تتلی کی کہانی ہے …… پھولوں کی زبانی ہے

تتلی کی کہانی ہے …… پھولوں کی زبانی ہے
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیرِ انتظام
کِڈنی ہل پارک
کراچی کا آکسیجن ٹینک
پھول، پودے، درخت، سبزہ اور پرندوں کی چہچہاہٹ سب ہی کچھ ہے
======================

تحریر : اطہر اقبال
====================================
کسی بھی شہر کے لیے باغات یا تفریحی مقامات کی اہمیت نہ صرف ماحول کی بہتری کے لیے ضروری ہے بلکہ انسان کی اپنی صحت اور اس کے اندر کی خوب صورتی کے اظہار کے لیے بھی ضروری ہے کہ کیوں کہ خوب صورت ماحول، سبزے اور پھولوں سے سجی زمین انسانی خیالات میں بھی خوشبو پیدا کردیتی ہے، کون نہیں چاہے گا کہ پرانے زمانے کی ٹھنڈی ٹھنڈی سڑکوں اور کھلے مقامات کا تصور واپس لایا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب بڑے بڑے شہروں میں اَشجار کے نخلستان بنائے جائیں، چیونٹیوں سے لے کر انسان، پرندے اور جانور سب کی زندگیاں درختوں سے ہی جڑی ہوئی ہیں، زمین پر بچھا ہوا سبزہ اور جابجا لگے پھول انسانوں کو محبت بھرا پیغام بھی دیتے ہیں جسے خماربارہ بنکوی نے کچھ یوں بیان کیا ہے ؎
پھول کرلے نِباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے شہر میں اب بہت تیزی سے کھلے میدانوں اور اجڑے باغات کو سنوارنے کے لئے باقاعدہ مہم کے طور پر کام کیا جا رہا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سید سیف الرحمن جب ماضی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میونسپل کمشنر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے تو انہوں نے 2019ء میں ایک عدالتی حکم نامے پر کڈنی ہل پارک کو درحقیقت ایک خوب صورت پارک کی شکل دے کر کراچی شہر کے لئے اسے ایک آکسیجن ٹینک بنا دیا۔دن رات کی انتھک محنت کے بعد کڈنی ہل پارک کراچی کے شہریوں کے لئے ایک خوب صورت تفریحی مقام بن گیا ہے، ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے کڈنی ہل پارک میں دن اور رات کے مختلف اوقات میں خود موجود رہ کر اپنی نگرانی میں تمام تر کام مکمل کرائے تھے اور انہیں یوں دھول مٹی میں اٹا دیکھ کر اکثر مجھے منیر نیازی کا ایک شعر یاد آتا تھا ؎
کل دیکھا اِک آدمی اَٹا سفر کی دھول میں
گُم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
پودوں، درختوں، پھولوں اور خوشبو سے محبت انسانی جمالیات کا حصہ بھی ہے، سب ہی چاہتے ہیں کہ وہ ایک ایسے ماحول میں سانس لیں جو آلودگی سے پاک ہو اور جہاں سبزے اور پھولوں کی مہک ہو، کئی لوگ تو ایسے بھی ہیں جو پودوں اور درختوں سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اپنے گھر کے آنگن میں پہلے سے موجود درختوں کو اپنے ساتھ ہی مقیم کرلیتے ہیں اور وہ درخت بھی اس مکاں کا مکیں بن جاتا ہے یاپھر اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے گھر میں کوئی جگہ ایسی منتخب کرلیتے ہیں کہ جہاں وہ پودے اور درخت بھی لگا سکیں، بقول فاطمہ حسن ؎
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
یا پھر بقول ظفر زیدی ؎
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
