سیدنا کریم، ختم المرسلین صلی اللہ علیہ و آل وسلم

=================
عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)

اللہ تعالٰی نے جتنے نبی اور پیغمبر اس دنیا میں بھیجے بطور مسلمان اُن سب کا احترام ہم پر لازم ہے۔ مگر قرآن پاک کی روشنی میں نبی آخرالزمان حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا مقام تمام انبیا سے ممتاز، منفرداور جدا ہے۔ اور دیگر بے شمار خصائل و کمالات کے علاوہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا آخری نبی ہونا سرِ فہرست ہے۔ اور یہ واحد وجہ آپ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے درجہ کمالات کو اوجِ ثریّا پر فائز کرتی ہے کہ جسکا کوئی دیگر نہ گمان کر سکتا ہے نہ اس مقام پر پہنچ سکتا ہے۔

حُسن یوسف، دمِ عیسٰی، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

جب قرآن کریم نے ببانگِ دہل یہ اعلان فرما دیا کہ “ آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا” ( سورہ المائدہ آیت نمبر ۳) اور پھر سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں کچھ یوں حکم ہوا “ کہ محمّد صلی اللہ علیہ و آل وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں۔ بلکہ خدا کے پیغمبر اور اللہ کے آخری نبی ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے۔” ان واضح اور دو ٹوک قرآنی آیات اور احکام خداوندی کے بعد کسی اور نبی کی آمد یا کسی اور شریعت کے نفاذ کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں اور جو کسی کاذب اور من گھڑت نبی یا کسی نئی شریعت کا سوچے گا بھی وہ خائب و خاسر اور مخذول و مردود گردانا جائے گا۔

وہ کون ذی شان ہستی ہے جس پر قرآن کی زبان میں اللہ تعالٰی اپنی نعمت کے کمال اور دین کے کامل ہونے کا ذکر فرما رہے ہیں۔ اور وہ کون کریم اور بے مثل ہستی ہے جس پر سلسلہ نبوت کے خاتمہ کا اعلان ہو رہا ہے۔ کیا محمّد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے علاوہ کسی دیگر کے بارے میں ایسا گمان بھی ممکن ہے۔

اب اگر کوئی بدبخت یا کج فہم اپنی کسی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو آخری نبی ماننے سے انکار کر دے اور اسکے لیے من گھڑت تاویلات تراشے اور کسی ایرے غیرے کاذب کو نبی کا درجہ دیکر اُسکی اطاعت کا دم بھرے تو اُس سے بڑا بد قسمت کون ہو گا۔ وہ یوم جزا اس وجہ سے عذاب کا مستحق ہو گا کہ اُس نے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو بڑی معمولی دنیاوی منعفتوں یا اپنی کم علمی اور غفلت کی بدولت آخری نبی ماننے سے انکار کیا۔ جب کہ اس کے برعکس یومِ حشر نبی آخری الزمان حضرت محمّد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی شفاعت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لازم ہے۔ لہٰذا کسی گناہ گار مسلمان جو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی ختم نبوت پر یقین کامل رکھتا ہو اُسکے دیگر گناہوں کی معافی تو اللہ تعالٰی کی رحمت اور کریمی کے صدقہ بالکل عین ممکن ہے۔ مگر کسی ایسے شخص کو جو سب کچھ جانتے ہوئے محمّد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو آخری نبی ماننے کی بجائے کسی کاذب اور ریاکار کو نبی مانے اور اُسکا ایمان ختمِ نبوت پر نہ ہو اور ایک بڑی آفاقی حقیقت کو جھٹلائے اور قرآن و سنت کے واضح احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی دین گھڑے اُسکا ٹھکانہ کیا ہو گا اسکے لیے کسی بحث کی ضرورت نہ ہے۔

منکرینِ ختمِ نبوت اگر عقل و خرد سے کام لیتے اور غور و فکر کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے تو قرآنِ کریم کے چشمۂ صافی و شیرین سے وہ اپنی تشنہ لبی کا درمان کر لیتے۔ مگر جب خست طبع حُسنِ نیت پر غالب آ جائے تو نور کی طرح دمکتی اور چمکتی روشنیوں میں بھی بصارت ذائل ہو جاتی ہے۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آل وسلم نے واضح طور پر اعلان کیا کہ اُنکے بعد کئی کاذب نبوت کا جھوٹا دعوٰی کریں گے اور بعض روایات میں اُنکی تعدا تیس بتائی گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف اوقات میں دنیا کے مختلف حصّوں میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ مگر محمّد عربی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی اُمّت نے بحیثیت مجموعی کبھی کسی کاذب کو نبی نہیں مانا اور وہ شاید دنیا کی واحد ہستی ہیں کہ چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہر آن اور ہر لحظہ اُنکی مقبولیت، پزیرائی اور اُنکے پیروکاروں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کسی مسلمان کا ایمان مکمل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کو اللہ تعالٰی کا آخری نبی، سچا رہبر اور حتمی ہادی نہ مانے۔ ایسا نبی جو نہ پہلے آیا نہ بعد میں کوئی گنجائش تھی۔ جس نے کفر و الحاد میں ڈوبی انسانیت کو اپنے افکار و اعمال، حسنِ کردار سے ایسا دلنشین اور سحر انگیز انقلاب برپا کیا کہ تاریخ اسکی نظیر نہ پیش کر سکی ہے، نہ کر سکے گی۔ اُس بوریا نشین نے اپنی سادگی مگر کردار کی پختگی، اپنے قول و عمل، عزمِ صمیم، اللہ پر پختہ یقین اور اپنے جانثار ساتھیوں کی بدولت دنیا کی کایا پلٹ دی۔ عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو لازم ہے اور اسکی حفاظت عین فریضہ۔ محمّد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آل وسلم ہر مسلمان کے دل میں بستے ہیں اور ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے کہ وہ اپنے والدین اور اپنی اولاد سے بڑھکر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کا احترام کرے۔ اُنکی عزت و آبرو اور تقدس و تحریم کے لیے مر مٹنے پر تیار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود دنیا کے کسی کونے سے حرمت نبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم پر کوئی گزند پہنچانے کی ناپاک کوشش کرتا ہے تو دنیا کے ہر کونے سے اُس کریم نبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی عزت و آبرو، تقدس و تحریم کے لیے اتنی بھرپور آواز اُٹھتی ہے کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آل وسلم سے وابستگی اور وارفتگی، عشق کی یہ بے تابیاں اور جذب کی سرمستیاں، عشق نبی کی سرخروئی کا عنوان ہیں اور ان سے صرف وہی آشنا ہوتے ہیں جن کو محبت نبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے بادۂ گلفام کا کوئی جام پلایا جاتا ہے۔ اور یہ جامِ عشق و محبت صرف نصیب والوں کے ہی حصّہ میں آتا ہے۔

================================