عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، جمہوریت کس بلاء کا نام ہے؟


امیر محمد خان
==========

مخلوط حکومت کو پہاڑی مسائل کا سامنا ہے: بڑھتی ہوئی مہنگائی، بڑی عالمی کرنسیوں کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کا خشک ہونا۔ ان تمام چیلنجوں کے گرد قرض کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ حزب اختلاف اور معیشت کے ماہرین بیان کررہے ہیں، حزب اختلاف کا تو حق ہے چاہے اسکے اپنے دور میں کچھ بھی ہوتا رہا ہو، سیاست دانوں کے الزامات سے قطعہ نظر یہ حقیقت ہے کہ ملک اسوقت خطرناک حد تک معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے اوپر سے قدرتی آفت تباہ کن سیلاب جسکے لئے مخلوط حکومت در در امدادی رقم کیلئے روزاہ کھڑکا رہی ہے۔ ایک بڑا ایونٹ جنیوا میں ہوا جہاں وزیر اعظم شہباز شریف وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے زیادہ پاکستان کے دوست سیکریٹری جنرل اقوام متحد ہ نے دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین چونکہ و خود پاکستان میں یہ تباہ کاریاں دیکھ کر جاچکے ہیں وہ تباہ کاریاں بیان کیں اورشرکاء کو نقصانات کو بتایا،ان لوگوں کی مشترکہ اپیل سے ایک اچھی جو کہ تمام نقصانات کا حل تو نہیں کرسکتا مگر پاکستان کی اس معاشی تباہی میں معاون ثابت ہوگی۔ افسوسناک اور قابل شرم بات یہ ہے کہ جنیوا میں ہونے والے اس امدادی اجلاس پر حزب اختلاف بیانات، سب سے مضحکہ خیز بیان شیخ رشید کا ہے جنیوا اجلاس میں کسی قابل ذکر عالمی رہنماء نے شرکت نہیں کی، انکے نزدیک قابل ذکر رہنماء شائد عمران خان ہی ہیں چونکہ عمران خان کے علاوہ بقیہ تحریک انصاف بھی شیخ رشید سے اپنے فاصلے دور کرچکی ہے، جن اداروں کے وہ خود ساختہ ترجما ن کئی سالوں س بنے ہوئے تھے وہ بھی انہیں شٹ اپ کال دے چکے ہیں۔ بہرحال ایک اچھی رقم اور اس پر شہزادہ محمدبن سلمان نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کو اسکی مشکل سے نکالنے کیلئے ایک 10 ارب کی ایک خطیر رقم پاکستان میں سرمایہ کاری کاعندیہ دیا ہے جس کے لیئے پوری پاکستانی قوم انکی شکر گزار ہے۔ دراصل ہماری معاشی بد حالی کب ختم ہوگی ا س پر غور کرنے کیلئے پاکستانی کی کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی حل نہیں وہ تو ایڈہاک ازم پر کام کرتے ہیں پانچ سال کھڑکانے آتے ہیں (اگر انہیں رہنے دیا گیا تو ) ورنہ تین سال، چار سال میں ملک کو دکھ دیکر چلے جاتے ہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بیشتر حصہ ایسے فیصلوں پر مشتمل ہے جو معاشی نتائج پر غور کیے بغیر کیے گئے۔ مزید یہ کہ کئی پچھلی حکومتیں معاشی میدان میں کامیاب نہیں ہو سکیں کیونکہ ان کے پاس معاشی ماہرین کی اچھی ٹیم نہیں تھی جو پائیدار معاشی پالیسیاں تشکیل دے سکے۔ حکومتوں نے وزارت خزانہ کو چلانے کے لیے زیادہ تر بینکرز یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس پر انحصار کیا اور ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے میں ناکام رہے۔مسلسل معاشی مسائل متضاد معاشی پالیسیوں، غلط ترجیحات کے حصول اور خراب حکمرانی کی وجہ سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ 75 سالوں میں خاطر خواہ ترقی نہیں کی۔ مالیاتی پالیسیوں میں بھی مستقل مزاجی کا فقدان ہے — بعد میں آنے والی حکومتوں نے بعض شعبوں کو ترجیح دینے کے لیے پالیسیاں تبدیل کیں، جس کے نتیجے میں معاشی حالات غیر مستحکم ہوئے۔ہر سال ایک مختلف شخص بجٹ پیش کرتا تھا اور ہر سال حکومت کی معاشی پالیسیاں بدل جاتی تھیں جس سے سرمایہ کاروں اور ترقیاتی شراکت داروں کا اعتماد متزلزل ہو جاتا تھا۔

