پاکستان میں تعلیم کے ساتھ مذاق کب تک ۔۔۔۔۔۔۔


تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ
================
چند دن پہلے پنجاب بھر کے انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈز نے کلاس نہم کے نتائج کا اعلان کیا ھے جس کے مطابق سرکاری سکولز کا رزلٹ بہت خراب آیا ھے تفصیلات کے مطابق تقریباً 50 فیصد طلبہ فیل ھوئے ھیں جس پر سوشل میڈیا پر ایک بحث چل رھی ھے لوگ ان خراب نتائج کا ذمہ دار اساتذہ کو دے رھے کہ سرکاری اساتذہ اپنے فرائض منصبی ٹھیک طرح سے سر انجام نہیں دے رھے بلکہ سکولز آتے ھیں گپ شپ کرتے ھیں چائے وغیرہ پیتے ھیں اور گھروں کو چلے جاتے ھیں کچھ لوگ سسٹم کو ذمہ دار قرار دیتے ھیں کہ ھمارا تعلیمی نظام ایک سازش کے تحت تباہ کیا گیا ھے
اگر آپ حقائق کو دیکھیں تو سرکاری اداروں خاص طور پر تعلیم اور صحت کے نظام کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا ھے تاکہ نجی اداروں کو فروغ مل سکے اور یہ بات حقیقت بھی لگتی ھے کہ جس طرح سرکاری تعلیمی ادارے تنزلی کا شکار ھیں ان کے مقابلے میں پرائیویٹ اداروں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رھے ھیں
عرصہ دراز سے حکومت نے تعلیمی نظام کو ایک مذاق بنایا ھوا ھے بلکہ دیگر معاملات کی طرح تعلیم جیسے اھم ترین شعبہ کو ڈنگا ٹپاؤ سسٹم کی طرح چلایا جارھا ھے ذرا ذرا سی بات پر سارا نزلہ تعلیمی ادارے پر ھی گرایا جاتا ھے جس کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم ایک مذاق بن کر رہ گئی ھے آخر یہ کیا سلسلہ ھے کہ
۔۔ہشتگردی آئی ۔۔ تعلیمی ادارے بند
۔۔سیلاب ائے تعلیمی ادارے بند
۔۔۔زلزلے ائے تعلیمی ادارے بند
۔۔ڈینگی ائے تعلیمی ادارے بند
سردیاں ائیں تعلیمی ادارے بند
گرمیاں ائیں تعلیمی ادارے بند
بارشیں زیادہ ھوں ادارے بند
سموگ ائے تعلیمی ادارے بند
میچز ائیں تعلیمی ادارے بند
کرورنا ائے تعلیمی بند
کوئی غمی و خوشی ائے تعلیمی ادارے بند
مختلف ایشوز کو بنیاد بنا کر ادارے بند کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم میں روز نئے نئے تجربات بلکہ شعبہ تعلیم کو تخت مشقت بنا رکھا ھے جتنے تجربات پچھلے بیس پچیس سالوں سے سرکار نے تعلیم کے میدان میں کر رکھے ھیں شاہد ھی کسی اور ملک میں ھوئے ھوں اور یہ تجربات اج بھی زور و شور سے جاری ھیں
ھر انے والا دن محکمہ تعلیم کی پالیسیوں میں نئی نئی اصلاحات لے کر اتا ھے ۔۔۔کھبی انگلش میڈیم کے نام پر اربوں روپوں کی لاگت سے پہلی کلاس سے اٹھویں کلاس تک کتابوں کی چھپائی اور سپلائی اب وہ انگلشں میڈیم کتب سکولز کے سٹورز کی زینت یا پھر ردی میں استعمال ھورھی ھےاور ان کتب کی تیاری کے لیے غیر ملکی امداد کی مد میں ائے اربوں روپے مخصوص لوگوں کی جیبوں میں جارھا ھے جبکہ تعلیم کو کوئی فائدہ نہیں
