یہ رحم دلی اور یہ بہادری

تحریر : شرجیل انعام میمن
21 جون ، 2022

وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ سندھ
آج محترمہ بے نظیر بھٹو کا 69واں یوم ولادت ہے ۔ وہ کس قدر رحم دل تھیں اور پھر کس قدر انہوں نے بہادری کے ساتھ ظلم، استبداد ، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کیا ، آج کا دن اس حقیقت کا ادراک کرنے کا دن ہے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں موت کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر اپنی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک خط لکھا تھا ، جو ’’میری سب سے پیاری بیٹی‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے ۔ اس خط میں شہید بھٹو اپنی بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’1957ء کے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں تو ہم ’’المرتضیٰ‘‘ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ صبح کے وقت بڑا خوشگوار تھا ۔ میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی ۔ ایک بیرل 22 اور دوسرا 480 کا تھا ۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گرایا ۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آکر گرا تو تم نے چیخ ماری ۔ تم نے اسے اپنی موجودگی میں دفن کرایا ۔ تم برابر چیختی رہیں ۔ تم نے کھانا کھانے سے بھی انکار کر دیا تھا ۔ ایک مردہ طوطے نے 1957ء کے موسم سرما میں لاڑکانہ میں ایک چھوٹی سی لڑکی کو دلا دیا تھا ۔ 21سال بعد وہ چھوٹی سی لڑکی ایک نوجوان لڑکی بن گئی ہے ، جس کے اعصاب فولادی ہیں اور جو ظلم کی طویل ترین رات میں دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کر رہی ہے ۔‘‘

ایک پرندے کی موت پر ماتم کرنے والی انتہائی رحم دل لڑکی نے تاریخ میں بہادری کی وہ مثالیں قائم کیں ، جو شاید کبھی کوئی کر سکے گا۔ اسی لڑکی نے دو فوجی آمروں کا مقابلہ کیا۔ اسی لڑکی نے ان دہشت گردوں کو للکارا، جن کی پشت پناہی عالمی طاقتیں اور پاکستان میں ان کے کارندے کر رہے تھے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب سیاست کا آغاز کیا تو دنیا بھرمیں سیاسی قوتوں کے لئے تاریخ کے سب سے مشکل وقت کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ وقت ذوالفقار علی بھٹو کے عہد سیاست سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ 3 اپریل 1979 ء کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ اپنے والد سے آخری ملاقات کر رہی تھیں تو دنیا میں سرد جنگ کا عہد اپنے خاتمے کی طرف تیزی سے رواں دواں تھا۔


سلاخوں کے ایک طرف زمین پر ذوالفقار علی بھٹو بیٹھے ہوئے تھے، جنہیں کچھ گھنٹوں کے بعد تختہ دار پر لٹکایا جانے والا تھا۔ دوسری طرف شہید بی بی اور ان کی والدہ تھیں۔ دونوں طرف جو کرب اور درد کا احساس تھا، وہ صدیوں تک بھی المیہ شاعری اور درد ناک نغموں میں بیان ہوتا رہے گا۔ شہید بھٹو نے اپنی اہلیہ اور سب سے پیاری بیٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ آج مجھے قتل کرنے جا رہے ہیں۔ میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں۔ اگر چاہو تو پاکستان سے اس وقت تک باہر چلے جاو ، جب تک آئین معطل ہے اور مارشل لاء نافذ ہے ۔ اگر تمہیں ذہنی سکون چاہئے تو اور زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتی ہو تو یورپ چلی جاؤ۔ میری طرف سے اجازت ہے ۔ ’’بیگم نصرت بھٹو جواب دیتی ہیں‘‘ نہیں نہیں ۔ ہم نہیں جاسکتے۔ ہم کبھی نہیں جائیں گے ۔ جرنیلوں کو کبھی یہ تاثر نہیں دیں گے کہ وہ جیت چکے ہیں۔ ’’شہید بھٹو پھر اپنی بیٹی بے نظیر سے مخاطب ہوتے ہیں‘‘ اور تم پنکی! ’’شہید بی بی کہتی ہیں‘‘ میں کبھی نہیں جا سکتی۔ ’’اسی لمحے سپرنٹنڈنٹ جیل پکارتا ہے‘‘ وقت ختم ہو چکا ہے ’’یہی سے تاریخ میں بہادری کی ایک اور داستان رقم ہوتی ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب اپنی والدہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی تو سرد جنگ کے عہد کا خاتمہ ہو چکا تھا


