آٹے کے بعد پیاز کا بحران اور ہمارا تاجر


نوید نقوی
==========


روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ کو ایک سال ہونے کو ہے لیکن جنگ کی شدت میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کی فوجی امداد میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں دوسری طرف روس بھی دھڑا دھڑ اسلحہ بنا رہا ہے اور اپنے اتحادیوں سے بھی اسلحہ حاصل کرتے ہوئے یوکرین پر حملوں کی شدت میں اضافہ کر چکا ہے اور آثار یہی نظر آ رہے ہیں کہ سردیوں کے بعد جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا اور ان دور دراز کے پڑوسی ممالک کے درمیان ہونے والی جنگ نے دنیا بھر کے غریب عوام پر بلا واسطہ اثر ڈالا ہے اور لاکھوں لوگوں کو اس وقت قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے ان میں پاکستان کی عوام سر فہرست ہے جہاں کا تاجر ہو یا حکمران دونوں اپنی جیب تو بھر رہے ہیں لیکن اس کا خمیازہ بے چارے عوام بھگت رہے ہیں ، دل یہ دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے کہ جس کسان نے سردی اور گرمی میں محنت کر کے فصل اگائی اس سے سستے داموں خرید کر اب اس کو تین گنا قیمت پر فروخت کی جا رہی ہے۔ اور اس کے لیے بھی بے چارے کو گھنٹوں قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں آٹا تو نا پید ہو ہی چکا ہے یا کر دیا گیا ہے اب ہر کھانے میں ضروری جزو سمجھی جانے والی اہم ترین سبزی پیاز بھی مارکیٹ سے غائب کر دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے تاجر من مانے ریٹ پر آٹا ہو یا سبزی بیچ رہا ہے لیکن کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ میں بحیثیت ایک ذمہ دار شہری یہ حلفاً کہتا ہوں کہ 650 روپے والا سرکاری آٹا مختلف دوکان داروں سے 900 روپے اور ایک ہزار روپے میں مجبوراً خرید چکا ہوں وہ بھی بڑی منت سے، اگر منت نہ کرتا تو بھوکا رہنا پڑتا کیونکہ کوئی اور چارا بھی نہیں تھا۔ ایک وقت تھا جب کوئی بھی سبزی خریدنے جاتے دوکان دار خود سے پیاز اور دیگر سلاد تھوڑا تھوڑا کر کے مفت ڈال دیتا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ پیاز 400 روپے میں بک رہا ہے اور سرکاری افسران ہوں یا عوامی نمائندے سب ستو پی کر سو رہے ہیں ان کی نظر میں نہ عوام کی اہمیت ہے اور نہ ہی عوامی مفاد سے ان کو کسی قسم کا مطلب ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ باورچی خانے میں کام کے دوران پیاز کاٹنے کا مرحلہ انتہائی تکلیف دہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ پیاز کے چھلکے اتارنے کے ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو لڑی کی صورت میں بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔اب یہی پیاز پاکستانی صارفین کو گزشتہ چند ماہ سے ہر بار خریداری کے وقت آٹھ آٹھ آنسو رونے پر مجبور کر رہے ہیں۔ سالن کا لازمی جزو سمجھے جانے والے ایک کلو پیاز کی قیمت 350 سے 375 روپے تک ہے۔
پیاز صرف کھانے میں ذائقے کے لیے ہی نہیں بلکہ سالن کی مقدار بڑھانے میں بھی مددگار رہتے ہیں۔
ہوشربا مہنگائی میں جہاں بڑے گوشت کی قیمت 800 فی کلو اور چکن کا گوشت 650 روپے فی کلو سے زیادہ ہے وہیں کئی متوسط اور غریب گھرانوں میں سالن کی مقدار بڑھانے کے لیے بھی پیاز کے زریعے شوربا یا گریوی بڑھا کر سب کے لیے پورا کرنا بھی آزمودہ ٹوٹکا رہا ہے۔پیاز کی قیمت میں فوری کمی تو ہمارے یا آپ کے بس کی بات نہیں لیکن یہاں ہم آپ کو ایک ایسے ملک کے بارے میں بھی بتاتے ہیں جہاں پیاز کی قیمت گوشت سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے۔دنیا بھر میں پیاز کو کھانے میں بنیادی جزو کی حیثیت حاصل ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گوشت کو لگژری آئٹم سمجھا جاتا ہے لیکن فلپائن میں ایک کلو پیاز کی قیمت مرغی اور گائے کے گوشت سے بھی بڑھ گئی ہے۔رواں ہفتے ایک کلو سرخ اور سفید پیاز کی قیمت تقریباً 8.36 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ ایک پورا چکن 3 ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے۔فلپائن میں کم از کم یومیہ اجرت 6.84 امریکی ڈالر سے کچھ اوپر ہے جو پیاز کی فی کلو قیمت سے کم ہے۔ اس ایشیائی ملک میں لہسن اور پیاز کے ساتھ سالن کو بھوننے کی عادت سپین کے نوآبادیاتی دور سے ہے۔ سولہویں صدی کے اوائل سے انیسویں صدی کے اواخر تک جاری یہ دور ایشیائی ملک کے کھانوں پر بھی اثر انداز ہوتا گیا۔