچھلی چار دہائیوں سے جاری ہے۔ اس حوالے سے جدوجہد کرنے والی مقامی تنظیم ”ضلع بناؤ تحریک” کے چیئرمین سید شجر حسین نقوی نے جیوے پاکستان کو بتایا کہ شہر کے لوگوں نے اس سلسلے میں سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کیں بہت سے عوامی اجتماعات میں بھی لیاقت پور کو ضلع بنانے مطالبات کیے گئے ہیں اور بار ایسوسی ایشن و انجمن تاجران سمیت علاقے کی پیشہ وارانہ و سماجی تنظیموں کی طرف سے حکام کو قراردادیں اور خطوط بھی بھجوائے گئے مگر کسی نے اس مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا شجر حسین نقوی اس مطالبے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ننکانہ صاحب جیسی چھوٹی تحصیل کو بھی ضلعے کا درجہ دے دیا گیا ہے تو لیاقت پور کو ضلع بنانے میں کیا قباحت ہے۔ لودھراں کو اس وقت ضلع بنایا گیا جب اس کی آبادی بہت کم تھی اور اس کا اپنے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ملتان سے فاصلہ 70 کلومیٹر اور بہاولپور سے 15 کلومیٹر تھا۔ حافظ آباد جیسے چھوٹے شہر کو بھی اس لیے ضلعے کا درجہ مل گیا کہ وہاں کی سیاسی قوتیں زیادہ موثر تھیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے سیاسی معاون اور پی پی 256 سے تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے عامر نواز خان چانڈیہ نے 2018ء میں اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد ایوان میں اپنی پہلی تقریر میں لیاقت پور کو ضلع کا درجہ دینے کی قرارداد پیش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے پنجاب بورڈ آف ریونیو کے ذریعے کمشنر بہاولپور اور ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان سے اس بارے میں رپورٹ بھی طلب کر لی تھی لیکن اس دوران حکومت ختم ہو گئی۔اس رپورٹ میں لیاقت پور کو ضلع کا درجہ دینے کی صورت میں سب تحصیل خان بیلہ اور ضلع بہاولپور کے تاریخی قصبہ اوچ شریف کو اس کی تحصیلیں بنانے کی سفارش کی گئی تھی سابق تحصیل ناظم لیاقت پور اور پی پی 255 سے سابق ایم پی مخدوم سید مسعود عالم شاہ کا کہنا ہے کہ پنجاب کی متعدد تحصیلوں کو ضلعے کا درجہ دیا جا چکا ہے مگر لیاقت پور کو اہلیت کے تقاضے پورے کرنے کے باوجود نجانے کیوں ضلع نہیں بنایا جا رہا جو کہ افسوسناک ہے
==================================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC