180 افراد کی موت کے بعد TUC بسکٹ کمپنی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ معذرت کے ساتھ واپس لے لی ۔کیوں ؟ غلطی کیا تھی ؟ قصور وار کون نکلا ؟ انگریزی اخبار نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ۔

180 افراد کی موت کے بعد TUC بسکٹ کمپنی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ معذرت کے ساتھ واپس لے لی ۔کیوں ؟ غلطی کیا تھی ؟ قصور وار کون نکلا ؟ انگریزی اخبار نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ۔
یہ بہت ہی چونکا دینے والا واقعہ بنا ، جس کسی نے بھی اس کے بارے میں پڑھا اور سنا اسے بہت افسوس ہوا اور کچھ لوگوں کو بہت دھچکا لگا خاص طور پر انہیں جن کے پیارے اس دنیا سے رخصت ہوئے ، ظاہر ہے اگر کسی مرنے والے کا یا کسی بیمار کا مذاق اڑایا جائے گا تو کسے اچھا لگے گا ؟
تفصیلات کے مطابق TUC بسکٹ کمپنی جس کا آغاز 1958 میں بیلجئم سے ہوا تھا اور Mr. Perein اس کے بانی تھے جنہوں نے امریکہ میں شوق سے کھائے جانے والے نمکین پاپڑوں کی تقلید کرنے کی کوشش میں یہ نیا بسکٹ تیار کیا اور اخبار میں ٹریڈ یونین کارپوریشن کے بارے میں خبر پڑھی تو ان کے ذہن میں یہ نام آیا کہ اس کا مخفف بسکٹ کے لیے اچھا کام کرے گا یوں انہوں نے اپنے بسکٹ کا نام TUC رکھ لیا جسے آنے والے برسوں میں یورپ کے مختلف ملکوں کے علاوہ دیگر براعظموں میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی اور اب یہ بسکٹ دنیا کے 50 سے زیادہ ملکوں میں شوق سے کھایا جاتا ہے ۔

TUC بسکٹ بنانے والی کمپنی نے 2018 میں جنوبی افریقہ میں ایک وبا پھیلنے سے 180 افراد کی اموات کے بعد سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی جس کی وجہ سے اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا لوگوں نے اس قدر برا منایا اور کمپنی کو برا بھلا کہا کہ اسے بالآخر سوشل میڈیا سے اپنی پوسٹ معذرت کے ساتھ واپس لینی پڑی ۔

اصل میں کیا واقعہ پیش آیا تھا اور وہاں کے لوگوں کوTUC بسکٹ کمپنی والوں پر اتنا غصہ کیوں آیا ، انہوں نے بسکٹ کمپنی کے اعلیٰ حکام کو برا بھلا کہنا شروع کیوں کیا اور سوشل میڈیا پر TUC بسکٹ کمپنی ساؤتھ افریقہ کے خلاف احتجاج بڑھتا کیوں چلا گیا؟ اس بارے میں جنوبی افریقہ کے انگریزی اخبار بزنس انسائیڈر نئی تحقیقات کی تو اس کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ وہاں پر مقامی لوگ اپنی polony کو TUC بسکٹ کے ساتھ بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن جب وہاں پر ایک وبا Listeroisis پھوٹ پڑی اور اس کے نتیجے میں ایک سو اسی افراد کی موت واقع ہوئی اور بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہوئے ایسے میں TUC بسکٹ کمپنی نے لوگوں کے شوق کا خیال کئے بغیر سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ اب یہ رومینس ختم ہوا اس پر مقامی لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور تنقید اس قدر بڑھ گئی کہ بسکٹ کمپنی انتظامیہ دباؤ میں آگئی مقامی طور پر یہ سٹوری مشہور ہوئی کہ ایک خاص قسم کے بیکٹیریا کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہوئے اور اموات ہوئی ہیں غالبا پولک وین میں پروسیس شدہ گوشت کی فیکٹری اس اس کی ذمہ داری بتائی گئی لوگ اس پراسیس شدہ گوشت کے آئٹمز کو TUC بسکٹ کے ساتھ کھاتے رہے جس کی وجہ سے یہ سارا تنازعہ کھڑا ہوا ۔بسکٹ کمپنی بظاہر خود کو اس تنازعے سے الگ رکھنا چاہتی تھی اور اس کا مقصد لوگوں کو بتانا تھا کہ اب وہ بات کی ذمہ دار بسکٹ کمپنی نہیں ہے لیکن سوگوار ماحول میں بسکٹ کمپنی کی سوشل میڈیا پوسٹ کو ویلکم نہیں کیا گیا بلکہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اخبار نے اس کی کھوج لگائی ۔
برینڈ فائنینس افریقہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جیریمی سیمپسن کا کہنا تھا کہ TUC کمپنی نے اچھا نہیں کیا ، بہت برا تاثر چھوڑا ۔جو لوگ مر چکے ہوں یا بیمار ہو تو کیا ہم وہاں مت جائیں کیا ان کو بھول جائیں ۔ٹھیک ہے مارکیٹنگ کی جنگ میں سب ٹھیک ہے لیکن کچھ ایسی حدود ہوتی ہیں جنہیں آپ کو ابو نہیں کرنا چاہیے ۔
مارکیٹنگ کنسلٹنٹ اینڈی رائس کا خیال ہے کہ بسکٹ کمپنی کی سوشل میڈیا پوسٹ بہت غیر دانشمندانہ تھی جسے پڑھ کر لوگوں کو اچھا نہیں لگا جو دو الفاظ Hurbis اور Shadenfreude ذہن میں آتے ہیں وہ دونوں سے بچ نہیں سکتے ۔
TUC بسکٹ کمپنی کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ٹاپ ٹرینڈ کے لیے گا سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا
#TUC-ZA-180 people died.
ان لوگوں نے اس پر تبصرے شروع کر دیے کے لوگ مر گئے ہیں بڑی تعداد میں بیمار ہیں ایک پوری صنعت تباہ ہورہی ہے فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں ایسے میں لوگ مذاق اڑا رہے ہیں یہ بہت بری بات ہے ۔امریکی کمپنی Mondelez جو TUC بسکٹ مینوفیکچر کرتی ہے اسے بھی دعاؤں کا سامنا رہا ۔بسکٹ کمپنی کے ایک نمائندے نے بزنس انسائیڈر ساؤتھ افریقہ کو بتایا کہ کمپنی نے اپنی پوسٹ سوشل میڈیا سے ہٹا دی ہے اور اس کی وجہ سے جو بھی معاملات اور تنازعات پیدا ہوئے ان پر معذرت کی ہے دراصل وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کمپنی کے برینڈ کے خیالات سے مطابقت نہیں رکھتی نہ ہی ایسی کوئی پالیسی ہے ۔
TUC بسکٹ کمپنی ساؤتھ افریقہ نے لوگوں سے معذرت کی
۔
https://www.businessinsider.co.za/tuc-tweet-about-listeriosis-in-bad-taste-2018-3
==========================================