نیپال کی مقدس کنواری چوٹی مچھا پوچھارے


رب کا جہاں
========
نوید نقوی
======
صاحب / صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ آئیے اس بار رکشے کا رخ ایک ایک ایسے خوبصورت ملک کی طرف کرتے ہیں جو چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے اور Land locked ہے۔اس ملک میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ بھی موجود ہے جس کا نام ماؤنٹ ایورسٹ ہے، اس کی بلندی 8848 میٹر ہے، نیپال جنوبی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہےجس کا زیادہ تر حصہ سلسلہ کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔اس کی کل آبادی 26.4 ملین ہے اورفہرست ممالک بلحاظ آبادی یہ دنیا کا 48واں بڑا ملک ہے اور بلحاظ رقبہ یہ دنیا کا 93واں بڑا ملک ہے اس کا کل رقبہ
147,181 مربع کلومیٹر ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں چین، جنوب، مشرق اور مغرب میں بھارت ہے۔ بنگلہ دیش یہاں سے محض 27 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ بھوٹان اور نیپال کے بیچ میں بھارت کی ریاست سکم ہے۔ نیپال کا جغرافیہ انتہائی متنوع ہے۔ یہاں زرخیز میدانی زمین،جنگلاتی پہاڑ اور دنیا کے آٹھ بلند ترین پہاڑ بھی ہیں نیپال کا دارالحکومت کھٹمنڈو ہے اور یہی ملک کا بڑا شہر بھی ہے۔ نیپال میں کئی نسلوں کے لوگ رہتے ہیں جبکہ نیپالی زبان یہاں کی سرکاری زبان ہےنیپال میں اسلام تقریباً 600 سال پہلے داخل ہو چکا تھا نیپال میں اسلام تین راستے سے داخل ہوا نیپال میں سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلم آبادی 11 لاکھ 62 ہزار 370 ہے۔ یہ تعداد نیپال کی کل آبادی کا چار سے پانچ فیصد حصہ ہے۔ تاہم کچھ مسلم سکالرز کا ماننا ہے کہ نیپال میں اصل مسلم آبادی 10 فیصد کے قریب ہے۔اس وقت نیپال کی مجموعی آبادی تقریباً تین کروڑ ہے۔2006 میں یہاں250 برس قدیم بادشاہت کا زوال ہوا اب یہ ایک جمہوری ملک ہے۔اب اس کنواری مقدس چوٹی کا ذکر کرتے ہیں جس کو سر کرنا غیر قانونی ہے۔مچھاپوچھارے (مچھلی کی دم) نامی پہاڑ وسطی نیپال کے انناپورنا پہاڑی سلسلے میں چھ ہزار 993 میٹر بلند ایک مشہور پہاڑ ہے۔ اس انناپورنا پہاڑی سلسلے میں دنیا کی 10 بلند ترین چوٹیوں میں سے تین موجود ہیں۔لیکن دوسری بلند چوٹیوں سے دور اپنی پوزیشن کے سبب یہ باآسانی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ انناپورنا کے پہاڑی سلسلے میں یہ اپنی پوزیشن کی وجہ سے تنہا نظر آتا ہے اور دوسری چوٹیوں سے کم بلند ہونے کے باوجود علیحدہ ہونے کی وجہ سے بہت بلند نظر آتا ہے۔اس چوٹی کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ مختلف جگہ سے اس کی مختلف صورت نظر آتی ہے اور کسی بھی زاویے سے دیکھیں تو اس کی عمودی چڑھائی حیرت انگیز طور پر نمایاں نظر آتی ہے۔