کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی کیمپ

کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی کیمپ

کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف جمعہ کے روز کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ کا انعقادکیا گیا۔ یہ کیمپ کراچی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کی جانب سے لگایا گیا ہے۔ جس میں بڑی تعداد میں طالبات اور طلبہ نے شرکت کی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ 7 جون 2022 کو کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کردیا ہے۔ دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر غمشاد بلوچ پانچواں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ان کی جبری گمشدگی کے وقت سے لیکر اب تک خاندان کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ انہیں سیکورٹی ایجنسیوں نے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
کراچی میں خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی پر مظاہرین نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں لاپتہ ہونے والے طالب علم بے قصور اور بے گناہ ہے۔ اگر ان کے خلاف کوئی شواہد ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس طرح جبری طور پر اغوا کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مظاہرین نے سندھ میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عمل کا نوٹس لیں وگرنہ ہم سجھتے ہیں کہ وہ بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہیں۔ مظاہرین نے سندھ اور بلوچستان کی تاریخی و ثقافتی رشتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ ہوں کہ بلوچ اور سندھی کا یہ خونی اور جغرافیہ رشتہ متاثر ہوں۔ احتجاجی بلوچ طالب علموں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کو پیپلز پارٹی سے اتحاد توڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہے۔ سندھ بلوچوں کے لئے ایک جیل کی مانند رکھتا ہے۔ مظاہرین نے دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ اور کہا کہ ان کی بازیابی تک یہ احتجاجی دھرنا جاری رہیگا۔