۔ دنیا میں یونی پولر سسٹم رائج ہو گیا تھا ۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا ۔ کچھ عرصے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا ۔ تیسری دنیا میں عوام دوست ، ترقی پسند اور اعتدال پسند سیاسی قوتوں کے لیے بہت مشکل وقت شروع ہو گیا ۔ دنیا بھر میں جمہوری تحریکیں کمز ور ہو گئیں ۔ نو آبادیاتی تسلط کے خلاف آزادی کی تحریکیں بھی کمزور پڑ گئیں ۔ سوشلسٹ انٹرنیشنل کا بھی وہ کردار نہیں رہا ۔ دنیا بھر کی عوام دوست سیاسی قوتوں کے درمیان روابط بھی کمزور ہو گئے اور وہ اپنے اپنے ملکوں میں تازہ دم آمرانہ اور سامراجی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلی رہ گئیں ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کے ظلم و استبداد کا اس لئے بھی زیادہ مقابلہ کرنا پڑا کہ پاکستان خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا تھا ۔پاکستان کے حکمرانوں نے افغانستان میں عالمی طاقتوں کی جنگ میں پورے ملک کو جھونک دیا تھا ۔ عوام دوست سیاسی قوتوں کے لئے جتنے مشکل حالات پاکستان میں تھے ، شاید تیسری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوں گے ۔ اس کے باوجود شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے حالات کا بہادری سے مقابلہ کیا اور تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے پلیٹ فارم سے پاکستانی قوم کو منظم کیا ۔ اسی دوران تیسری دنیا کی سیاست میں دہشت گردی کا عنصر شامل ہوا اور دہشت گردوں نے ’’غیرریاستی قوت‘‘ کے طور پر عوام دوست اور ترقی پسند سیاسی قوتوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور انہیں نقصان پہنچایا ۔


یہ وہ عہد تھا ، جس میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی دیگر رہنماوں اور کارکنوں نے جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا ۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ بہت سے کارکنوں نے اپنی پیٹھ پر کوڑے کھائے اور کچھ کارکن تو پھانسی کے پھندوں پر جھول گئے ۔ یہ خوف و دہشت کا دور تھا ۔ شہید بی بی نے اس دور سے پاکستان کو نکالا اور کٹھن جدوجہد کے بعد ملک میں جمہوریت بحال کرائی ۔ لیکن یہ جمہوری وقفہ زیادہ دیر نہ رہا ۔ اس میں بھی تین جمہوری حکومتوں کو برطرف کیا گیا اور چوتھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ایک جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ پرویز مشرف کا دور عوام دوست اور ترقی پسند سیاسی قوتوں کے لئے جنرل ضیاء کے دور سے بھی زیادہ مشکل ہوگیا۔ پاکستان کو ایک بار پھر افغانستان میں لڑی جانے والی عالمی طاقتوں کی جنگ کا ایندھن بنا دیا گیا ۔ اب سیاست کو غیر ریاستی قوتیں یعنی دہشت گرد ہی کنٹرول کرتے تھے اور دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک نیا ضابطہ نافذ کر دیا گیا، جس میں دہشت گرد ہی فیصلہ کن کردار تھے۔ تیسری دنیا خصوصا پاکستان میں عوامی سیاست کرنا رسک بن گیا ۔ پاکستان کے حکمران دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے عوام دوست اور ترقی پسند قوتوں کو کچلنے میں مصروف تھے اور دہشت گرد اس کام میں ان کے معاون تھے ۔ ان حالات میں بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا اور عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں قیادت کی ۔ وہ جانتی تھیں کہ ملکی اور بین الاقوامی طاقتیں یہ سب برداشت نہیں کریں گی اور دہشت گردوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر ان کو نشانہ بنائیں گی ۔ انہوں نے 18 اکتوبر 2007 ء کو وطن واپسی سے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے ۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کر دی تھی کہ انہیں کن لوگوں سے خطرہ ہے ۔ پھر بھی وہ پاکستان آئیں ۔ ایک حملہ ان پر 18 اکتوبر کو ہوا ۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے عوام سے اپنی رابطہ مہم جاری رکھی۔ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میرا جینا اور مرنا عوام کے ساتھ ہے۔‘‘ اور پھر بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام کے درمیان ہی اپنی زندگی قربان کر دی ۔ ایک پرندے کی موت پر رونے والی ایک نہتی لڑکی نے آمروں ، دہشت گردوں اور سامراجی قوتوں کا جس قدر مقابلہ کیا ، تاریخ کو ہمیشہ اس پر فخر رہے گا۔

—————————————