جڑواں مخروطوں یا بیل کی طرح وہ ایک دوسرے میں گوندھی ہوئی اٹھتی ہیں مچھاپوچھارے کی دو چوٹیاں ایک تیز ڈھلوان پشتے سے ملتی ہیں اور ایسا نظر آتا ہے جیسے وہ خط اتصال پر کھڑا ہے اور دو متناسب مثلث نظر آتے ہیں۔ یہ اس کا دوسرا پہلو ہے۔ اس پہاڑ کے ساتھ ایک خوبصورت جھیل بھی ہے اس کا نام پھیوا جھیل ہے۔ آپ اس میں مچھاپوچھارے کے دیدہ زیب عکس کو دیکھ سکتے ہیں یہ ایک ایسا طلسماتی منظر ہوتا ہے جس میں انسان کھو کر دنیا جہان کے غم بھول جاتا ہےصبح سویرے اور شام کو اس پر پڑنے والی سورج کی روشنی ایک دلفریب منظر پیش کرتی ہے اور انسان قدرت کی اس صناعی گیری کا دیوانہ ہو جاتا ہےدیہی علاقوں کی ڈھلوانوں پر بیگناس جھیل کے آس پاس سے اس کی چوٹی سے بکھرنے والی نمایاں روشنی کو دیکھ کر دل کرتا ہے ہمیشہ کے لیے یہاں قیام کیا جائے اور قدرت کے ان شاہکاروں کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو طراوت بہم پہنچائی جائے۔مچھاپوچھارے کے نیچے ماردی ہمل نامی ایک چھوٹی چوٹی کے بیس کیمپ پہنچا جا سکتا ہے سنہ 2012 میں قائم کیے جانے والے اس بیس کیمپ تک کا پانچ روزہ مختصر سفر ہے جو 40 کلومیٹر ٹریکنگ کے بعد ساڑھے چار ہزار میٹر کی اونچائی پر آتا ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے مچھاپوچھارے کا بہترین نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ماردی ہمل کی چوٹی کی طرف مزید 1000 میٹر کی بلندی والی جگہ مچھاپوچھارے کو دیکھنے کے لیے قریب ترین مقام ہے۔ مچھاپوچھارے پر چڑھنا ممنوع ہے، نیپال جیسے ملک میں یہ شاذونادر بات ہونے کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ پہاڑ کی سیاحت کو نیپال نے اتنے جوش و خروش سے اپنایا ہے کہ دنیا کے بلند ترین مقام ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کے لیے بھی بھیڑ لگی ہوتی ہے۔نیپال میں تجارتی ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کے زور و شور کے باوجود مچھاپوچھارے ایک کنواری چوٹی ہے۔ اور اس کی وجہ ایک شخص ہے: لیفٹیننٹ کرنل جیمز اوون میریون رابرٹس (1916-1997)۔وہ جیمی رابرٹس کے نام سے مشہور ہیں اور برطانوی فوج کے ایک مشہور افسر تھے۔ نیپال میں اور ہمالیہ پہاڑ کی کوہ پیمائی کے سلسلے میں ان کی خدمات گرانقدر ہیں۔ رابرٹس کو سنہ 1958 میں نیپال کے پہلے فوجی اتاشی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے مقام ، جذبے اور ہمالیہ کے بارے میں جانکاری کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے دور دراز کے پہاڑوں کو تجارتی کوہ پیمائی اور ٹریکنگ کے لیے کھول دیا۔ یہ ایک ایسی صنعت ثابت ہوئی جس نے نیپال کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کیا اور مقامی ذریعہ معاش پیدا کیا۔