کڈنی ہل پارک گزشتہ تین سال کی محنت کے بعد آج اس قابل ہوچکا ہے کہ ماضی میں لگائے گئے چھوٹے بڑے پودے اب بڑے ہو کر یہاں آنے والوں کو نہ صرف سایہ فراہم کر رہے ہیں بلکہ اپنے طلسماتی جوبن سے بھرپور آنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر رہے ہیں، اس وقت تک کڈنی ہل پارک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد پودے لگائے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے یہ پارک شہر کے بیچوں بیچ ایک گھنے جنگل کا نظارہ بھی پیش کر رہا ہے، کڈنی ہل پارک میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے منسوب پاکستان کی بڑی آبشاروں میں سے ایک آبشار بھی بنائی گئی ہے، اس آبشار کا ڈیزائن خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے یہ آبشار 200 فٹ لمبی اور 25 فٹ اونچی ہے جہاں بلندی سے گرنے والا پانی انتہائی دلکش منظر پیش کرتا ہے، کڈنی ہل پارک کے ایک حصے میں محترمہ فوزیہ وہاب کے نام پر گارڈن بھی بنایا گیا ہے جہاں 200 سے زائد پھل دار پودے لگائے گئے ہیں۔
جب کہ پارک میں روشنی کے لیے چار جدید لائٹس ٹاورز بھی نصب کردیے گئے ہیں ایک ٹاور میں 24 بڑے بلب لگائے گئے ہیں جب کہ آئندہ روشنی کے لیے مزید ٹاورزنصب کئے جائیں گے تاکہ رات کے اوقات میں یہاں آنے والوں کو کسی بھی طرح سے پریشانی کا سامنا نہ ہوسکے، کڈنی ہل پارک میں روشنی کی فراہمی کے حوالے سے 100 کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح بھی کیا گیا کیونکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی گرین انرجی کے تصور کو فروغ دینے پر خصوصی طور پر کام کر رہی ہے اس حوالے سے پہلے مرحلے میں کڈنی ہل پارک میں 100 کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے سولر پینل لگائے گئے ہیں جو 100 کلو واٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوں گے۔
قارئین کی دل چسپی اور معلومات کے لیے سب سے پہلے کڈنی ہل پارک کی تعمیر کے حوالے سے ماضی میں لیے چلتا ہوں کہ جب اس پارک کی جگہ پر تجاوزات کے خلاف ایک بہت بڑی کارروائی کرتے ہوئے تجاوزات کو صاف کرکے اسے ایک خوب صورت پارک کی شکل دی گئی، راقم الحروف کو بھی کڈنی ہل پارک کی تعمیر میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہے۔اس لیے کڈنی ہل پارک پر مضمون لکھتے ہوئے بشیر بدر کی ایک خوب صورت غزل کے اس شعر کی طرح کچھ کیفیت مجھ پر طاری تھی ؎
یہ شبنمی لہجہ ہے آہستہ غزل پڑھنا
تتلی کی کہانی ہے پھولوں کی زبانی ہے
اس بات سے سب ہی آشنا ہیں کہ ترقّیاتی منصوبوں کے لیے جہاں ویژن، عزم اور معیاری منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں ان کا بجٹ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس کے بغیر باقی چیزیں بیش تر اوقات بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب کہیں کسی ترقّیاتی منصوبے کا اعلان ہوتا ہے، تو ساتھ ہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی البتہ عوام خاص طور پر کراچی کے باسیوں کے لیے یہ خبر باعثِ حیرت ہوگی کہ گزشتہ تین سال قبل جب کڈنی ہل پارک کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا تو اس کے لیے نہ ہی علیحدہ سے کوئی بجٹ مختص کیا گیا اور نہ ہی پی سی وَن کے چکروں میں وقت اور پیسا برباد کیا گیا بلکہ محض دست یاب وسائل، بہتر انتظامی سمجھ بوجھ کے ساتھ عمدہ سماجی تعلقات کا سہارا لیتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔
