سدھن ایجوکیشنل کمپلیکس، تعمیراتی کام بند ہونے والا ہے؟ بشیر سدوزئی،

سچ تو یہ ہے،

سدھن ایجوکیشنل کمپلیکس، تعمیراتی کام بند ہونے والا ہے؟

بشیر سدوزئی،

راولاکوٹ میں قیام کے دوران میرے لیے سب سے زیادہ افسوس و تشویش ناک خبر یہ ہے کہ یونیورسٹی روڑ پر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کا زیر تعمیر خان صاحب ایجوکیشنل کمپلیکس کا تعمیراتی کام وسائل نہ ہونے کے باعث عارضی طور پر بند کرنے پر غور ہو رہا ہے۔ دو کنال سے زائد رقبہ پر چار منزلہ ایجوکیشنل کمپلیکس تعمیر کرنے کے لیے گزشتہ سال اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کیا گیا تھا۔ جہاں سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے مرکزی دفتر کے علاوہ ، ہوسٹل اور نرسنگ کالج قائم کرنے کی تجویز ہے، جس سے ریاست میں پیرامیڈیکل اسٹاف کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بہتر روزگار کے لیے فنی تعلیم کی سہولت مہیا کی جائے گی ۔ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 11 کروڑ روپے لگایا گیا تھا تاہم قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے باعث 18 کروڑ روپے میں بھی مکمل ہو جائے تو غنیمت ہے۔ تین کروڑ روپے کے اخراجات سے ،اس عظیم الشان کمپلیکس کی دوسری منزل کا کام مکمل ہوا چاہتا ہے تاہم سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر غلام حسین خان کے مطابق ” مذید کام کے لیے وسائل کم ہو رہے ہیں ، ممبران اور عوام کی جانب سے مالی تعاون نہ ملا تو ممکن ہے کام کو جاری نہ رکھا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال 7 نومبر 2021 کو راولاکوٹ میں منصوبہ کے لیے دعائیہ تقریب کے موقع پر معزز حضرات نے جن عطیات کا اعلان کیا تھا ان میں سے 20 لاکھ 70 ہزار روپے اور بعد ازاں 20 فروری 2022 کو راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں منعقد ڈونر کانفرنس میں علان کردہ رقم میں سے ایک کروڑ 22 لاکھ روپے ابھی تک وصول نہیں ہوئے جب کہ 8 لاکھ روپے سالانہ ممبر شپ فیس کے بقایا ہیں ۔ مجموعی طور پر ایک کروڑ 50 لاکھ 70 ہزار روپے قابل وصولی ہیں ۔ اگر یہ رقم فوری طور پر مل جاتی ہے تو کم از کم چھ ماہ تک کام جاری اور جب تک مذید رقم کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بار بار یاد دلانے کے باوجود معزز حضرات اعلان کردہ رقم جمع نہیں کراتے”۔ اسلام آباد میں منقعد ڈونرز کانفرنس کے موقع پر سابق وزیر اعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی نے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر بلدیات خواجہ فاروق احمد نے منصوبے کے ترقیاتی کاموں کا معائینہ بھی کیا اور کام کو تسلی بخش قرار دیا، حکومت کے پاس باقاعدہ درخواست بھی جمع کرا دی گئی ہے، لیکن وزیراعظم کی تبدیلی کے اثرات اس منصوبے پر بھی پڑے ہیں ۔ نیا وزیر اعظم سابق وزیراعظم کے اعلان کو آون نہیں کر رہا یا سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی انتظامیہ وزیراعظم سردار تنویر الیاس سے رابطہ کرنے میں ناکام رہی ۔ سردار تنویر الیاس کا تعلق بھی پونچھ سے ہے وہ اور ان کا خاندان، سماجی اداروں کی ذاتی حیثیت میں بھی فراخدلانہ مدد کرتا ہے تنظیم کی خدمات کے بارے میں پوری معلومات رکھتے ہیں، توقع ہے کہ وہ اس عظیم الشان تعلیمی منصوبے کی تکمیل میں نہ صرف سرکاری سطح پر اس سے بھی زیادہ مالی مدد فراہم کریں گے بلکہ ذاتی حیثیت میں بھی سرپرستی فرمائیں گے ۔ طویل خدمات کی حامل سدھن ایجوکیشنل کانفرنس تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے طالب علموں کو میرٹ کی بنیاد پر اسکالر شپ دیتی ہے۔2015 سے 2022 تک اعلی تعلیم کے حصول کے لیے 418 طالب علموں میں 72 لاکھ 17 ہزار روپے کی نقد رقم اسکالر شپ اور انعامات کی مد میں تقسیم کر چکی جن میں 59 طالب علموں کا تعلق ملدیال، چودھری، راجپوت، کیانی ، سید اور دیگر قبائل سے ہے۔تنظیم نے اپنے بانی قائد بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان کی بلا تخصیص تعلیم کو عام کرنے کی پالیسی کو آج بھی اسی جذبہ سے جاری رکھا ہوا ہے جو بابائے پونچھ کا ویژن تھا ۔ 1934 میں قائم کردہ فلاحی تنظیم جس کا نام بابائے پونچھ نے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس تجویز کیا تھا، باوجہ مجبوری رجسٹریشن دوسرے قبائل کے سربراہان کی تجویز پر “سدھن ایجوکیشنل کانفرنس” رکھا گیا۔