نجم سیٹھی انڈین کرکٹ بورڈ کے ساتھ کیسے تعلقات چاہتے ہیں ؟ اس معاملے میں اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہوگا یا ناک اونچی رکھنے کی لڑائی لڑنی ہو گی ؟ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر مسٹر جے شاہ کا رو یہ حوصلہ افزا نہیں ۔آگے کیا چیلنج درپیش ہوں گے ؟

کرکٹ کے شائقین پاکستان اور بھارت کے درمیان زیادہ مقابلوں کو دیکھنے کے خواہش مند ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دہائی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ مقابلے اور تعلقات خراب اور کشیدہ رہتے ہیں ۔

یقینی طور پر یہ ایک اہم اور حساس معاملہ ہے ماضی میں کہا جاتا تھا کہ پڑوسیوں کو باہر کے لوگ لڑواتے ہیں آپس میں اکٹھے بیٹھنے نہیں دیتے آپس کے تعلقات اچھے نہیں کرنے دیتے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ایسا لگ رہا ہے کہ باہر کے لوگ کم لڑا رہے ہیں اور پڑوسی آپس میں زیادہ جھگڑالو موڈ میں ہیں ۔
اب یہ جھگڑے کیسے ختم کرنے ہیں اور کرکٹ کے ذریعے پڑوسیوں کو ایک میز پر بٹھانے کے سفر کا آغاز کیسے ممکن ہوسکتا ہے اس حوالے سے پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا امتحان شروع ہو چکا ہے ان کی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اپنی ایک مخصوص سوچ بھی ہے تاریخ بھی اور دلچسپی بھی ۔سب جانتے ہیں کہ وہ ایک جمہوریت پسند ہیں اور جمہوری انداز سے معاملات کو دوستانہ طریقے سے آگے لے کر پڑھنے کے خواہشمند ۔

دیکھنا ہوگا کہ اس اہم اور حساس معاملے پر وہ اپنی فہم و فراست سے ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا حکمت عملی وضع کرتے ہیں پاکستان تحریک کے سے آگے قدم اٹھاتے ہیں ؟

انٹرنیشنل کرکٹ میں انڈیا کا ایک بڑا رول بھی ہے اور مضبوط لابی بھی ۔لیکن پاکستان کو کرکٹ کے میدانوں میں اپنی صلاحیت اور اہمیت کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا ہماری کرکٹ کی صلاحیتوں اور خدمات سے واقف ہے بس ہمیں اپنے لئے بہتر سازگار ماحول کے مواقع تلاش ارباز صورتوں میں یہ مواقع پیدا کرنے کے لئے محنت کی ضرورت ہے امید کی جاسکتی ہے پی سی بی کی موجودہ انتظامیہ اس سلسلے میں کامیابی حاصل کرے گی اگرچہ ایشین کرکٹ بورڈ کے سربراہ مسٹر جے شاہ کا ابتدائی رویہ پی سی بی کی نئی انتظامیہ کے لیے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے اور نجم سیٹھی کے ایک خوشگوار پیغام پر مبنی ٹویٹ پر مثبت جواب دینے کی بجائے سرد مہری کا رویہ برقرار رکھنے کا جواب آیا ہے جس پر پاکستان میں لوگوں کو زیادہ حیرت بھی نہیں ہوئی اس کے باوجود نجم سیٹھی اور ان کے ساتھیوں کو قدم آگے بڑھانے کے لئے مایوسی کا شکار ہوئے بغیر بات چیت جاری رکھنے اور کامیابیوں کی منازل طے کرنے کے لیے نئے طریقہ اور انداز اختیار کرنے پر محنت جاری رکھنی چاہیے ۔
===========================