کِڈنی ہِل پارک آنے والے لوگوں کے اَذہان میں یہ بات بھی آسکتی ہے کہ اس پارک کا نام کڈِنی ہِل کیوں رکھا گیا ہے تو ہم آپ کو بتا دیتے ہیں کہ کڈنی ہِل پارک کراچی کے معروف علاقے دھوراجی کالونی میں رنگون والا ہال کے عقب میں واقع ہے۔ اسے”احمد علی پارک“ بھی کہا جاتا ہے۔ احمد علی کراچی شہر کے معروف ٹاؤن پلانررہ چکے ہیں تاہم چوں کہ کِڈنی ہِل انسانی کِڈنی (گردے) کی شکل سے مماثلت رکھتا ہے اس لیے یہ مقام”کڈنی ہِل“ کے نام سے مشہور ہوگیا۔
یہ تاریخی منصوبہ62 ایکڑ پر پھیلے”کِڈنی ہِل پارک“ کا ہے۔ادارہ ترقّیاتِ کراچی نے 1964ء میں یہ جگہ پارک کے لیے مختص کی تھی۔1974 ء میں اس قطعہ اراضی کو بلدیہ عظمیٰ، کراچی کے حوالے کیا گیا تاکہ یہاں ایک خُوب صُورت پارک کی تعمیر ہوسکے، مگر بدقسمتی سے منصوبے پر کئی وجوہ کے سبب کام شروع نہ ہوسکااُلٹا ہر گزرتے دن کے ساتھ تجاوزات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ صرف اسی پر بس نہیں یہ جگہ معاشرتی برائیوں کا بھی گڑھ بن گئی تھی،یہی وجہ ہے کہ اہلِ محلّہ بھی اِس جگہ سے خوف کھاتے تھے نیز کچھ قانونی پیچیدگیوں کے سبب عدالتِ عالیہ کی جانب سے یہاں ناظر مقرّر کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا یہ پارک ایک طویل قانونی جنگ کی نذر ہوگیا۔ تاہم 2019ء میں اس وقت کے میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن نے ذاتی دِل چسپی لیتے ہوئے اس معاملے کو عدالتِ عظمیٰ کے سامنے رکھا جس پر عدالت نے کڈنی ہِل سے ہر طرح کی تجاوزات ختم کرکے وہاں پارک تعمیر کرنے کا حکم جاری کردیا۔ عدالت نے اپنے حکم نامے میں اس جگہ کو اصل حالت میں بحال کرنے اور پارک کی صُورت دینے کی ذمّے داری ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کو سونپی جنہوں نے یہ ذمّے داری کچھ اِس طرح نبھائی کہ اُنہیں کام کرتے دیکھ کر گمان ہوتا کہ کڈنی ہِل صرف ایک پارک ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر سید سیف الرحمن کا عشق بھی ہے۔ اُنہوں نے جس طرح اس منصوبے میں صرف احکامات دینے اور نگرانی کرنے کی بجائے عملی طور پر حصّہ لیا وہ عشق اور جنون کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

کڈنی ہِل میں لوگوں نے کچّے اور پختہ گھروں کے علاوہ دُکانیں وغیرہ بھی تعمیر کر رکھی تھیں۔ وہاں کچھ اس طرح کے ہوٹلز یا مسافر خانے بھی بنائے گئے تھے جن کی سیکڑوں چارپائیاں کرائے پر چلتی تھیں اور اُن افراد کا کسی کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔نیز بھینسوں کے کئی باڑے قائم کردئیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں کچرا چُننے والوں نے اس مقام پر اسپتالوں، فیکٹریز کا فضلہ، تعمیراتی، کیمیائی اور دیگر کچرا لا کر جمع کر رکھا تھا گویا کچرے کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے تھے۔ ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن نے ایک منظّم پالیسی کے تحت اکتوبر 2019ء میں یہاں کام کا آغاز کروایا۔ سب سے پہلے سائٹ کا جغرافیائی مطالعہ کروایا گیا جو ایک سائنسی عمل ہے۔