کشمیر فروش؟۔۔کشمیریوں کو ہر طرف حملوں کا سامنا رہا۔۔ ۔۔۔

سچ تو یہ ہے،
=========


بشیر سدوزئی ۔
==========

پیشہ ورانہ مہارت اور زمہ داری کی ادائیگی غیر جانب داری کا تقاضا کرتی ہے، جہاں آپ جانب دار ہوئے کئی نہ کئی غلطی کا احتمال ہوا۔جاوید چوہدری کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، بہت سینئیر صحافی اور منجھے ہوئے کالم نویس ہیں لیکن ان کے کالم ظاہر کرتے ہیں کہ ان دنوں وہ غیر جانب دارانہ نہیں بلکہ ٹارگٹ تجزیہ کرتے ہیں ۔عمران خان تو ہمیشہ ان کی تنقید کی زد میں رہا ہے اور یہ بری بات بھی نہیں پالیسیوں یا طرز سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے کالم بغض عمران میں ان دنوں کئی گھنٹے میٹنگ کی فرمائشی روداد سے آگئیں نہیں بڑھ رہے۔ کسی سے وفاداری کرتے،کرتے اسی کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور واضح ہو گیا کہ کشمیر فروش عمران خان نہیں کوئی اور تھا جو بقول جاوید چوہدری اتنا سادہ ہے کہ چائے میں پاپا ڈبو کر کھاتا ہے۔۔5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے جواب میں پاکستان کے کمزور موقف پر اپوزیشن،خاص طور پر مولانا فضل الرحمن نے خوب شور مچایا تھا کہ عمران خان کشمیر فروش ہے لیکن جاوید چوہدری نے 5جنوری کے کالم میں سب بتا دیا کہ کشمیر فروش کون ہے۔ اب اندازہ ہوا کہ مولانا کے دل میں اس وقت اچانک کشمیریوں سے محبت کیوں جاگ رہی تھی۔ پتہ چلا کہ وہ بھی اسی اطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہے۔مولانا گھاگ سیاست دان ہے بڑی خوبصورتی سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عمران خان کو کٹہرے میں لے آیا تھا لیکن جاوید چوہدری کی ایک غیر دانستہ غلطی سے عمران خان اس مقدمہ سے بھی بری ہوا۔اب تو سابق سفارت کار عبدالباسط،حامد میر،جنرل ریٹائرڈ شعیب، ارشاد محمود اعر عارف بہار سمیت کئی لاگ میدان میں اترے ہیں اور اس میچ کا آنکھوں دیکھا حال بتا رہے ہیں جو بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر، پاکستان کی سول حکومت، پارلیمنٹ اور عوام سے پوشیدہ کھیلا جا رہا تھا۔اب تصدیق ہو گئی ہے کہ سخت دباو میں بھی عمران خان نے مودی کو پاکستان بلانے اور ہاتھ ملا کر لہرانے سے انکار کیا۔کشمیریوں کے اصل محسن تو شاہ محمود قریشی ہوا جس نے عمران جان کو ڈرا کر اس سے باز رکھا ورنہ کوئی بعید نہیں کہ عمران خان کسی کے کہنے پر کشمیر کا کام تمام کرنے کے بعد کہتا کہ سادہ آدمی ہوں اعتماد و اعتبار کر کے تیسری غلطی کی، پاکستانی قوم نے عمران کی دو غلطیاں تو معاف کر دی تیسری بھی معاف ہو جاتی لیکن مسئلہ کشمیر بیس برس کے لیے غائب ہو جاتا اور 20سال بعد مٹی اور گرد میں دبی کشمیر کی فائل کو کوئی نکالنے کی کوشش بھی کرتا کہ نہیں اس کی بھی کوئی ضمانت نہ تھی۔جاوید چوہدری کے کالم کی اشاعت کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں آج کی صورت حال اور کشمیریوں پر ہر طرف سے ہونے والے حملوں کی وجہ پاکستان کی بیک چینل ڈپلومیسی اور بے وجہ کا ڈاکٹرآئن تھا ورنہ بھارت اکیلا اتنا جلدی صورت حال کو یہاں تک نہیں پہنچا سکتا تھا۔ کشمیریوں کو ہر طرف سے حملوں کا سامنا رہا تاہم اپنوں سے زیادہ نقصان ہوا، اس رویہ سے دشمن کو کھلی چھوٹ ملی حالات یہاں تک پہنچے کہ سری نگر میں خان دان کے افراد عشائیہ پر بھی بولتے ہیں کہ آستہ بولو ریکارڈنگ ہو رہی ہو گی یا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ۔اب یہ صورت حال ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آخری معرکہ کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں چو مکی لڑائی شروع کر رکھی ہے جیسے اسے بہت جلدی ہو۔