فروغ تعلیم کے نام پر ایشیائی بنک ،عالمی بنک ۔آئی ایم ایف و دیگر فنڈز کی جانب سے سرکاری تعلیمی اداروں کے لیے مختلف اسیکموں اور منصوبوں پر انے والے لاکھوں ڈالرز کی امداد آتی ھے وہ کہاں چلی جاتی ھے آج تک کسی کو کوئی پتہ نہیں البتہ کسی بھی پراجیکٹ کے لیے کرائے کی بلڈنگز حاصل کی جاتی مشینری آلات فرنیچر خریدے جاتے ھیں گاڑیاں لی جاتیں ھیں وزٹ ھوتے ھیں پڑول کی مد میں لاکھوں خرچ کئے جاتے ھیں
اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے ہوٹلوں میں مختلف این جی اوز کے تعاون سے چند روزہ سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد زور و شور سے کیا تھا ایک ایسے ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے پروگرامز اور ان میں انگلشن زبان کی بھرمار ھوتی ھے جہاں انگریزی کو سمجھنے والے صرف پچیس یا تیس فیصد لوگ رہتے ھیں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے لمبی لمبی باتیں ھوتی ھیں ان ورکشاپ و کانفرنس پر رپورٹس تیارکی جاتی ھیں جن میں ان پروگرامز کی تصاویر شامل کی جاتی ھیں لاکھوں کروڑوں کا خرچا پانی کیا بل بنائے اور پھر اپنے اپنے گھروں میں واپسی ھو جاتی ھے
تعلیمی شرح بڑھانے کے لیے محکمہ تعلیم نے غیر ملکی امداد سے کئی منصوبے بنائے ۔۔کرائے کے مکانات میں دفاتر بنائے گئے ۔۔خوبصورت فرنیچرز اور نئی نئی گاڑیوں کی خریدداری کی جاتی ھے صوبے کے مختلف علاقوں کے ٹورز کئے جاتے اور ٹی اے ڈی اے حاصل کیا جاتا ھے ان پروجیکٹس کے نام پر چند دن کی موج مستی کی جاتی ھے اور بس
اگر تعلیم کے نام پر عالمی مالی اداروں کی امداد سے چلنے والے مختلف پروگرامز کا جائزہ لیا جائے تو رزلٹ صفر بٹا صفر
جب 2020 میں کرورنا ایا تو پھر سب سے پہلے نزلہ سکولز کالجز پر گرا بچوں کی صحت و حفاظت کے نام فوری طور پر تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ۔۔۔
حکومت نے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ۔مارکیٹ ۔بازار ۔شادی ھال ۔شاپنگ مال ۔۔گاڑیاں بند کر دیئے گئے ۔۔۔پورے امور زندگی بند کر دیئے گئے مگر اللہ کا فضل ھوا ۔کرورنا کم ھونا شروع ھوگیا ۔۔مختلف معلامات چلانے کے ایس او پیزز بنائے گئے سکولز و کالجز کے علاوہ کرورنا ایس او پیز کا جو حال عوام نے کیا وہ سب کے سامنے ھے بازاروں جلسے جلوس شاپنگ مال وغیرہ پر ایس او پیز کی دھجکیاں ھوا میں اڑ دی گئیں۔سب کچھ کھل گیا ۔مگر تعلیمی ادارے بند رھے
طلبہ بازاروں شاپنگ مالز وغیرہ میں ایس او پیز کے بغیر گھومتے رھے اخر کئی ماہ کی طویل بندش کے بعد تعلیمی ادارے مکمل ایس او پیز کے ساتھ کھول دیئے گئے ایک بات واضح ھوئی کہ سکولز کالجز وہ واحد جگہ ھیں جہاں پوری طرح ایس او پیز پر عمل ھورھا ھے جہاں انتظامیہ اور اساتذہ ان ایس او پیز پر پوری طرح عمل درامد کروا رھے ھیں ۔۔کیونکہ طلبہ وہ واحد مخلوق ھے جو صرف اپنے اساتذہ کی مانتی ھے ۔ چھ سات ماہ بعد تعیلمی سسٹم بحال ھونا شروع ھو گیا ۔ کرورنا چھیٹوں کے دوران ان لائن تعلیم کا نظام شروع کیا گیا مگر اس کا فائدہ صرف ان علاقوں میں ھوا جہاں نیٹ دستیاب تھا ۔