اس کے ذریعے یہاں موجود پانی، سیوریج کی لائنز، بجلی کے کھمبوں، ٹیلی فون کے تاروں اور دیگر یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کی تنصیبات کے بارے میں معلومات ملیں۔نیز اس جغرافیائی مطالعے کے ذریعے یہاں موجود درختوں، پارک کے بلند ترین اور گہرے مقامات کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں۔ پھر اسی مطالعے کی روشنی میں پارک کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا۔پہلے مرحلے میں صفائی کے کام آغاز ہوا جس کے دوران سیکڑوں ٹن غلاظت اور کچرا اُٹھوایا گیا۔زمین ہم وار کروائی گئی، جھاڑیوں کا خاتمہ کیا گیا اور اس دوران کئی زہریلے جانوروں کا بھی سامنا رہا۔جگہ کی صفائی کے بعد پودے لگانے کا مرحلہ شروع ہوا جس کے لیے ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن نے اپنے سماجی تعلقات استعمال کرتے ہوئے مختلف شخصیات سے پودے اور درخت فراہم کرنے کی درخواست کی جس پر شہر کی ممتاز شخصیات نے لبّیک کہتے ہوئے کئی ہزار خُوب صورت پودے اور درخت فراہم کیے۔
کڈنی ہِل پارک کی تعمیر بلاشبہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کا نمونہ ہے،پہاڑوں پہ درختوں کو اُگانا اور پھر اُن کی پرورش اور دیکھ بھال کرنا ایک انتہائی کٹھن، محنت طلب اور حیران کُن عمل ہے مگر جب جذبے صادق ہوں تو منزلیں خود بخود آسان ہوجاتی ہیں۔ آج کڈنی ہل پارک آنے والے انتہائی حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ اس قدر کم وقت میں کڈنی ہل جیسا غلاظت و تعفّن سے بَھرا مقام کس طرح ایک خُوب صورت، ہَرا بَھرا پارک بن گیا۔ بہت سے لوگوں کو یہ کہتے بھی سُنا گیا کہ”کڈنی ہل کی تعمیر تو جیسے کوئی جادوئی عمل یا طلسماتی کام ہے۔“
کڈنی ہل پارک میں اِس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ پودے مقامی اور پھل دار ہوں۔ ان میں کیلا، ناریل، امرود، تربوز، خربوزہ، شہتوت، آم، انجیر، پپیتا، املی، جنگل جلیبی، بیر، لیموں، گریپ فروٹ، چیکو، سورج مُکھی، گُلِ مہر، پیپل، بڑ، توتا پری، الوسٹونیا، رین ٹری، کریزیا، ٹالی، ربر پلانٹ، ارجن، لیجسٹونیا، بوگن ویلا، مورنگا اور دیگر شامل ہیں۔کیکر کے درختوں کو کاٹ چھانٹ کے بعد چھتری کی شکل دی گئی ہے۔ ماضی میں لگائے گئے انہی پودوں کو آج بڑا ہوتے اور ان کے سائے میں خود کو بیٹھا دیکھ کر اوروں کی طرح راقم الحروف کو بھی بہت خوشی ہوتی ہے اور انہیں اپنے سامنے درخت بنتا دیکھ کر راقم الحروف کو اپنا ہی ایک شعر یاد آجاتا ہے ؎
چھاؤں میں بیٹھ کر جس کی ملتا ہے سکوں
اس شجر کے سائے میں بھی ممتاز نظر آئے
یا پھر کسی درخت کے کاٹے جانے سے پرندوں کا دکھ اس شعر سے بھی عیاں ہے ؎
کٹ گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی
بیٹھے رہے زمیں پر پرندے تمام رات
کڈنی ہل پارک میں دو واکنگ ٹریل بھی بنائے گئے ہیں، ایک کا نام علاقے کے حساب سے”کوکن ٹریل“ رکھا گیا ہے، جب کہ دوسرے کا نام،”دھورا جی ٹریل“ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں 12 مختلف ٹریلس بنائی گئی ہیں جن کے درمیان ہر طرح کی رکاوٹیں دور کی گئیں، درختوں کو خُوب صُورت انداز میں تراش کر راستے بنائے گئے اور اُن راستوں کو پاکستان کے پہاڑوں، دریاوں، جھیلوں، درختوں، پھولوں، جنگلات، نیشنل پارکس اور ریگستانوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ12 ٹریلز ایک دوسرے سے منسلک ہیں جیسے نانگا پربت، سیف الملوک، قراقرم، مینگروز، راکا پوشی، جیسمین، لال سوہارنا، ہنگول، املتاس، سُکھ چین اور چھانگا مانگا ٹریل۔