تاہم اب تقریباً ایک ماہ سے یہی پیاز فلپائنیوں کے لیے ایک لگژری آئٹم بن گئے ہیں اور قیمتوں میں اضافے نے بنیادی سبزی کی قیمت کو گوشت سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی فلپائنی حکام نے پیاز کی غیر قانونی ترسیل پر پابندی عائد کر دی ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں مقامی کرنسی میں تین لاکھ ڈالر مالیت کے پیاز اس وقت ضبط کر لیے گئے تھے جب اسے کپڑوں کی لیبلنگ کے ساتھ چین سمگل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔بہت سے لوگ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر فلپائنیوں کی جانب سے حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ہے ۔پیاز کی ہوشربا قیمتوں کے باعث کھانوں کے شعبے سے منسلک کچھ کاروبار اس کے متبادل کی تلاش میں ہیں۔کچھ ریسٹورنٹس نے پیاز پر مشتمل مصنوعات کی فروخت بھی بند کر دی ہے۔ برگر کے ساتھ ملنے والے پیاز کے لچھے بھی مینیو سے غائب ہو گئے ہیں۔ریستوران اورعام لوگ دونوں ہی اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ پیاز کی موجودہ قیمت بہت زیادہ ہے۔پیاز مقامی کھانوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی تقریباً ہر ڈش میں ڈالا جاتا ہے اور پاکستان کی طرح ہر فلپائنی ڈش کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔ پیاز دنیا میں تیسری سب سے زیادہ پیدا ہونے والی سبزی ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ روایتی طور پر فلپائن پیاز درآمد کرنے والا ملک ہے کیونکہ ملک میں اس کی پیداوار سے زیادہ اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے پیاز کی ضرورت میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ پیاز کی ملک میں 2011 میں پانچ ملین کلو کی طلب 2016 میں بڑھ کر 132 ملین کلو تک پہنچ گئی تھی۔تجزیہ کاروں کے مطابق فلپائن عام طور پر قیمت اور دستیابی کے لحاظ سے انڈیا، چین اور ہالینڈ سے پیاز خریدتا ہے۔ فلپائن کی پیاز کی زیادہ تر پیداوار، موسمی حالات کے پیش نظر، مختصر شیلف لائف والی اقسام کی ہے اور اس کے مقابلے میں شمالی یورپ اور شمالی امریکہ کے کچھ خطوں میں درست موسمی حالات میں پیاز کو ایک سال تک ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔دنیا کے بیشتر حصوں میں پیاز سب سے زیادہ کھائی جانے والی تین سبزیوں میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر اور کھیرے کے پیداواری حجم کے بعد پیاز حجم کے لحاظ سے دنیا کی تیسری سب سے زیادہ پیدا کی جانے والی سبزیوں میں بھی ہے۔پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان میں زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں کپاس اور چاول کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات کے ساتھ پھل و سبزیوں کے کاشت کے علاقے زیرِ آب آنے سے ان کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں سیلاب کے بعد ایک جانب مختلف فصلوں کو نقصان پہنچا تو اس کے ساتھ سیلاب کی وجہ سے راستوں کی بندش کے باعث سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ تمام سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے تاہم سب سے زیادہ اضافہ پیاز اور ٹماٹر کی قیمت میں دیکھا گیا جن کہ قیمتیں دو سو سے چار سو فیصد تک بڑھی ہیں۔ پیاز اور ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں پھلوں اور سبزیوں کے درآمد کنندگان اور تاجروں کی جانب سے انڈیا سے ان کی درآمد کی تجویز سامنے آئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پیاز کی ماہانہ کھپت 150000 ٹن اور ٹماٹر کہ ماہانہ کھپت 50000 ٹن ہے۔ اتنی بڑی آبادی کی کھانے پینے کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیئے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو سخت سزا دے، ریٹ پر کنٹرول سختی سے کیا جائے تاکہ تاجر ناجائز منافع خوری نہ کر سکے۔ زمین کے ایک ایک انچ کو قابل کاشت بنایا جائے تاکہ ملک میں فوڈ کرائسس کا مقابلہ کیا جاسکے۔اس کے علاوہ کچھ عرصے کے لیے بھارت سے سبزیوں سمیت دیگر انسانی زندگی کے لیے اہم اشیاء کی درآمد کی فوری اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ ہمارے عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ ملک میں کسی بھی قسم کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے ناکام ہوں اور عوام مزید پریشانی سے بچ سکیں۔ پاکستان میں یہ ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کہ ہر کام حکومت کرے گی حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے کام عوام خود کرتے ہیں اور اس معاملے میں وہ حکومت کی طرف کم ہی دیکھتے ہیں
==================