ہر نئی حکومت نے پچھلی حکومت کو خراب معیشت کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن ان میں سے کوئی بھی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں سنجیدہ نہیں رہا۔ حکومتوں نے مالیاتی مسائل پر قابو پانے اور بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام میں شمولیت اختیار کی
ہے، لیکن وہ پھر زیادہ خرچ کرتی ہیں (اور کم کماتی ہیں)، اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ قومی قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔مالی سال 2022-23 میں، پاکستان کی کل قرض کی خدمت کی ادائیگی کا تخمینہ 3.95 ٹریلین پاکستانی روپے ($17.9 بلین) ہے۔ عوامی قرضہ (مارچ 2022 تک) 4.44 ٹریلین روپے (جی ڈی پی کا 72.5%) تھا۔پاکستان کی ٹیکس گورننس بدستور کمزور ہے۔ ریاست کبھی بھی گڈ گورننس، بہتر پالیسیوں اور مضبوط ٹیکس کلچر کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کی آہنی قوت پیدا نہیں کر سکی۔ خوردہ کاروباروں کو رجسٹر کرنے کے لیے، یہاں تک کہ بڑے شہروں میں، اور ان پر ان کی آمدنی کے مطابق ٹیکس لگانے کے لیے کوئی سنجیدہ دستاویزی اقدام نہیں ہے۔مالی سال 2021-22 میں مجموعی ٹیکس 6.125 ٹریلین پاکستانی روپے ہے۔ سال 2022-23 کے لیے ریونیو کا ہدف 7 کھرب روپے ہے۔ زیادہ تر وقت، فیڈرل بورڈ آف ریونیو ریونیو کے اہداف کو پورا کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمع شدہ رقم 220 ملین کی قوم سے واجب الادا ٹیکس ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹیکس چوری 3 کھرب روپے کے لگ بھگ ہے۔عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے مالی امداد کے باوجود یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ حکومت نے ٹیکس چوری روکنے اور ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کے بجائے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ اس سے کاروباروں پر مزید بوجھ پڑا ہے اور معاشی سرگرمیاں سست ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی 220 ملین آبادی کا 2 فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ کراچی،لاہور،پشاور، اور کوئٹہ میں مرغی کا گوشت بھی 420روپے سے 620روپے فی کلو کے درمیان فروخت ہورہا ہے جس سے شہریوں کیلئے سستی پروٹین کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔بعض علاقوں میں زندہ مرغی کی قیمت بھی چار سو روپے سے متجاوز ہے اس حوالے سے مختلف حیلے تراشے جارہے ہیں۔ ایک تو وہی روز مرہ کابہانہ کہ پٹرول مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ اخراجات ناروا حد تک پہنچ چکے ہیں۔جس سے مرغی خانوں سے منڈی تک مرغیوں کی ترسیل کا خرچہ اس صنعت کے وابستگان کیلئے برداشت کرنا امرمحال ہوچکا ہے۔ پولٹری فروشوں نے مہنگی فیڈ اور سویا بین کی قلت کو مرغی کی قیمت میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔اطلاعات ہیں کہ سویا بین کے کنٹینر بندر گاہ پر پھنسے ہونے کے باعث فیڈ تیار کرنے والی فیکٹریاں مشکلات کا شکار ہیں اگرکنٹینر کلیئر نہ ہوئے تو پولٹری بحران بڑھنے کا اندیشہ ہے۔دوسری طرف حالیہ سیلاب نے گندم و دیگر فصلوں کی کاشت کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ گوداموں میں پڑے گندم کے ذخائر بھی برباد کرکے رکھ دیئے جس سے گندم کے بحران نے جنم لیا جس کا براہ راست اثر آٹا تیار کرنے والی ملوں پر پڑا مبینہ طور پر آٹاملوں کے مالکان ہمیشہ کی طرح منافع خوری کرتے ہوئے موقع سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے گندم کی فراہمی کا تسلسل برقرار رکھنے کے باوجود عوام کو جان بوجھکرآٹے کی فراہمی مشکل بنائی جاتی ہے۔آٹے کے بحران سے روٹی اور نان بھی مہنگے بیچے جارہے ہیں اس پر حکومت کو بلاتاخیر حرکت میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ مہنگائی کے مارے عوام کو کم از کم دو وقت کی روٹی تو بآسانی مل سکے! جب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں تو جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے عوام کو اس کوئی غرض نہیں۔
====================================