کڈنی ہِل پارک میں کراچی شہر کا سب سے اونچا مقام بھی واقع ہے جس کی بلندی 219فِٹ ہے یہاں سے شہر کا حَسین نظارہ کیا جا سکتا ہے بالخصوص شام کے بعد، جب رات اور دن کا ملاپ ہونے کے قریب ہوتا ہے اُس وقت تو اس مقام سے شہر کو دیکھنا انتہائی خُوب صُورت معلوم ہوتا ہے اور زبان بے اختیار کہہ اُٹھتی ہے کہ”واقعی کراچی روشنیوں کا شہر ہے۔“کڈنی ہِل کے اس اونچے مقام پر ڈاکٹر سیّد سیف الرحمٰن کی قیادت میں 25نومبر 2019ء کو 12×18 اسکوائر فِٹ کا قومی پرچم بھی لہرایا گیا جو شہر کے دُور دراز حصّوں سے بھی لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔یہ قومی پرچم بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ فائربریگیڈ کی کوششوں کی بدولت لہرایا گیا۔ کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف سے اظہارِ یک جہتی کیا گیا وہیں کڈنی ہِل پارک میں بھی اسی اونچے مقام پر4مئی 2020ء کو سفید پرچم لہرا کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والے مسیحاوں کو خراجِ تحسین پیش گیا چوں کہ کڈنی ہِل شہر کے سب سے بلند مقام پر واقع ہے اِس لیے یہاں آنے والوں کو شہر کے مقابلے میں درجہ حرارت میں بھی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے ماحولیاتی نظام (Ecosystem)میں بہتری کے آثار ہر اس شخص کو صاف نظر آتے ہیں جو ایک بار بھی کڈنی ہل کا رُخ کرلے۔
ماحولیاتی تغیّرات آج کی دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور خاص طور پر پاکستان کو اس سے مقابلہ کرنے کے لیے ماحول کو حد درجہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول بہتر کرنے کا ایک اہم عمل شجر کاری بھی ہے جس کا ثبوت کڈنی ہِل میں ہزاروں درخت لگا کر دیا گیا۔ کراچی میں بارشوں کی کمی بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ مُلک کے دیگر شہروں کی نسبت کراچی میں بہت کم بارش ہوتی ہے لہٰذا ان حالات میں کڈنی ہِل کی سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چاک کر کے وہاں پودے لگانا کوئی معمولی کام نہیں، اس کام میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی جس کے باعث کڈنی ہِل کی چٹانیں اور پتھریلی زمین بھی اب ہری بھری نظر آتی ہے۔کڈنی ہِل کے یہ اشجار ماحولیاتی تبدیلیوں کو مثبت زاوئیے پر لانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور مستقبل قریب میں مزید فعال کردار ادا کریں گے۔ یہاں وہ پرندے بھی آنے لگے ہیں جنہوں نے پہلے یہاں موجود گندگی اور غلاظت کے سبب کبھی ادھر دیکھنا بھی پسند نہیں کیا تھا مگر اب کبوتر، توتے، الّو، کوئل، مینا، فاختہ اور ہدہد تک نے یہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں جنہیں کڈنی پارک آنے والے باآسانی مختلف مقامات اور درختوں پر جھنڈ کی صُورت بیٹھا دیکھ سکتے ہیں اور ان کے دانے پانی کا بھی انتظام کرتے ہیں ؎
ڈال کر دانے بلاتی ہوں انہیں آنگن میں
میں نے چڑیوں کو دعاؤں میں لگایا ہوا ہے
