وہ دمکتی ہوئی لَو کہانی ہوئی ——————- امجد اسلام امجد ——————- وہ چمکدار شعلہ فسانہ ہوا


——————-

تحریر : اطہر اقبال
——————-

* امجد اسلام امجد صاحب بھی اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے ، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے ، آمین ، امجد اسلام امجد صاحب کے حوالے سے لکھتے وقت مجھے اُن ہی کی ایک طویل نظم ” محبت کی ایک نظم ” کی چند سُطُور یاد آرہی ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا

امجد اسلام امجد صاحب بہت ہی محبت کرنے والی شفیق شخصیت کے مالک تھے ، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں تسلسل کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور یہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر جناب احمد شاہ کا ہی کمال ہے کہ عالمی اردو کانفرنس میں ہمیشہ ہی ایسی ایسی کمال کی شخصیات اور نگینوں کو جمع کر تے ہیں کہ نا صرف اہلِ سخن کی تشنگی دور ہو جاتی ہے بلکہ شہر میں بھی ادبی فضا بَن جاتی ہے ، امجد اسلام امجد صاحب سے میری ملاقاتیں بھی عموماً آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ہی میں ہوا کرتی تھیں جب کہ ایک بار انھوں نے مجھے ملاقات کے لیے اُس ہوٹل میں بھی بلایا جہاں وہ کراچی آمد کے بعد ٹھہرے ہوئے تھے ، یہ اُس وقت کی بات ہے جب میری کتاب ” ایک کہاوت ایک کہانی ” کا دوسرا حصہ معروف اشاعتی ادارے ” فرید پبلشرز ” کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والا تھا میری خواہش تھی کہ میری کتاب پر امجد اسلام امجد صاحب کچھ ضرور تحریر کریں اس حوالے سے میری اُن سے فون پر گفت گو بھی ہوتی تھی مجھے بہت پیار اور شفقت کے ساتھ مخاطب کرتے کچھ عرصہ فون پر رابطہ رہا اس کے بعد انھوں نے میری کتاب ” ایک کہاوت ایک کہانی ” کے لیے اپنے تاثرات بھی قلم بند کیے میرے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ نا صرف امجد اسلام امجد صاحب نے میری کتاب ” ایک کہاوت ایک کہانی ” کو بہت پسند کیا بلکہ ایک بار انھوں نے مجھے لاہور سے فون کر کے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میری کتاب ” ایک کہاوت ایک کہانی” انھیں زیادہ تعداد میں چاہییں کیوں کہ وہ اس کتاب کو کچھ اسکولوں کے لیے خریدنا چاہتے تھے مجھے اُس وقت بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ انھوں نے کتاب “ایک کہاوت ایک کہانی ” کو اس قدر پسند کیا میں نے امجد اسلام امجد صاحب سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُن کا بہت شُکریہ ادا کیا جواب میں انھوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور مجھے تلقین کی کہ ” لکھنے کے کام کو جاری رکھو تمہاری کہانیوں میں بچوں کے لیے دل چسپی بھی ہے اور سبق بھی ساتھ ہی بچے کہاوتوں اور مُحاوَرں کا استعمال بھی سیکھ رہے ہیں ”

یہ سُطُور لکھتے ہوئے مجھے امجد اسلام امجد صاحب کا ایک شعر یاد آگیا

امجد کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کس طرح
لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے

امجد اسلام امجد صاحب نے شعر و ادب کی متعدد اَصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور ہر صنف میں خود کو منوایا ہے ، امجد اسلام امجد صاحب کی شعر و ادب سے کمال کی محبت اور وابستگی تھی ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے بھی کئی تصانیف منظرِ عام پر آئیں اور وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک ، اس موقع پر مجھے امجد اسلام امجد صاحب کا ہی ایک شعر یاد آگیا

شہرِ سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے
سَب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے

امجد اسلام امجد صاحب اپنی گف گو میں بھی اکثر بہت خوب صورت اشعار استعمال کر تے اور بات اگر ہنسنے مسکرانے کی ہو تو تَفَنٌُن کا اظہار بھی بہت خوب صورت طریقے سے کرتے ، اُن کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

نہ کوئی غم خزاں کا ہے نہ کوئی خواہش ہے بہاروں کی

ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم

امجد اسلام امجد صاحب کی اب یادیں ہی رہ گئی ہیں ، ایک انتہائی نفیس اور شفیق شخصیت کی یادیں ، اُن کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

جیسے بارش سے دھلے صحنِ گلستاں امجد

آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرہ چمکا

امجد اسلام امجد خود بھی شکر گزار بندے تھے اور اپنے اشعار کے ذریعے دوسروں کو بھی شکر گزاری کا پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے کہ اُن کا یہ شعر

کہاں آکے رُکے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

اللہ تعالیٰ ، ہم سَب کو اپنا شکر گزار بندہ بنائے اور امجد اسلام امجد سمیت تمام مسلمانوں کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے ،آمین –
======