انھوں نے نہ صرف ہمالیہ کی کوہ پیمائی کے سنہرے دور کا در کھولا بلکہ جب انھوں نے سنہ 1964 میں ماؤنٹین ٹریول نامی ملک کی پہلی ٹریکنگ ایجنسی کی بنیاد رکھی تو انھوں نے ہمالیہ کی خوبصورتی کو باقی دنیا کے لیے بھی قابل رسائی بنا دیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے ’ٹریک‘ کی اصطلاح کا انتخاب کیا اور اسے مقبول بھی کیا جو کہ آج ہمالیہ میں کوہ پیمائی کا مترادف بن گیا ہے۔ ان سب چیزوں کے لیے انھیں آج بھی نیپال میں ’بابائے ٹریکنگ‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔پوکھرا اور مچھاپوچھارے میں رابرٹس کی دلچسپی اس وقت بڑھی جب سنہ 1936 میں نیپال سے ایک فوجی افسر کی تحریر انھوں نے پڑھی۔ اس میں انھوں نے پہاڑ اور پھر جھیل کے کنارے آباد ایک دلچسپ شہر کے بارے میں لکھا تھا۔رابرٹس نے ولفریڈ نویس کی کتاب ’کلائمبنگ دی فشز ٹیل‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’پوکھرا اور ماچاپوچارے اور اس گاؤں کو دیکھنے کا مجھ پر جنون سوار ہو گیا جن میں ہمارے لوگ رہتے تھے، اور خاص طور پر گرونگز (ہمالیہ کا ایک اہم گورکھ قبیلہ) کو دیکھنے کا۔ لیکن اس زمانے میں نیپال کے اندرون کا حصہ ایک ممنوعہ سرزمین تھی، جو اپنے زمانے میں مکہ یا لہاسا سے بھی زیادہ حفاظت سے بند تھے۔ آخرکار سنہ 1950 میں انھوں نے قریب سے اپنے پسندیدہ پہاڑ کو دیکھا۔ انھوں نے اسے دیکھنے کے بارے میں لکھا ’میں اپنے نجی مقدس مقام (پوکھرا) میں پہلا انگریز تھا۔ چاندنی میں مچھاپوچھارے چمک رہا تھا، ایک بہت بڑا سفید اہرام حیرت انگیز طور پر سب سے علیحدہ نظر آ رہا تھا،اس طرح مچاپوچارے میرے لیے ایک مثالی پہاڑ بن گیا، ایک ذاتی ملکیت تاہم ماورائے دنیا، ناقابل تسخیر لیکن غیر منطقی حق کے ذریعہ میرا، ایک ایسے ملک میں جس ملک نے اور جہاں کے لوگوں نے میری باقی زندگی کو تشکیل دیاسنہ 1957 میں مچھاپوچھارے کو 20 سال سے زیادہ عرصہ تک جاننے کے بعد رابرٹس نے پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کے لیے پہلی مہم کا اہتمام کیا (نائس کی سربراہی میں جس میں کچھ دوسرے کوہ پیما بھی تھے) کیونکہ اس وقت تک باضابطہ طور پر اسے سر نہیں کیا گیا تھا۔
نائس نے چڑھنے کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں ان میں ایک بات نمایاں نظر آتی ہے کہ جب لاجسٹکس کی وجہ سے کوہ پیماؤں کو دو دو کی ٹکڑی میں کرنے کی بات آئی تو رابرٹس نے انتہائی آسانی کے ساتھ اپنے خواب سے دستبرداری پر رضامندی ظاہر کر دی۔ رابرٹس نے رضاکارانہ طور پر معاون ٹیم کو نیچے لے جانے کے کام ذمہ اٹھا لیا جبکہ نائس اور ایک اور کوہ پیما چوٹی سر کرنے کے لیے آگے بڑھے۔بالاخر خراب موسم کی وجہ سے انھوں نے بھی چوٹی سے صرف 45 میٹر نیچے سے چوٹی سر کرنے کے خواب کو چھوڑ دیا۔