ان پرندوں کی حسین آوازیں اور چہچہاہٹ یہاں آنے والوں پر عجیب سا سحر طاری کردیتی ہے۔یہاں آنے والے پرندے کڈنی ہل پارک کے درختوں پر بیٹھ کر اپنی خوب صورت اور مدھر آواز نا جانے کون کون سے گیت گاتے ہوں گے ان پرندوں کو ان درختوں پر اتنا خوش دیکھ کر یہاں آنے والوں کا بھی دل خوش ہوجاتا ہے، یہ سب وہ پرندے ہیں جو درختوں سے محبت کرتے ہیں کیونکہ درخت ان کی زندگی ہیں اور جب کوئی درخت کاٹا جاتا ہے یا اسے کوئی نقصان پہنچایا جاتا ہے تو ان پرندوں کو بھی بہت دکھ اور صدمہ پہنچتا ہے، بقول پروین شاکر ؎
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

یا پھر بقول افتخار عارف ؎
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
میں سمجھتا ہوں کہ ہم میں سے بہت سے ایسے لوگ جو بلا مقصد شاخوں پر لگے پھولوں کو توڑ لیتے ہیں انہیں اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ یہ وہ پھول ہیں جو ان شاخوں پر کھلنے کے بعد اپنی خوشبو سے نہ صرف اطراف بلکہ آپ کے وجود کو بھی مہکاتے ہیں، بغیر کسی وجہ پھول توڑتے وقت اتنا ضرور سوچ لیا کریں کہ جب آپ پھول کو اس کی شاخ پر سے جدا کر رہے ہوں گے تو وہ آپ کے اس عمل پر یقینا آپ سے کچھ سوال بھی کرے گا جس میں اس پھول کا خود کو شاخ پر سے جدا ہونے کا دکھ نمایاں ہوگا۔بقول شوق قدوائی ؎
کیا خطا میری تھی ظالم تو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر تک شاخ پر چھوڑا مجھے
تتلیاں بے چین ہوں گی جب نہ مجھ کو پائیں گی
غم سے بھنورے روئیں گے اور بلبلیں چلائیں گی
کراچی میں اس سے حسین جگہ اور کوئی نہیں کیوں کہ پہاڑ تو اور بھی ہیں لیکن کسی پہاڑ سے شہر کا اتنا حسین نظارہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں سے ایئر پورٹ، نیشنل ریفائنری، کورنگی ایکسپریس وے، شاہ راہِ فیصل، پی اے ایف، بیس مسرور اور ملیر ندی بھی نظر آتی ہے۔ رات میں تو ایسا لگتا ہے گویا روشنیوں کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ پارک کراچی کا زیور اور آئیکون ہے، جیسے جیسے کڈنی ہل پارک کی شہرت زبان زد عام ہوتی جائے گی ویسے ویسے پاکستان ہی سے نہیں دنیا بھر سے سیّاح اس مقام کو دیکھنے آئیں گے۔ پودوں کو دیا جانے والا پانی بھی سیوریج کے پانی کو صاف کرکے استعمال کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے کڈنی ہل میں 70×40 سائز کا ایک بڑا سیوریج ٹینک بنایا گیا ہے جہاں سے بلدیہ عظمیٰ کے محکمہ باغات کی گاڑیاں پانی لے کر پودوں اور درختوں کو دیتی ہیں۔
کڈنی ہل پارک میں دو خُوب صُورت تالاب بھی بنائے گئے ہیں جن کے گرد مختلف پرندوں کا اُترنا، پرواز کرنا انتہائی دِل فریب منظر پیش کرتا ہے جب کہ ان تالابوں میں کنول کے پھول بھی ڈالے گئے ہیں جو تیز ہواوں کے جھونکوں سے تالاب میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرتے ہوئے یہاں آنے والوں کو اپنی جانب متوجّہ کرتے ہیں۔اسی تالاب پر آنے والے پرندے شاید ہم سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں یا شاید ہم خود بھی ان سے بات کرنا چاہتے ہوں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر وہی محبت، ہمدردی اور شفقت بھر جذبات پیدا کریں جو نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں کو بھی آپ کی جانب متوجہ کریں ؎
