سچ تو یہ ہے۔ تولی پیر لس ڈنہ شاہراہ تکمیل کے آخری مراحل میں …. بشیر سدوزئی،

سچ تو یہ ہے۔

تولی پیر لس ڈنہ شاہراہ تکمیل کے آخری مراحل میں ۔

بشیر سدوزئی،

آزاد کشمیر کے دور دراز سرحدی علاقوں حویلی کے عوام کو راولاکوٹ سے براہ راست ملانے کے لیے زیر تعمیر ” کھائی گلہ تولی پیر لس ڈنہ شاہراہ ” تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ ایک حصہ پر تولی پیر تا گھائی گلہ 24 فٹ چوڑائی کے ساتھ کارپٹنگ جاری ہے ۔ کام کی رفتار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ 15 یوم کے بعد اس حصے پر سفر کشادہ اور پختہ سڑک پر کیا جا سکے گا جس کا کل دورانیہ 20 تا 25 منٹ ہو گا۔ جب کہ دوسرے حصے تولی پیر کو لس ڈنہ سے ملانے کے لیے بلند و بالا پہاڑ تولی پیر کے دامن میں مضبوط چٹان کاٹنے کا عمل بھاری مشینری اور بارودی استعمال کے ساتھ جاری ہے۔ مبینہ طور پر علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر کے امدورفت پر پابندی اور پہاڑ کے نشیب میں آبادی کو منتقل کر دیا گیا ہے ۔ مقامی آبادی کو پابند کیا گیا ہے کہ سخت چٹان کو کاٹنے کے لیے بارودی استعمال سے اڑھنے والے پتھر کے ٹکڑوں سے کسی بھی حادثہ کے خطرات کے پیش نظر اس سال گرمیوں میں بالائی رہاہش گاہوں کا رخ نہ کریں ۔ اطلاعات کے مطابق جو خاندان پہاڑ کے دامن میں آباد ہو چکے تھے، انسانی جانوں کے نقصان کے خطرات کے پیش نظر منتقل کر دیا گیا ۔ جموں و کشمیر کے روایتی خانہ بدوش بکروال قبیلےکی نقل و حرکت بھی محدود کر دی گئی۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ سخت چٹانوں کو توڑنے کی کوشش میں لگائی گئی سرنگوں کی آواز سے تولی پیر کے جنگلات سے وائلڈ لائف بھی ہجرت کر گئی ہے۔ اس سڑک کی خوبصورتی یہ ہے کہ بلندیوں کو چھوتی چوٹیوں پر سے گزرتی، گھنے جنگلات میں ایک سیاح لکیر کی مانید چمکتی نظر آتی ہے۔ کھائی گلہ سے تولی پیر تک سفر کرنے والوں کو راستے میں بھاری مشینری کی موجودگی اور ہیوی ٹریفک کی آمدورفت سے نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم یہ آمدورفت چند روز باقی رہے گی۔ یا ممکن ہے چند ماہ تک سلسلہ برقرار رہے جب تک لس ڈنہ تک سڑک پختہ ہوتی۔ کارپٹنگ کا کام جس تیزی سے جاری ہے توقع کی جا سکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ 20 جون تک مکمل ہو جائے گا۔ 36 فٹ چوڑائی کے ساتھ 90 کلو میٹر طویل سابق وزیراعظم نواز شریف کی ” راولاکوٹ لس ڈنہ حویلی ایکسپریس وے” کو گردش دوراں نے 24 فٹ چوڑائی کے ساتھ 30 کلو میٹر لمبائی تک محدود کر دیا، البتہ “نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے” کے مصداق یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیر تعمیر سڑک جو نواز شریف کے ویژن کے مطابق ایکسپریس وے نہ سہی آزاد کشمیر کی معیاری شاہراہوں میں سے ایک ضرور ہے۔ جس کی تکمیل کے بعد یہاں کے عوام کا اسلام آباد تک کے سفری دورانیہ میں لگ بھگ چار گھنٹے کی کمی واقع ہو گی۔ جب کہ سیاحوں میں اضافہ سے تولی پیر اور لس ڈنہ میں نئی دنیا آباد ہونے کی توقع ہے۔ راقم نے دو روز کے دوران، کھائی گلہ تا تولی پیر دو مرتبہ سفر گیا۔ پہلے روز خود ہی ڈرائیو کرتا ہوا تولی پیر پہنچا۔ راستے میں مقامی صحافی عامر محمود اور پکھر ویلفئیر آرگنائزیشن اوورسیز کے رکن نئیر غنی ہم سفر ہوئے جب کے دوسرے روز دوبارہ اس منصوبے کے حوالے سے قائم علاقائی کمیٹی کے سربراہ سردار لطیف انقلابی ایڈووکیٹ، جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے متحرک رہنماء سردار محمد انور خان، روز نامہ تلافی کے چیف ایڈیٹر مسعود حنیف خان اور ڈاکٹر عثمان خان کے ہمراہ راولاکوٹ شہر سے تولی پیر تک کا سفر ڈیڑھ گھنٹہ میں طہ کیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہراہ کی تکمیل کے بعد نہ صرف حویلی کے عوام کو سفری سہولتوں میں آسانی ہو گی بلکہ سیاحوں کو بھی بہترین سہولت میسر آئے گی اور وہ اسلام آباد سے تولی پیر صبح آکر بہترین تفریح کے بعد شام کو واپس اسلام آباد پہنچ سکیں گے، جیسے مری جانا آنا ہوتا ہے ۔ ترقیاتی کاموں میں کچھ فنی نقاص اور خامیوں کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے پر تعینات افسران ، اہلکار اور کنٹریکٹر کمپنی کے مالکان ترقیاتی کاموں میں انصاف، فرض شناسی اور دیانت داری سے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ مالکان وحید عباسی اور عاصم عباسی پروجیکٹ کی 24 گھنٹے منصوبے پر موجودگی ان کی دل چسپی کا مظہر ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ منصوبے کو مکمل کرنا چاتے ہیں۔ 2018 کے نرخوں پر منصوبے کو مکمل کرنا ان کے لیے کس قدر دشوار ہو گا اس کا اندازہ مشکل نہیں کہ کمپنی کا اسفالٹ پلانٹ ہجیرہ میں ہے ۔وہاں سے ٹرانسپورٹیشن اخراجات میں کس قدر اضافہ ہو چکا اس پر بھی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھنا ہی کافی ہے اس کے باوجود بعقول ٹھیکیدار اس منصوبہ اس لیے مشکل ہے کہ یہاں ہر کوئی انجینئر اور ہر کوئی انتظامی افسر ہے ہر کسی نے جیب میں فیتہ رکھا ہوا ہے جو گزرتے ہوئے سڑک ناپنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود کام کو جاری رکھنا ہمارا ہی حوصلہ ہے۔ تولی پیر سے کھائی گلہ تک شاہراہ کے جس حصے پر تار کول یا ڈیمر ڈالا گیا ہے وہ حصہ خوبصورتی اور معیار کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔ کچھ موڑ ابھی کشادہ کرنے کی ضرورت ہے، جہاں حادثات کے خطرات ہیں، شاہراہ پر پہلے سے موجود بازاروں کے درمیان دوکانداروں کے ساتھ سمجھوتہ کیا گیا۔ جہاں سڑک ضرورت کے مطابق کشادہ نہیں ہو سکی، بازاروں میں چوں کہ رش ہوتا ہے لہذا سڑک کی چوڑائی بھی زیادہ ہونا چاہئے ۔ کسی بھی قابض کو متاثر نہ کرنے کی پالیسی درست نہیں ورنہ آئندہ بازار کی دونوں جانب دوکان داروں اور صارفین کی گاڑیوں کی پارکنگ سے ٹریفک جام کی شکایت بڑھے گی۔ دوکان داروں کی اکثریت حق ملکیت نہیں رکھتی بلکہ جنگلات اور بیت المال کی زمین پر قابضین ہیں۔ قابضین کے ساتھ سمجھوتہ کر کے قومی منصوبے کی افادیت سے عوام کو محروم رکھنا کسی بھی لحاظ سے گڈ گورنس نہیں اور نہ ہی غربت یا بے روزگاری کے نام پر عظیم الشان شاہراہ کو متاثر کیا جانا مناسب ہو گا ۔ یہ خالصتا انتظامی مسلہ ہے لہذا کمیشنر پونچھ سمیت انتظامی افسران کی اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مسائل آج ہی حل ہوں اور آئندہ حادثات اور مسائل سے بچا جا سکے۔اہم ترین کام حفاظتی دیوار کی تعمیر کا منصوبہ ہے جو کنٹیکٹ میں شامل نہیں ۔ جس کی وجہ سے حادثات کے خطرات موجود ہیں۔ خاص طور وہ سیاح جو اس سڑک پر پہلی مرتبہ سفر کریں گے ان کی جانوں کی حفاظت کے لیے ایسی ہی حفاظتی گرل کی ضرورت ہے جیسے مظفر آباد پیر چناسی شاہراہ پر نصب کی گئی ہے یا مری موٹروے کی حفاظت کے لیے تعمیر کی گئی ہے۔ حفاظتی دیوار کے بغیر اس سڑک کو ٹریفک کے لیے کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ انتظامیہ لائشیں اٹھانے کا بندوبست پہلے کر لے۔ موٹر سائیکل پر نوجوان جس رفتار سے چل رہے ہیں بس خوف آتا ہے۔۔ ۔ منصوبہ پر کام ختم ہونے سے قبل ہی ان تمام کاموں کے لیے دوسرا ٹینڈر ہونا چاہئیے جو کسی وجہ سے موجودہ کنٹیکٹ میں شامل نہ ہو سکے جن میں حفاظتی دیوار بھی شامل ہے۔ بصورت دیگر پہاڑوں اور جنگلات میں اس خوبصورت سڑک کے منظر کو موت کے منظر میں بدلنے میں کوئی نہیں روک سکتا۔ طرز سیاست سے اتفاق نہ کرنے کے باوجود یہاں یہ کہنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہ قومی منصوبہ “راولاکوٹ تولی پیر ، کہوٹہ ایکسپریس وے” نواز شریف کے عظیم الشان منصوبے کا چربہ ہے جس کا علان انہوں نے 2017 میں کہوٹہ کے دورے کے موقع پر کیا تھا ۔ بعد ازاں 29/دسمبر 2017 کو 5 دیگر میگا منصوبوں کے ساتھ اس منصوبے کی بھی باضابطہ منظوری دی گئی۔ اس وقت اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ ڈھائی ارب سے زیادہ لگایا گیا تھا۔ منصوبے پر فوری عمل درآمد کے بجائے پہلے روز سے ہی سازشیں شروع ہو گئی ایک تجویز یہ آئی کہ تولی پیر لس ڈنہ کے بجائے راولاکوٹ، ہجیرہ، عباس پور ،کہوٹہ ایکسپریس وے تعمیر کی جائے جہاں پہلے ہی بہت کشادہ اور معیاری سڑک موجود ہے ۔ اس پر کئی ماہ تک بحث مباحثہ ہوتا رہا، لیکن اتفاق نہ ہو سکا اور نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی۔۔ 2018 میں شائد خاقان عباسی کے دور وزارت عظمی کے دوران کشمیر کونسل کے اختیارات اور بجٹ آزاد کشمیر حکومت کے پاس منتقل ہو گئے۔ لیکن اسی سال پاکستان میں حکومت بھی تبدیل ہوئی اور عمران خان وزیراعظم منتخب ہو گئے۔آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے نئے سروے کے بعد 90 کلو میٹر کی ایکسپریس وے کی لمبائی 30 کلو میٹر اور چوڑائی 36 فٹ سے کم کر کے 12 فٹ کر دی ۔ سردار محمد لطیف انقلابی کی سربراہی میں ایکشن کمیٹی قائم ہوئی جس نے دسمبر کی سخت سردی میں راولاکوٹ میں شیدید احتجاج کیا حکومت اس سڑک کو 24 فٹ چوڑا کرنے پر مجبور ہو گئی اور اب یہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کئی سال قبل جب یہ منصوبہ تنازعات کی زد میں تھا اس وقت لکھا تھا کہ مستقبل قریب میں لس ڈنہ پر،مجھے ناران کاغان یا مری کی طرز کا ایک سیاحتی شہر نظر آتا ہے جو پورے آزاد کشمیر کا مرکزی مقام ہو گا۔ جس کا ایک راستہ درہ حاجی پیر سے علی آباد کہوٹہ سے محمود گلی تک جائے گا۔ دوسرا براہ راست محمود گلی، عباس پور سے کوٹلی میرپور۔ تیسرا راولاکوٹ اور چوتھا باغ سے سدھن گلی اور دھرکوٹ سے مظفرآباد کی طرف جائے گا ۔ جغرافیائی لحاظ سے کوئی دوسری ایسی جگہ نہیں جو پورے آزاد کشمیر کو ملاتی ہو ۔ اس نوعیت کا دوسرا مقام کہاں ہے آزاد کشمیر کے ہر ضلع کو ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہو۔ یہ سڑک آزاد کشمیر کی اکنامی کوریڈور کے طور پر نمایاں ہو گی جہاں لاکھوں افراد کا روز گار اور اربوں روپے کا کاروبار ہو گا۔ کروڑوں سیاح اس شاہراہ پر سالانہ سفر کریں گے۔ اس منصوبے کو علاقائی نہیں آزاد کشمیر کی معاشی شہ رگ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔ گو کہ نواز شریف کے ویژن کے مطابق یہ منصوبہ مکمل نہ ہوا لیکن راجہ فاروق حیدر خان کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اس قدر برے حالات میں بھی کچھ کمی پیشی کے ساتھ اس منصوبے پر کام جاری رکھنے کے اقدامات کئے جو آج مکمل ہونے کو ہے لیکن تعمیراتی کمپنی مبارک باد کی مستحق ہے کہ ان نامساد حالات میں بھی کام جاری رکھے ہوئے ہے۔۔