اس مہم کے بعد رابرٹس نے نیپال حکومت سے ایک عجیب سی درخواست کی کہ چوٹی کے سر کرنے پر پابندی لگا دی جائے، اس طرح مچھاپوچھارے ایک ایسی نمایاں ہمالیائی چوٹی ہے جو ہمیشہ ناقابل تسخیر رہے گی۔
حیرت کی بات یہ ہے نیپالی حکومت نے اس گزارش کو تسلیم بھی کر لیا۔وہ انا والے کوہ پیما نہیں تھے۔ اگرچہ اس معاملے میں ایسا نظر آتا ہے کہ اگر وہ اس پر نہیں چڑھ سکے تو کوئی اور بھی اس پر نہ چڑھ سکے۔رابرٹس کا گرونگوں کے ساتھ زبردست لگاؤ تھا۔ وہی لوگ جن کے لیے مچھاپوچھارے ایک مقدس چوٹی ہے اور وہ اس کے حق میں نہیں کہ غیر ملکی کوہ پیما اس کو سر کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم نیپال میں متعدد برادریوں اور قبائل کے لیے مختلف پہاڑ مقدس ہیں لیکن حکومت ان پر چڑھنے کے اجازت نامے جاری کرنے سے نہیں رکی، اور نہ ہی روبرٹس دوسرے پہاڑوں پر چڑھنے سے رکے۔ لیکن شاید یہ گرونگ عوام سے ان کی محبت اور اس پہاڑ کے ساتھ ان کا قلبی لگاؤ تھا جس کی وجہ سے رابرٹس نے وہ غیرمعمولی درخواست کی تھی۔اس چوٹی کو سر کرنے ممانعت اسے مزید پراسرار بنا دیتی ہےبہر حال رابرٹس نیپال کی حکومت کو اس کے لیے کس طرح راضی کرنے میں کامیاب ہوئے یہ ابھی بھی راز ہے۔ نیپال کے اندر وسیع پیمانے پر یہ قبول کیا گیا ہے کہ اس کنواری چوٹی پر چڑھنا غیر قانونی ہے۔درحقیقت اس چوٹی کے ساتھ رابرٹس کا لگاؤ بے پناہ تھاوہ مسکراتے ہوئے کہتے تھے کہ ‘یہ بہت اچھا ہے کہ انھوں نے اب تک میرے مشورے کو قبول کیا ہے کہ اس چوٹی کو مقدس رہنا چاہیے۔اور اس وقت سے یہ عام طور پر قبول کیا گیا کہ یہ مقدس ہے۔آج موجودہ نظریہ یہ ہے کہ یہ پہاڑ مقدس ہے اور اس لیے اس پر چڑھنا ممنوع ہے۔ مچھاپوچھارے کے ایک شاعر اور قدیم رہائشی تریتھا شریشٹھا نے مقامی لوگوں کے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘مچھاپوچھارے کی چوٹی قدم رکھنے کے لیے نہیں ہے، یہ صرف آنکھوں سے چاہے جانے کے لیے ہے۔ہمالیہ کی خوبصورتی کے بارے میں کوئی بات مچھاپوچھارے کے ذکر کیے بغیر نامکمل ہوگی۔ اس کی خوبصورتی نے شاعروں، مصنفوں اور فنکاروں کو بہت متاثر کیا ہے۔ بہت سارے لوک گانوں میں، پہاڑ کی تعریف کی گئی ہے۔ہمارے لیے مچھاپوچھارے خوبصورتی کا نچوڑ ہے۔کوئی خوش قسمت جو ماردی ہمل ٹریک پر یا وادی پوکھرا کے آس پاس گیا ہو وہ اس کی خوبصورتی کا منکر نہیں ہو سکتا جب بھی کوئی سیاح نچلی پہاڑیوں میں صداربہار جھاڑیوں کے جھرمٹ سے گزرتاہے تو ہر وقت اوپر تیرتے بادل کے درمیان افق پر انناپورنا پہاڑی سلسلے میں مچھاپوچھارے دور پرشکوہ انداز میں کھڑا نظر آتا ہے اور عجیب سا کیف دیتا ہے۔ اور اس کی قابل تسخیر ممنوعہ چوٹی اسے مزید دلکش بنا دیتی ہے۔ نیپالی حکومت نے اس کو سر کرنے پر کیوں پابندی لگائی یہ ایک ایسا راز ہے جو شاید ہم کبھی نہ جان سکیں لیکن اس کی خوبصورتی دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔
=============================