کم کیجیے حضور تَمازت مزاج کی
آتے نہیں پرندے بھی تَپتی مُنڈیر پر
کڈنی ہل پارک میں ایک مسجد بھی موجود ہے جسے مسجد کمیٹی کے اراکین اور اہلِ محلّہ کی رضا مندی سے پارک کے سامنے اور شروع کے حصّے میں گیٹ نمبر 3 کے ساتھ منتقل کردیا گیا۔ اس معاملے میں بھی انتہائی دُور اندیشی کے ساتھ اہم کردار ادا کیا اور یوں ایک بہت ہی حسّاس مذہبی معاملہ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلیا گیا جس پر شیخ الاسلام مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب نے بھی ڈاکٹر سید سیف الرحمن کی نہ صرف تعریف کی بلکہ وہ مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے بھی بہ نفسِ نفیس خود تشریف لائے۔ کڈنی ہل میں قدیم زمانے سے ایک مزار بھی موجود ہے حتیٰ الامکان کوشش کی گئی ہے کہ زائرین کو مزار تک پہنچنے میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔کڈنی ہِل کے سب سے اونچے مقام پر نمایاں الفاظ میں “KIDNEY HILL” کا بورڈ بھی نصب کیا گیا ہے جس پر خُوب صورت رنگین بلب لگائے گئے ہیں، یہ بورڈ اندھیرا ہونے کے بعد دُور ہی سے دیکھنے والوں کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرواتا ہے۔ پارک میں جو دروازے لگائے گئے ہیں وہ چڑیا گھر کی تزئین وآرائش کے وقت نکالے گئے تھے۔ بلاشبہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے افسران اور ملازمین نے دن رات محنت کے بعد کراچی کے شہریوں کو کڈنی ہل پارک کی صُورت ایک اَن مول تحفہ دیا ہے۔
قارئین! ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سید سیف الرحمن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس شہر کے پارکوں اور چوراہوں کی خوبصورتی کے لیے کمر کس لی ہے اور اب آپ کا رُخ الہ دین پارک کی جانب ہے جہاں 72 ایکڑ رقبے پر مشتمل الہ دین پارک کی جگہ خوب صورت پارک بنایا جائے گا اور اس کا نام ”جناح پارک“ تجویز کیا گیا ہے اور اس حوالے سے تمام تر عملی اقدامات شروع بھی کردیئے گئے ہیں ابھی الہ دین پارک کی جگہ محض ایک خالی زمین کا ٹکڑا ہے جسے سرسبز اور شاداب پارک میں بدلا جانا ہے جس کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اپنی کوششیں شروع کردی ہیں اور اب ایک بار پھر اسی ٹیم نے ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سید سیف الرحمن کی سربراہی میں کڈنی ہل پارک کو درحقیقت ایک مثالی اور خوب صورت پارک کی حیثیت دینے کے بعد اسی ٹیم نے الہ دین پارک کا رخ کرلیا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے بلدیہ عظمیٰ کراچی بہت جلد کڈنی ہل پارک کی طرز پر ہی الہ دین پارک کو بھی ایک خوب صورت اور مثالی پارک ”جناح پارک“ میں تبدیل کردے گی، آخر میں شہر کی خوب صورتی کے لیے کام کرنے والے تمام لوگوں کو سلام۔
کڈنی ہل پارک کی تعمیر و ترقی میں جن لوگوں نے حصہ لیا وہ اب ایک بار پھر الہ دین پارک کو ایک خوب صورت پارک بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہوگئے ہیں اور ان سب کام کرنے والوں کے لیے کیفی اعظمیٰ کے اس شعر پر اپنے مضمون کا اختتام کروں گا کہ ؎
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کرلیا ہے صحرا نے
========================================