وقت نے ثابت کیا کہ ان لائن سسٹم صرف وقت کا ضیا تھا کیونکہ جو تعلیم و تربیت کلاس روم یا سکول دے سکتا ھے وہ کوئی اور نہیں۔ بغیر پڑھائی کروائے امتحان کے رزلٹ نے پوری دنیا میں پاکستانی نظام تعلیم کی جگ ہنسائی کروائی
ملک بھر میں تمام قسم کی سرگرمیاں جاری ھیں مگر نزلہ پھر تعلیمی ادارے پر گرانے کی کوشش شروع ھے اب کرورنا کے ساتھ ساتھ سموگ کا بہانہ بھی تیار ھے جب سردیوں میں سموگ آتی ھے تو تعلیمی ادارے پھر ایک دو ماہ کے لیے بند کرنے کی منصوبہ بندی شروع ھو جاتی ھے ۔طلبہ کے امتحانات ھونے ھیں انہوں نے اگلی کلاسز میں پرموٹ ھونا ھے۔
اخر طلبہ کا کیا قصور ھے جب تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں سارا سال التوا کا شکار رہتی ھے تو طلبہ کیا پڑھیںِ گئے
حکومت نے اساتذہ کو اصل ذمہ داریوں کی بجائے دیگر فضول سرگرمیوں میں مصروف کر رکھا ھے مردم شماری ھو استاد حاضر ووٹوں کا اندراج کرنا ھے تو ٹیچرز حاضر، کرورنا آئے یا ڈینگی آئے یا سموگ آئے پولیو کے قطرے پلانے ھوں تو استاد حاضر یا جلسے جلوس کو کامیاب بنانے کے لیے اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ھے کسی قسم کا سروے کروانا ھے تو اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ھے جب اساتذہ سے دنیا بھر کے کام کروانے ھیں تو وہ اپنے طلبہ کو کب پڑھائے گا اوپر سے حکومت نے مار نہیں پیار کا نعرہ دے کر طلبہ کو مادر پدر آزادی دے رکھی ھے طلبہ پر اساتذہ کا ڈر و احترام ختم ھو گیا ھے اس نعرے نے جتنا نقصان تعلیمی سسٹم کو پہنچایا ھے اس کا کوئی حساب نہیں ھے یہی وجہ ھے کہ امتحانات کا رزلٹ خراب آتے ہیں
ملک میں جب بھی کرورنا یا سموگ آئے تو تمام معاملات زندگی چلتے رھیں گئے اور بازار وغیرہ کھلے رھیں گئے ساری سرگرمیاں جاری رھیں گئیں تو کیا صرف تعلیمی ادارے بند کرنے سے کرورنا کنڑول ھو جائے گا یا سموگ ختم ھو جائے گئی
ھم نے اپنی نوجوان نسل کو اتنا نازک واندام بنا دیا ھے کہ ذرا سی مشکل بھی برداشت سے باھر ھو چکی ھے
۔خدارا نوجوان نسل کو مضبوط بنانے کے لیے سکولز کالجز میں جسمانی ورزش کو لازمی قرار دیں ۔۔
کھیل کے میدان اباد کریں ۔
ھر قسم کی مشکلات اور سردی گرمی برداشت کرنے کی ہمت پیدا کریں۔۔
۔بلکہ پوری نوجوان نسل کو فوجی تربیت دے کر ایک مضبوط اور تربیت یافتہ قوم بنائیں ۔
سرکاری اداروں کے اساتذہ کو صرف تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے اور دیگر غیر ضروری امور سے الگ رکھا جائے
اساتذہ کے مالی معاملات کو بہتر بنایا جائے ان کے سکیل کو بہتر کیا جائے اساتذہ کی تنخواہیں باقی شعبوں سے زیادہ کی جائیں تاکہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنی ڈیوٹی پر دیں تاکہ وہ ٹیوشن سنٹر نہ بنائیں
==============================