دس روز سے جموں کے کئی علاقے محاصرے میں ہیں اور لگ بھگ سو نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔آج کشمیری عوام کی زندگی کا ہر پہلو بھاجپا کے نظریاتی اور فوجی حملوں کی زد میں ہے۔کلچر ہو یا مذہب زبان ہو یا جان، زمین ہو یا کھلیان، بھارت سب کچھ برباد کرنے میں لگا ہوا ہے۔سال 2022ء اس حوالے سے زیادہ ہولناک گزرا جہاں کشمیریوں کا وکیل خاموش تماشائی ہی نہیں ڈاکٹرآئن کے تحت بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر بھارت کا سہولت کار بنا رہا۔انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے حوالے سے اس شدومد کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو قائل کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی جس کی کشمیریوں کو اشحد ضرورت تھی۔بھارت کشمیر کے آبادیاتی منظر نامے کو نئی شکل دے رہا ہے۔کشمیری ثقافت، زبان اور مذہبی شناخت کو ختم اور مسلم آبادی کو بے اختیار کیا جا رہا ہے۔ کتنی ہی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں ہیں۔غیر قانونی طور پر نئے زمینی قوانین متعارف کرائے گئے ہیں جو مقامی لوگوں سے زمین چھین کر غیر مقامی ہندو انتہاء پسندوں کو دی جا رہی ہے۔میڈیا اور ہیومین رائٹس کارکنوں کو بند کر دیا گیا، صحافیوں کو جیلوں میں ڈالنے کے ساتھ، ساتھ بیرون ملک سفر کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ ماورائے عدالت قتل اور تشدد سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، لیکن اس کی شکایت کسی فورم پر نہیں کی جاتی۔ جب کہ کل جماعتی حریت کانفرنس جو اس مقدمہ کی فریق ہے کی قیادت نظربند ہے۔کثیر تعداد میں مزید نیم فوجی دستوں کو کشمیر لایا گیا، آج کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقوں میں شامل ہو چکا۔کشمیر میں ظلم و جبر کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں نظر آئے۔ پھر بھی اس سنگین صورتحال میں وہ ممالک خاموش ہیں جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔لیکن سچی بات یہی ہے کہ ان ممالک کے پاس درست انداز میں مقدمہ ہی نہیں پہنچا۔ بھارت کے اس جرم کو بے نقاب کرنے کے لیے پاکستان کی بین الاقوامی مہم کو نہ بہترین کہا جا سکتا ہے نہ موزوں۔مانا کہ پاکستان اندرونی طور پر متعدد بحرانوں کا شکار ہے،سیاسی بحران شدید اور معاشی بحران شدید تر ہے۔ان حالات میں بھی کشمیر ڈپلومیسی اول ہونا چاہئے تھی وجہ یہ کہ یہ قومی پالیسی ہے، یا اس کا اعلان کیا جاتا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان مذید جھگڑا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ قومی پالیسی اب صرف اقوام متحدہ کو خطوط بھیجنے اور وزارت خارجہ کے ترجمان کے ایک بیان تک محدود رہ گئی ہے۔
“خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ”
اگرچہ مقبوضہ علاقے نے سات دہائیوں سے پرتشدد جبر دیکھا ہے، لیکن تمام جبر انہوں نے پاکستانی ریاست اور عوام کی ڈھارس سے سہہ لیا۔لیکن 5 اگست 2019 کو دہلی کی یک طرفہ کارروائی نے کشمیر کی تشدد زدہ تاریخ کا ایک اور سفاک باب کھول دیا ہے جو ماضی کے تمام جبر و تشددد پر بھاری ہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس موقع پر پاکستانی ریاست دوسرے صفحہ پر تھی البتہ پاکستانی عوام کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے رہے۔ بھارتی حکومت نے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کر لیا،اسے تقسیم کر دیا اور بھارتی یونین میں ضم کر دیا۔ یہ بات دنیا کو کون بتائے کہ ساڑھے تین برس گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں نے بھارت کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا ۔حتی کہ لداخ غیر مسلموں کا اکثریتی علاقہ ہے جسے کشمیر سے کاٹ کر دہلی کی تحویل میں دے دیا گیا تھا وہاں کے عوام بھی سراپا احتجاج ہیں کہ ہمیں کشمیر کے ساتھ رہنے دیا جائے،ہم کشمیری ہیں۔بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔کشمیر پر مجموعی طور پر 17 قراردادیں ہیں لیکن اس نوعیت کی 11 قراردادیں ہیں جن میں اس کی حیثیت و حیت میں تبدیلی نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ خاص طور پر بھارت کا یہ اقدام قرارداد 38 کی خلاف ورزی تھی، جس کے پیرا 2 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تنازع کا کوئی بھی فریق کشمیر کی صورت حال میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ لیکن اس پر کشمیر کے وکیل نے جان دار موقف نہیں اپنایا،اس کی وجہ عبدالباسط،جاوید چوہدری، حامیر میر،ارشاد محمود اور دیگر کے کالموں میں بتائی گئی ہے۔ بھارت نے اس دن سے آج تک طویل لاک ڈاؤن اور مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کیا ہوا ہے، فوجی محاصرہ سخت کر دیا گیا، عوامی اجتماع پر پابندی عائد ہے، پریس کو خاموش کر دیا گیا اور کشمیری رہنماؤں بشمول مین اسٹریم سیاست دان اس اقدام کے خلاف عوامی بغاوت کو اکسانے کے الزام میں ابھی تک جیلوں میں بند یا گھروں میں نظر بند ہیں۔تقریباً تمام کشمیری عوام بے دست و پا ہو گئےاور ایک خوب کا عالم ہے ۔اسی جیل کے ماحول میں ہی بھارت کشمیری عوام کو لوٹ رہا ہے توڑ رہا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تب سے سلب ہیں۔ انہیں ہر قسم کی طاقت اور حق رائے دہی سے محروم کرنے،ان کی مذہبی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش اور سازش ہو رہی ہے – انتظامی، آبادیاتی اور انتخابی تبدیلیوں کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ متعدد اقدامات تو مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی آبادکاری کی پالیسیوں کی نقل ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کشمیریوں کے خلاف یہ بین الاقوامی سازش تھی اس میں کسی حد تک دانستہ یا غیر دانستہ اپنے بھی شامل تھے جس کا نام ڈاکٹرآئن رکھا گیا اور علی کیلانی اسی ڈاکٹرآئن سے دل برداشتہ ہو کر پیرانہ سالی میں تحریک آزادی سے الگ ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے۔ مئی 2022 میں،بھارت کے حد بندی کمیشن نے نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد جموں و کشمیر کی اسمبلی میں وادی کے سیاسی وزن کو کم کرنے اور توازن کو ہندوؤں کی طرف منتقل کرنے کے لیے زیادہ نمائندگی دینا تھا۔ یہ تاریخ کا جبر اور جمہوریت کی نفی نہیں تو اور کیا ہے کہ 28 فی صد مذہبی آبادی کو 68 فی صد پر برتری دی جائے۔ مسلمان جموں و کشمیر کی آبادی کا 68 فیصد سے زیادہ ہیں جبکہ (آخری) 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندو 28 فیصد کے قریب ہیں۔دہلی کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے ڈومیسائل قوانین کے ذریعے آبادیاتی تبدیلیاں بھی طے کی گئی ہیں۔غیر کشمیریوں کو 34لاکھ سے زیادہ ڈومیسائل جاری کیے گئے، یہ لوگ 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد کشمیر کے شہری ہونے کے اہل ہوئے ہیں ۔ جولائی 2022 میں، مقبوضہ وادی میں چیف الیکشن آفیسر نے خطے کی آبادی کو تبدیل کرنے کی ڈھٹائی سے کوشش کرتے ہوئے کسی بھی ہندوستانی شہری، یہاں تک کہ عارضی رہائشیوں کو بھی ووٹنگ کا حق دینے کا اعلان کیا۔ اس سے تقریباً 25 لاکھ اضافی ووٹرز، جن میں غیر کشمیری ہندوؤں انتہاء پسند بھی شامل ہیں، انتخابی فہرستوں میں شامل ہوئے جو وادی کی سیاست اور ثقافت کی حیت کو تبدیل کر دیں گے۔۔پچھلے سال حکام نے جموں و کشمیر وقف بورڈ اور اس کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کر لیا۔ اس سے مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کے تمام نمایاں مذہبی مقامات بشمول مزارات کو کنٹرول میں لے لیا گیا۔ مذہبی رہنماؤں اور اسلامی اسکالرز کو گرفتار اور کشمیر بھر کی کئی مساجد میں نماز پر پابندی لگا دی گئی۔ جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں جن میں سید علی گیلانی کا گھر بھی شامل ہے۔ 100 سال سے زیادہ عرصے تک، اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان رہی۔ 2020ء میں،اردو کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا اور ہندی کو شامل کیا گیا جس کو کشمیر کے ہندو بھی نہیں سمجھتے۔کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جاری ہے اس کا مقصد ہزاروں سال پرانی اور تاریخی زبان کا اردو، عربی اور فارسی سے رشتہ ختم کر کے ہندی میں ضم کرنا ہے تاکہ زبان سے بولی میں بدل کر مرحلہ وار ختم ہی ہو جائے۔کشمیریوں کے ان اور ان جیسے دوسرے بڑے مسائل میں سے کسی ایک نے بھی بین الاقوامی توجہ حاصل نہیں کی۔ البتہ 20نومبر 2022 کو انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بھارت کے جس اقدام کی مذمت کی گئی ہے وہ کشمیر کے میڈیا کی بندش، صحافیوں اور خرم پرویز سمیت انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنان پر انسداد دہشت گردی اور بغاوت کے قوانین کے تحت مقدمات، گرفتاریاں اور دھمکیوں کا ماحول ہے، جو خاص طور پر 2020 کی نئی، سخت میڈیا پالیسی کے تناظر میں پیدا ہوا۔ فروری 2022 میں، ہیومن رائٹس واچ نے آزاد میڈیا پر شدید کریک ڈاؤن کی مذمت کی اور کشمیر میں “صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیے جانے، دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف قانونی کارروائیوں” کو نوٹ کیا۔ ستمبر 2022 میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے میڈیا پر پابندیوں اور اظہار رائے کی آزادی پر بڑے پیمانے پر پابندیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ کشمیر پریس کلب سری نگر کو بند کر دیا گیا ہے۔لیکن یہ ساری رپورٹ اور بیانات ہی کافی نہیں جب تک عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ بھارت جموں و کشمیر میں انتخابات کا مرحلہ طے کرنے کے لیے شدید جبر، آبادیاتی تبدیلیوں اور انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا مقصد اگست 2019 کی اپنی کارروائی کو مستحکم اور ‘جائز’ بنانا ہے اور دہلی کو یہ دعویٰ کرنے کے قابل بنانا ہے کہ جموں و کشمیر کی سیاسی صورت حال معمول پر گئی ہے۔ لیکن اس منصوبے کی حمایت کے لیے وہ مین اسٹریم رہنماؤں کو آمادہ کرنے میں ناکام رہا۔ حد بندی کے منصوبے اور ووٹنگ کے نئے قوانین کے خلاف کشمیریوں کی زبردست مخالفت کے پیش نظر، یہ دیکھنا مشکل ہے کہ انتخابات کیسے کرائے جاسکتے ہیں، اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ قابل اعتبار ہوں گے۔ دہلی کی طاقت اور دھوکہ دہی کی پالیسیاں کشمیر میں طویل عرصے سے ناکام رہی ہیں اور اس نے صرف اس کے لوگوں کی بیگانگی کو مزید گہرا اور قبضے کے خلاف مزاحمت کے ان کے عزم کو مضبوط کیا۔اب جموں و کشمیر کے عوام کا مقدمہ پاکستان کے عوام کے پاس پہنچ چکا کہ “کشمیر پاکستان ہے” کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے عوام سے کس جگہ کوتاہی رہی۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ایسی بیک ڈور ڈپلومیسی سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اگر اس سے پاکستان کا فائدہ ہے تو اس کو اعلانیہ کرنے میں کیا قباحت ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر قوم پرست بیانیہ زور پکڑتا ہے تو ہم ہیں پاکستانی، پاکستان ہمارا ہے یا کشمیر بنے گا پاکستان کے بیانیہ کے پیروکار جموں و کشمیر کے عوام کو کیسے سمجھائیں گے۔ ان کے پاس اس کی بھی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں یہ طرز بدل جائے گا۔
==========================