والد کے بیانیے کی فتح میں بیٹی کا کردار ۔

تاریخ گواہی دے گی ایک بہادر بیٹی نے عوام کے محبوب لیڈر کے بیانیے کی فتح میں کس قدر جذبے اور ہمت کا مظاہرہ کیا اور اپنے والد کو سرخرو کر دکھایا ۔

یہ سچ اور جھوٹ کی لڑائی تھی ۔
رحم دل اور سنگدل مدمقابل تھے۔
عوام دوست اور عوام دشمن کا آمنا سامنا تھا ۔
جیت آخر سچ کی ہونی تھی ۔
غرور کا سر نیچا ہی ہونا تھا ۔

قدرت کی آزمائشیں تھی ، امتحان بہت کڑا تھا ، سفر بہت لمبا تھا ، جدوجہد صبر آزما تھی

لیکن بہادر باپ کی بہادر بیٹی بلند عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چلی ،


ہر ظلم ہر ستم سے جا ٹکرائی ، حق اور سچائی کا راستہ نہ چھوڑا ،

ظالم کے سامنے نہ باپ نے سرنڈر کیا تھانہ بیٹی نے سرنڈر کیا ۔
حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

ہاں مگر بیٹی نے اس فیصلہ کن لڑائی میں بیمار ماں کو کھو دیا ، یہ عظیم قربانی دی تھی ۔

اس دوران والد اور بچوں سے دوری سہنی پڑی ، اپنی صحت تباہ ہوئی ، اسی بیچ بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کا وقت بھی آیا ،

ایک ماں کے اپنے بیٹے کے لیے کیا کیا ارماں ہوتے ہیں یہ سارے یادگار لمحات قومی جدوجہد کی نذر ہوگئے ہاں وہ اپنی بیٹیوں کی ننھی اولاد کو گود میں نہ کھلا
سکی مگر پوری قوم کے ننھے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی جدوجہد میں سب سے آگے رہی ۔
ہاں یہ سب قربانیاں اور جدوجہد یاد رہے گی کیونکہ مقصد بہت بڑا اور بہت عظیم ۔۔۔۔۔یہ قوم کے مستقبل کا سوال تھا ۔۔۔۔۔۔خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے ہمت دی اور سرخرو کیا ۔۔۔۔شاباش ۔۔۔۔۔مریم نواز شریف ۔۔۔۔شاباش
============================