جب سے بلا تعطل اپنے منشور پر عمل پیرہ ہے ۔پونچھ میں نامور تعلیمی اداروں، خان صاحب پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ راولاکوٹ، پونچھ میڈیکل کالج، یونیورسٹی کیمپس منگ اور دیگر عمارات کی تعمیر میں عملی حصہ اور تعلیمی مقاصد کے لیے، راولپنڈی، منگ، پلندری میں ایک، ایک کنال اور گھائی گلہ میں 20 کنال اراضی کا حصول بڑا کارنامہ ہے۔ 88 سالہ تحریک کے نتیجے میں پاکستان بھر میں پونچھ کا اعلی تعلیمی معیار اور عددی برتری، خاص طور پر خواتین کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا، باغ اور راولاکوٹ میں یونیورسٹی اور دیگر اعلی تعلیمی اداروں کا قیام تنظیم اور بابائے پونچھ کی اصلاحی و تعلیم عام کرنے کی تحریک و نظریئے کی کامیابی ہے ۔ تاہم راولپنڈی، راولاکوٹ، کھائیگلہ اور پلندری میں قطعہ آراضی ہونے کے باوجود ابھی تک تنظیم کا ذاتی دفتر تعمیر نہ ہونا فیصلہ سازی کی کمزوری ظاہر ہوتا ہے ۔گزشتہ سال راولاکوٹ یونیورسٹی روڑ پر واقع دو کنال رقبہ پر خان صاحب کے نام پر کثیر منزلہ تعلیمی کمپلیکس کی تعمیر کا کام شروع ہوا ،جہاں تنظیم کا مرکزی دفتر بھی قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ اگر وسائل کم ہونے کے باعث اس تعمیراتی منصوبے پر کام بند ہوا تو نہ صرف موجودہ انتظامیہ کے لیے سوالیہ نشان ہو گا بلکہ پونچھ کے غیور عوام اور خاص طور پر سدھن قبیلہ کے ایک ایک فرد کے لیے ، باعث افسوس بھی۔ خان صاحب کرنل خان محمد خان نے دور، مفلسی اور جہالت میں مٹھی بھر آٹا کی مدد سے تعلیمی ادارے قائم کئے آج سدھنوں میں ارب پتی افراد کی کثیر تعداد اور کروڑ پتیوں کا شمار ہی نہیں، یہ ممکن نہیں کہ یہ لوگ اپنے بابا کی اصلاحی تحریک کے لیے ایندھن فرائم نہ کریں ۔ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان عظیم لوگوں کے لیے 18 کروڑ عطیات جمع کرنا کوئی مئسلہ نہیں تاہم سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی انتظامیہ، جدید این جی اوز اور سماجی ورک کے تقاضوں سے واقف نہیں یا ان پر عمل کرنا نہیں چاتی۔ بے شک اخلاص میں کمی نہیں لیکن بغیر کچھ خرچ کئے اتنے بڑے منصوبے کی تکمیل کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتی۔ کروڑوں روپے کے اخراجات کے لیے ابھی تک ادارے کے پاس ایک بھی ملازم نہیں اور نہ باقاعدہ دفتر قائم کیا گیا۔ ماضی میں کیوں کہ عملی کام کم تھا اور روزآنہ دفتر کا کھلنا ضروری نہیں تھا لیکن اب وقت ضائع کئے بغیر اعلی تعلیم اور تربیت یافتہ فرد کا بطور ڈائریکٹر تعینات کیا جانا ضروری ہو گیا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ڈونرز اور دیگر متعلقہ افراد کے ساتھ رابطہ رکھے اور روزانہ کی بنیاد پر کارگزاری بھی انجام دے۔اگر یہ انتظام کیا ہوتا تو آج یہ اعلان کردہ ڈیڑھ کروڑ روپے تنظیم کے اکاونٹ میں آ چکے ہوتے بلکہ مزید تین کروڑ روپے کا انتظام بھی ہو چکا ہوتا۔ ایسے ادارے موجود ہیں جن کے پاس سماجی بہبود کے لیے کروڑوں روپے موجود ہیں لیکن ان کو وہ رقم صرف کرنے کی صحیح جگہ نہیں ملتی، صرف رابطہ کرنے اور اپنے کام کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ نہ جانے کیوں تھوڑی سی رقم بچانے کے لیے ادارہ بنانے اور اس کو وسعت دینے میں بڑا فیصلہ نہیں کیا جاتا یا اس عظیم ادارے کو قومی سطح کا فلاحی ادارہ بنانا مقصد نہیں ہے ۔ اگر اس منصوبے پر کام بند ہوا تو دوبارہ شروع ہونے میں وقت لگے گا، پونچھ میں کام کرنے کا یہی موسم ہے ابھی تک پونچھ کے کسی شہر میں ڈونرز کانفرنس منعقد نہیں ہوئی۔ اس وقت عطیات اور فلاحی منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے سب سے موثر پلیٹ فارم انجمن تاجران ہیں، یہاں، یہاں انجمن تاجران ہیں وہاں، وہاں سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے اس زیر تعمیر منصوبے کا پیغام پہنچنا چاہیے،چاہیے اس بازار میں 20 دوکانیں ہی کیوں نہ ہوں ۔ ایسا نظام بنایا جائے کہ قبیلہ کے بااثر فرد کے بجاۓ جو کبھی اجلاس تک نہیں آیا، ہر انجمن تاجران کا صدر یا اس کا نمائندہ بحیثیت عہدہ تنظیم کا ایگزیکٹیو باڈی کا ممبر ہو۔ ہر ضلع اور تحصیل میں تنظیمی ڈھانچہ قائم کر کے وہاں کے نمائندوں کو بھی مرکزی باڈی میں شامل کیا جائے، تاکہ تنظیم عوام میں پہنچے پھر نہ صرف یہ منصوبہ بلکہ دیگر قطعہ آراضی پر بھی تعمیرات ممکن ہو سکے گی۔