دنیا بھر میں مدافعتی نظام میں خلل کی بیماری “لیوپس” کے 5 لاکھ مریضوں میں 90 فیصد نوجوان لڑکیاں یا خواتین ہیں اسلئے اسے خواتین کی بیماری سمجھا جاتا ہے، بد قسمتی سے دنیا بھر میں اس بیماری کی تشخیص کے لئے کوئی ایک ٹیسٹ موجود نہیں،

 دنیا بھر میں مدافعتی نظام میں خلل کی بیماری “لیوپس” کے 5 لاکھ مریضوں میں 90 فیصد نوجوان لڑکیاں یا خواتین ہیں اسلئے اسے خواتین کی بیماری سمجھا جاتا ہے، بد قسمتی سے دنیا بھر میں اس بیماری کی تشخیص کے لئے کوئی ایک ٹیسٹ موجود نہیں،======================

کراچی:دنیا بھر میں مدافعتی نظام میں خلل کی بیماری “لیوپس” کے 5 لاکھ مریضوںمیں 90 فیصد نوجوان لڑکیاں یا خواتین ہیں اسلئے اسے خواتین کی بیماری سمجھا جاتاہے، بد قسمتی سے دنیا بھر میں اس بیماری کی تشخیص کے لئے کوئی ایک ٹیسٹ موجود نہیں،بلکہ متاثرہ مریض کے مختلف ٹیسٹ اور علامات سے اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے، یہی وجہہے کہ اسکی تشخیص میں مشکلات ہوتی ہیں جس کا نقصان مریض کو ہوتا ہے۔ یہ مرض عموماً15 سے 50 سال کی خواتین کو لاحق ہوتا ہے۔ یہ باتیں “عالمی یومِ لیوپس” کےسلسلے میں شعبہ میڈیسن اور رہیوماٹولوجی کے زیر اہتمام ماہرین ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھسائنسز کے ڈیجیٹل لائبریری میں منی سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ اس موقع پر پروفیسرخالد محمود نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جبکہ ہیڈ آف میڈیسن ڈاؤ یونیورسٹی اسپتالپروفیسر افتخار احمد، ڈاکٹر تابع رسول، ڈاکٹر محفوظ عالم، ڈاکٹر طاہرہ پروین نےخطاب کیا۔   دیگر شرکاء میں پرنسپل ڈاؤانٹرنیشنل میڈیکل کالج ڈاکٹر زیبا حق، میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال پروفیسرجہاں آراء، پروفیسر فیصل فیاض زبیری، ڈاکٹر طارق فرمان اور ڈاکٹر زاہد اعظم بھیشامل تھے۔آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے پروفیسر خالد محمود نے اپنے کلیدی خطاب میںکہا کہ لیوپس صدیوں پرانی بیماری ہے جسے “بقراط” نے تشخیص کے بعداسٹمنوسس کا نام دیا تھا، بدلتے وقت کے ساتھ انیسویں صدی کے وسط میں اسکا نام لیوپسرکھا گیا اور جدید طب کے بانی سر ولیم اوسلر نے اس بیماری کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک  ملٹی سسٹم آف ڈرماٹولوجیکل ڈس آرڈد ہے جس سے دنیاکو اس بیماری کو سمجھنے میں مدد ملی۔ انہوں نے کہا کہ لیوپس کی تشخیص تو مشکل ہے ہی،اس کا علاج بھی بہت مشکل ہے اس بیماری کو “ٹریٹ” کیا جا سکتا ہے ٹھیک نہیں،یہ ٹی بی کی طرح علاج کے بعد ٹھیک نہیں ہوتی بلکہ بلڈ پریشر اور شوگر کی طرح احتیاطاور دواؤں کے ذریعے اس کی شدت میں اضافہ ہونے سے روکا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آجبھی لیوپس کے متعلق ڈاکٹرز کے سوالات اپنے جوابات کے منتظر ہیں جن میں ایک اہمسوال یہ ہے کہ لیوپس کی علامت اور تشخیصی ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد علاج کب شروع کیاجائے کیونکہ کبھی یہ بیماری “اوور ڈائیگناس” ہوجاتی ہے اور کبھی “لیٹڈائیگناس”.  انہوں نے بتایا کہ ایف ڈیاے منظور شدہ ٹارگیٹڈ تھراپی مرض میں کمی اور آرام لاتی ہے، لیکن یہ دوائیاں ابھیترقی یافتہ ممالک میں دستیاب ہیں، پاکستان میں صرف ایک یا دو دوائیں ہیں جو ابھیرجسٹریشن کے مراحل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذکورہ رکاوٹوں کے علاوہدیگر عوامل بھی اس کے علاج میں رکاوٹ کا باعث ہے جس میں سماجی عوامل، غربت، طبینگہداشت میں عمومی لاپروائی ہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ بھی اس کے علاج کے اخراجاتبرداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ پروفیسر افتخار نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیںمعاشرے میں لیوپس کے بارے میں آگہی اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے مریض کو بھیاس کے مرض کے بارے میں مکمل آگاہی دینا چاہئے کہ  اس کا علاج دیرپا ہے اور اس میں دوا کا استعمالمسلسل رکھنا ہے ، علاج نہ کرانے کی صورت میں دیگر  پیچیدگیاں ہوسکتی  ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیوپس کی تشخیص مشکل ہے اسلیے مریض پر بھی لازم ہے کہ وہ ڈاکٹرز سے کچھ نہ چھپائے اور اپنی بیماری کی علاماتکو ڈاکٹرز کے علم میں لائے تاکہ بروقت علاج ممکن ہو۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے ڈاکٹر تابعرسول نے منی سمپوزیم کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سمپوزیم کا مقصد فزیشناور جونیئر ڈاکٹرز کو مرض لیوپس کی علامات، تشخیص اور علاج سے متعلق آگاہی دینا ہےاور مرض کی ابتدائی تشخیص کی اہمیت کی ضرورت کو سمجھنا ہے کیونکہ لیوپس مدافعتینظام کا مرض ہے جس میں جسم کا دفاعی نظام اپنی ہی خلیات اور اعضاء کے خلاف لڑناشروع کر دیتا ہے، اگر بروقت تشخیص اور علاج شروع کیا جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر اس کی پیچیدگیاں جن میں گردے کا متاثر ہونا، خون کے خلیوں کاکم ہونا، دل پھیپھڑوں اور پیٹ کی جھلی میں پانی جمع ہو جانا سمیت دیگر جان لیوا بیماریاںبھی ہو سکتی ہیں۔ لیاقت نیشنل اسپتال کے پروفیسر محفوظ عالم نے کہا کہ لیوپس کاعلاج جاری رکھنے میں ایک بڑی دشواری سماجی عوامل بھی ہیں، کیونکہ یہ مرض نوجوانخواتین کو ہوتا ہے اس لیے شادی سے پہلے جن بچیوں میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے شادیکے بعد سسرال والوں کی جانب سے اتنی دوائیں مسلسل استعمال کرنے پر اعتراض ہوتے ہیں،پھر دوران حمل انہیں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر لاپرواہی کے باعث موتکا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ سمپوزیم کے اختتام پر آرگنائزرز کی جانب سے مہمان خصوصیپروفیسر خالد محمود کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی جبکہ پروفیسر خالد محمود نے ایسےسمپوزیم کے انعقاد پر آرگنائزرز کو سراہا اور اسپیکرز کو شیلڈز سے نوازا۔